امریکا اور ایران رضامند، براہ راست مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
تہران(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی تصدیق کرتے ہوئے ایراننے کہا ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر امریکا سے مذاکرات کرے گا، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے مطابق بالواسطہ مذاکرات ہفتے کو ہوں گے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے بعد میں اطلاع دی کہ عراقچی مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کریں گے، جبکہ عمان ثالث کا کردار ادا کرے گا۔
اس سے قبل، صدر ٹرمپ نے براہ راست مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ دھمکی آمیز بیانات کو برقرار رکھتے ہوئے یہ تجویز کیا تھا کہ امریکا ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔
تہران نے اس سے قبل مذاکرات کے لیے واشنگٹن کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کررہے ہیں۔
’یہ ہفتے کو ہوں گی، ہماری ایک بہت بڑی میٹنگ ہے، اور ہم دیکھیں گے کہ کیا ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ سمجھوتہ کرنا بہتر ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی متنبہ کیا کہ اگر ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کی سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں تو ایران ’بڑے خطرے‘ سے دوچار ہوگا، انہوں نے زور دیا کہ تہران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔
واضح رہے کہ اس مہینے کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے این بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا ہے تو اس کیخلاف بمباری ہوگی۔ ’یہ بمباری ایسی ہوگی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تہران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا اعلان اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی پسند کے مطابق نہیں ہوگا، کیونکہ اسرائیلی رہنما طویل عرصے سے محض ایران پر بمباری کے خواہاں ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایک طویل عرصے سے سمجھوتہ چاہتے تھے، تاہم نیتن یاہو یقینی طور پر سمجھتے ہیں کہ ایران کیخلاف گزشتہ برس اسرائیلی فضائی حملوں نے ایرانی دفاع کمزور کردیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اسے امریکی حمایت کے ساتھ، اسرائیل کے لیے ایران کے خاتمے کے ایک بہترین موقع کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم دوسری جانب صدر ٹرمپ حقیقت میں ایران کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ باقی دنیا کے ساتھ تجارتی جنگ میں پھنسے ہیں۔
مزید پڑھیں: اداکار نعمان اعجاز کو ’مذاق رات‘ سے کیوں نکالا گیا؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: براہ راست ایران کے کے ساتھ
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا