کراچی واٹر بورڈ کے گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے فزیکل ویریفیکیشن، تعلیمی اسناد کی تصدیق کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
بجلی فراہم کرنیوالی کمپنیوں کے الیکٹرک، حیسکو، سیپکو کا عوام سے وصول بجلی ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب 80 کروڑ روپے سندھ حکومت کو ادا کرنے اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا بلوں کی مد میں کے الیکٹرک کو واجبات کی ادائیگی کا تنازع حل نہیں ہو سکا۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ اسبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے تمام ملازمین کی فزیکل ویریفیکیشن سمیت جعلی بھرتیوں کے پیش نظر تمام ملازمین کی تعلیمی ڈگریوں کی متعلقہ بورڈز اور یونیورسٹیز سے تصدیق کرا کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ پی اے سی اجلاس میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے الیکٹرک، حیسکو، سیپکو کا عوام سے وصول بجلی ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب 80 کروڑ روپے سندھ حکومت کو ادا کرنے اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا بلوں کی مد میں کے الیکٹرک کو واجبات کی ادائیگی کا تنازع حل نہیں ہو سکا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے 2016ء سے ہر ماہ بجلی کے بلوں کی مد میں ڈیڑھ ارب روہے کے الیکٹرک کو ادائگیاں کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کہ کے الیکٹرک کو جب واٹر بورڈ کیطرف سے بلوں کی مد میں واجبات ادا ہو رہے ہیں، تو پھر کے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں عوام سے وصول 32 ارب روپے سندھ حکومت کو ادا کرنے پڑیں گے۔ پی اے سی نے واٹر بورڈ سے کے الیکٹرک کو ہر ماہ واجبات کی ادائگیاں ہونے کے باوجود کے الیکٹرک سے سندھ حکومت کو ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب سے زائد کے واجبات ادا نہ ہونے پر معاملے کے حل کیلئے آئندہ اجلاس میں کے الیکٹرک، حیسکو، سیپکو، واٹر بورڈ حکام اور محکمہ انرجی سمیت محکمہ لوکل گورنمنٹ کو طلب کرلیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈیوٹی کی مد میں بلوں کی مد میں کے الیکٹرک کو سندھ حکومت کو ملازمین کی واٹر بورڈ پی اے سی کو ادا
پڑھیں:
ججز طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں، جسٹس منصور کا عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کا فرض ہے اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں اپنے فیصلے نے کہا کہ ججز اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں، اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے، بے وفائی نہیں۔
انہوں نے لکھا کہ ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، ججوں کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے، ججز کواندروانی اور بیرونی تمام تجاوزات کا مقابلہ کرنا ہے۔
فیصلہ کے مطابق ججز کو عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے کا خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججوں کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ایسے فوائد محض وہم اور عارضی ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اصول کے دفاع میں ثابت قدم رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جج کی فقہی وراثت خوشامد پر نہیں، اصولی انحراف پر استوار ہوتی ہے، جب انصاف کی روح کو خطرہ عدالتوں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں کو آئینی اخلاقیات کا مینارہ اور جمہوری سالمیت کے محافظ ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جو اپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں، تاریخ ایسے ججز کو ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ محض تنازعات کے حل کا فورم نہیں، سپریم کورٹ قوم کا آئینی ضمیر بھی ہے۔
Post Views: 2