سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اپنی خدمات کی وجہ سے امریکی یونیورسٹی کی جانب سے بولچ پرائز فار رول آف لاء کے حقدار قرار پائے ہیں۔

امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے بولچ جوڈیشل انسٹیٹیوٹ نے پاکستان کے 21ویں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو 2025 کے بولچ پرائز فار دی رول آف لاء سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ اعزاز اُن کی انسانی حقوق، مذہبی آزادی، صنفی مساوات، جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے فروغ میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں دیا جا رہا ہے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی کو یہ اعزاز اپریل 2025 میں ڈیوک یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب میں پیش کیا جائے گا۔

جسٹس جیلانی نے 1994 سے 2014 تک پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں خدمات انجام دیں، جہاں اُنہوں نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کئی اہم فیصلے دیے۔

بولچ جوڈیشل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر پال گِرم نے کہا کہ چیف جسٹس جیلانی ایسے جج ہیں جو جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق سے جُڑے ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس

پڑھیں:

طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) ایران اور پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رواں برس یعنی 2025ء میں اب تک 1.9 ملین سے زائد افراد افغان باشندے اپنے ملک لوٹے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایران سے لوٹنے والے افغان باشندے ہیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ کا اجراء

رپورٹ کے اجراء کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک واپس آنے والے افراد میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں

پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات

ان خلاف ورزیوں میں تشدد اور بدسلوکی، من مانی گرفتاری اور حراست اور ذاتی سلامتی کو خطرات شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے حال ہی میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 ء میں 30 لاکھ افراد افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی یہ رپورٹ واپس آنے والے 49 افغانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کے خلاف ان کی مخصوص پروفائل کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں خواتین، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ اگست 2021ء میں ختم ہونے والی سابق حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔

طالبان حکومت نے اس سے قبل واپس لوٹنے والے ایسے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی تھی اور طالبان کی شورش کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران نیٹو افواج اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا، '' کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی تاریخ کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''افغانستان میں، یہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ واضح ہے، جنہیں ایسے متعدد اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہیں۔‘‘

طالبان کی طرف سے خواتین کے خلاف 'امتیازی‘ سلوک

گزشتہ چار برسوں کے دوران طالبان حکامکی جانب سے خواتین کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔

طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں، عوامی پارکوں، جم اور بیوٹی سیلونوں میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جسے اقوام متحدہ نے 'صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔

طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کی ان کی تشریح ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اور امتیازی سلوک کے الزامات 'بے بنیاد‘ ہیں۔

روس وہ واحد ملک ہے جس نے 2021ء میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے۔

دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان شہریوں کی ملک بدری

ہمسایہ ملک تاجکستان نے اسلام آباد اور تہران کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے افغانوں کو ملک بدر کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔

یو این ایچ سی آر نے اے ایف پی کو بتایا کہ آٹھ جولائی سے اب تک کم از کم 377 افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

جرمنی نے گزشتہ ہفتے جرائم کا ارتکاب کرنے والے 81 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا تھا اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہزاروں افغانوں کی عارضی حفاظت کا درجہ ختم کر دے گا۔

اقوام متحدہ کے مطابق وطن واپس لوٹنے والوں کی تعداد میں حالیہ اضافے نے 'کثیر سطحی انسانی حقوق کا بحران‘ پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے جبری واپسی کو 'فوری طور پر روکنے‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ
  • موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • امریکا کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت، ٹرمپ نے اوباما کو ’غدار‘ قرار دے دیا
  • پاکستان: نو مئی کیس میں پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو جیل کی سزائیں
  • ایچ آر سی پی کا پنجاب میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال پر اظہار تشویش