این اے 213 میں ضمنی الیکشن کی تیاریاں آخری مراحل میں
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
عمرکوٹ میں حلقہ این اے 213 میں کل 17 اپریل کو ہونے والے ضمنی الیکشن کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئیں۔
انتخابی مہم گزشتہ رات 12 بجے ختم ہوگئی جبکہ انتخابی سامان کی ترسیل آج سے شروع ہوگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی امیدوار صبا تالپور اور جی ڈے اے کے حمایت یافتہ پی ٹی آئی امیدوار لال چند مالہی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔
حلقہ میں پولنگ اسٹیشنوں کی کل تعداد 498 ہے جن میں سے 269 کو حساس اور 91 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
ضمنی الیکشن کے موقع پر 17 اپریل کو عمرکوٹ ضلع میں تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ نشست پیپلزپارٹی کے رہنما نواب یوسف تالپور کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران کیخلاف دوبارہ جنگ کی تیاریاں اور ان کے تباہ کن ممکنہ نتائج
اسلام ٹائمز: ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ خصوصی رپورٹ:
حالیہ 12 روزہ جنگ میں صیہونی رجیم کی شرمناک شکست کے بعد کچھ شواہد اورقرائن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر ایران کیخلاف نئے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تویہ اقدام خطے کو بدترین کشیدگی میں دھکیل دیگا۔ حالیہ دنوں میں صیہونی رجیم کی جانب سے ہتھیاروں کے ذخیروں میں تیز رفتار اضافہ ان تیاریوں کا واضح ثبوت ہے۔ ایران کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعدصیہونی رجیم کے ہوائی اڈوں پر دفاعی ساز وسامان سے لدے طیارے اترے ہیں، یہ طیارے امریکہ، جرمنی اور یونان کی طرف سے 17 کارگو طیارے مختلف اوقات میں لینڈ کر چکے ہیں۔
24 فائٹرریڈار کے مطابق ان پروازوں میں سے ایک رجسٹریشن نمبر 4X-ICK کا حامل اسرائیلی بوئنگ 747 کارگو طیارہ تھا،جس کے ذریعے جرمنی کے شہر کولون میں صرف دو گھنٹے کے سٹاپ اوور میں 128 ٹن فوجی سازوسامان براہ راست ناواٹیم ایئر بیس پر پہنچایا گیا۔ ان پروازوں کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صیہونی اڈہ اب نئے مغربی ہتھیاروں کی وصولی اور تقسیم کا مرکزی مقام بن چکا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیلی حکومت کے ہتھیاروں کے ڈپوہو چکے ہیں، اب ان کو دوبارہ بھرا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع کادعویٰ ہے کہ جنگ بندی کے بعد امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سے 821 ٹن ہتھیار مقبوضہ فلسطین میں پہنچائے گئے ہیں۔
اس بارے میں پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے صیہونی حکومت کو بھاری اور بنکرشکن بموں سمیت 510 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق، شام اور اردن کی فضاوں میں متعدد امریکی اور یورپی فوجی پروازیں دیکھی گئی ہیں جو صیہونی حکومت کی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم قابض صیہونی حکومت کو جدید مغربی ہتھیاروں سے لیس کرنا نہ صرف اس کی ایران کے خلاف ایک اور جنگ کے لیے آمادگی کا مظہر ہے بلکہ تل ابیب سے بیانات اور دھمکیاں بھی جاری ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ صیہونی رجیم نے ایران کے تباہ کن میزائل حملوں سے ابھی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی خطے میں ایک نئی مہم جوئی صیہونی لیڈروں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ ایران کیخلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور آنے والے دنوں میں مزید ایرانی حکام اور کمانڈروں کو بھی قتل کردیا جائے گا۔ صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی صرف ایک وقفہ ہے اوریہ محاذ آرائی جاری رہیگی۔ سابق صیہونی وزیر خزانہ ایویگڈور لائبرمین نے بھی کہا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ ایک مشکل اور پیچیدہ تصادم کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ صیہونی حکومت کے مذکورہ اقدامات اور دوبارہ حملے کی دھمکیوں کے باوجود، ایک بنیادی سوال تجزیہ کاروں اور حتیٰ کہ صہیونیوں کے ذہنوں میں بھی چھایا ہوا ہے کہ کیا صیہونی رجیم ایران کی طرف سے مزید دھچکا برداشت کر سکتی ہے؟
12 روزہ جنگ کے تلخ تجربے اور ایران کے بے مثال میزائل حملوں کے بعد کوئی بھی مہم جوئی صیہونی رجیم کے بھاری نقصان کا باعث ہوگی، جو اس بار ناقابل تلافی ہوگا۔ اس بارے میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر حسن ھانی زادہ نے الوقت کو انٹرویو میں صیہونی رجیم کی مہم جوئی کو دیرینہ منصوبوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی رجیم نے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ شام میں پیش آنے والے واقعات اور شیطانی سازشوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈروں اور یمن میں انصار اللہ کی شخصیات کی شہادتیں اس منصوبے کا حصہ تھیں، جس کا مقصد مغربی ایشیا کے لئے مجوزہ امریکی صیہونی منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا اور خطے میں صیہونی رجیم کو پشت پناہی فراہم کرنا تھا، یہی وجہ تھی کہ ایران کیخلاف اچانک حملہ کیا گیا، جوہری ہتھیاروں کی تیاری ایک بہانہ تھا اور یہ ایران کے خلاف گہری سازش ہے۔ 12 دن یہ جنگ جاری رہی، بعد میں امریکہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا، یہ جنگ بندی پائیدار نہیں ہے۔ دراصل پینٹاگون اور قابض صیہونی فوج کے جرنیل ایران کیخلاف جنگ کے دوران ظاہر ہونیوالی اپنے دفاعی نظام کی طاقت اور کمزوریوں کا ازالہ کر رہے ہیں اور ایران کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امکان ہے کہ یہ اپنی کمزوریاں ختم کرنے کے بعد دوبارہ ایران پر حملہ آور ہونگے۔ ھانی زادہ کے مطابق ایرانی مسلح افواج کی انگلی ٹریگر پر ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حملے کو بے اثر کر سکتی ہے، لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے اور اگرچہ صیہونی حکومت کو ایران کے حالیہ حملوں میں شدید دھچکا لگا ہے، لیکن وہ اب بھی "نئے مشرق وسطیٰ" کے منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے والے واحد عنصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایران کو خطے میں ایک کمزور ملک کی صورت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ آیا تل ابیب وعدہ صادق 4 کیصورت میں ایرانی جوابی حملوں کو برداشت کرنیکی پوزیشن میں ہے یا نہیں؟ ھانی زادہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ ائیرڈیفنس کو دوبارہ سے ڈیزائن کرکے تیار کرنے پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان کمزوریوں کو ختم کر دیا جاتا ہے، تو وہ زیادہ موثر اقدامات کے ساتھ اور زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ ایران پر حملہ کرینگے، وہ نیٹو جیسے اتحادیوں کے ذریعے ائیرڈیفنس کو وسعت بھی دے رہے ہیں، بظاہر اسرائیل دوبارہ جنگ کا خطرہ مول لے رہا ہے اور خطے میں ایک بڑی سرجری کی کوشش کر رہا ہے، تاہم مقبوضہ علاقوں میں صیہونی رجیم کی بہت سی کمزوریاں ہیں، دوبارہ صیہونی جارحیت کی صورت میں ایران ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا، اس بار صیہونی رجیم کو پہلے سے کہیں زیادہ نقصانات اور شکست کا سامنا ہوگا۔