سب چائنہ ہے!!! آئی فون امریکہ کے بجائے چین میں کیوں بنائے جاتے ہیں؟ ایپل کے سربراہ نے راز سے پردہ اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایپل کو امریکہ میں ہی آئی فونز بنانے چاہئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ کمپنیاں ملک کے اندر ہی پروڈکشن کریں۔ ایپل نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اگلے چار سال میں امریکہ میں 500 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرے گا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں نہ فیکٹریاں ہیں، نہ وہ ماہر لوگ، اور نہ ہی وہ سپلائرز کا جال جو چین یا ایشیا میں موجود ہے۔
ہم سب سمجھتے ہیں کہ آئی فون چین میں صرف اس لیے بنتے ہیں کیونکہ مزدوری سستی ہے، یہ ایک پرانی بات ہو چکی ہے۔ اصل کہانی تھوڑی زیادہ دلچسپ ہے، اور خود ایپل کے سی ای او ٹِم کُک نے ایک ویڈیو میں یہ سب کچھ کھول کر بیان کیا ہے۔
ٹم کُک کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کمپنیاں چین مزدوری بچانے کے لیے جاتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اب سستا نہیں رہا۔ مزدوری اب وہاں بھی کافی مہنگی ہو چکی ہے۔‘
تو پھر سوال بنتا ہے کہ ایپل آخر اپنے آئی فونز چین میں ہی کیوں بناتا ہے؟
ٹم کُک نے بتایا کہ اصل وجہ ہے مہارت۔ یعنی وہاں ایسے کاریگر اور انجینئرز موجود ہیں جن کے پاس جدید ٹولز سے کام کرنے کا بہت گہرا تجربہ ہے، اور نہ صرف تجربہ، بلکہ تعداد میں بھی وہ ہزاروں میں ہیں۔
امریکہ میں اگر ٹولنگ انجینئرز جو مشینیں بناتے اور چلاتے ہیں ان کی میٹنگ بلائی جائے تو شاید ایک چھوٹا سا کمرہ بھرے۔ لیکن چین میں آپ ایسے ماہرین سے فٹبال کے کئی میدان بھر سکتے ہیں۔
ٹم کُک نے کہا، ’ہم جو چیزیں بناتے ہیں اُن میں بہت باریکی اور ایک خاص قسم کی مہارت چاہیے، جو چین میں باآسانی مل جاتی ہے۔‘
امریکہ میں ابھی اس لیول کی فیکٹریاں، اتنے تجربہ کار لوگ، اور وہ سارے سپلائرز کا نیٹ ورک موجود نہیں ہے، جو چین یا اب انڈیا جیسے ملکوں میں بن چکا ہے۔
ایپل اب چین کے بعد انڈیا کو اپنا دوسرا بڑا مینوفیکچرنگ مرکز بنانے میں لگا ہوا ہے۔
پچھلے 12 مہینوں میں ایپل نے انڈیا میں 22 ارب ڈالر کے آئی فونز بنائے! مطلب چین سے تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹ کر، ایپل انڈیا کی طرف موو کر رہا ہے تاکہ سب کچھ ایک جگہ پر نہ رہے۔
2025 مزیدپڑھیں:کے پہلے 3 ماہ میں کتنے پاکستانی بیرون ملک نوکری کیلئے گئے؟ اعداد وشمار جاری
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکہ میں چین میں
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔