بحران سے معاشی استحکام تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
ملکی معیشت مستحکم ہوگئی ہے، قوم ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہوچکی ہے، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے جناح اسکوائر مری روڈ انڈر پاس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب ملکی برآمدات بڑھنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ کے باعث مارچ 2025 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ملکی تاریخ میں پہلی 1.
اس وقت عالمی مالیاتی ادارے، بشمول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک، پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک پرامید اندازہ نہیں، بلکہ یہ قوم کے معاشی بحران پر قابو پانے کے عزم کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، جو معاشی بحالی کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل تھا۔ یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج نے اس حوالے سے کیے گئے ہر پروپیگنڈے کو غلط ثابت کردیا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سے آگے بڑھ کر جامع اصلاحات کی ہیں جن میں توانائی کے شعبے کی تنظیم نو، ٹیکس کی بنیاد میں توسیع اور انسداد بدعنوانی کی کوششیں شامل ہیں۔ بحرانوں سے نکلنے کے لیے حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور نئے اقدامات کیے۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی کے ذریعے صنعتی بحالی کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ یہ اقدامات زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ حکومت نے اشرافیہ پر زیادہ انکم ٹیکس اور بینکوں پر ونڈ فال ٹیکس جیسے ترقی پسند اقدامات متعارف کرائے ہیں اور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے غیر سودی اخراجات میں 32 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح حکومت نے ضرورت سے زیادہ اخراجات کو درست کیا، جیسے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا تاکہ برین ڈرین کو روکا جا سکے۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سخت مانیٹری پالیسی اور عالمی قیمتوں میں کمی کی بدولت افراط زر میں کمی آئی، جو کہ معاشی استحکام کی علامت ہے۔ روپے کے استحکام اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری نے قیمتوں کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں ٹیرف ریشنلائزیشن، سرکاری اداروں کی نجکاری اور قرضوں کے انتظام میں بہتری کے بھی اقدامات کیے ہیں۔ ان اصلاحات سے پاکستان کے قرضوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور بحران سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔
حکومت نے اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی، تاہم حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتائج کے حصول کے لیے وقت درکار ہے۔بجلی کی قیمت میں کمی ایک بہت بڑی بات ہے، توانائی شعبے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے، 24 ادارے نجکاری کے لیے کمیشن کے حوالے کیے ہیں، کیونکہ سرکاری اداروں کی وجہ سے سالانہ 800 سے ایک ہزار ارب کا نقصان ہوتا ہے، وزارتوں اور اداروں کی رائٹ سائزنگ کے لیے کام جاری ہے، پنشن اصلاحات کا عمل ملک میں پہلی بار شروع ہو چکا ہے۔پاکستان کی معیشت حالیہ برسوں میں متعدد چیلنجز سے گزرنے کے بعد اب ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہے اور مختلف معاشی اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی معیشت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی برآمدات نے سال 2025 میں اتار چڑھاؤ کے باوجود 30.351 ارب ڈالر کا سنگ میل عبور کیا، حکومت نے رواں سال کے لیے برآمدات کا ہدف 32.34 ارب ڈالر مقرر کیا ہے، جو معیشت کی مضبوطی اور عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر ٹیکسٹائل، زرعی مصنوعات اور آئی ٹی سیکٹر کی بدولت ممکن ہوا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس وصولی میں شاندار اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2024 میں ٹیکس وصولی 9.252 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی، جب کہ سال 2025 کے لیے 12.97 ٹریلین روپے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
یہ بہتری ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے شفافیت لانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جو مالیاتی نظم و ضبط کو مضبوط کر رہی ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سال 2024 میں یہ 28.782 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، اور سال 2025 میں ان کے 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ اضافہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جو سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور معاشی استحکام کی علامت ہے۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 2023 میں 9.16 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر تھے، لیکن 2025 میں یہ 16.05 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ یہ اضافہ آئی ایم ایف کے تعاون، ترسیلات زر اور برآمدات کی بدولت ممکن ہوا، جو معیشت کے لیے ایک مضبوط بنیادی ڈھانچہ فراہم کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام اور اصلاحاتی اقدامات سے پاکستانی معیشت مستحکم ہوئی، ٹیکس اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات نے معیشت کو سہارا دیا ہے۔ 2026 میں پاکستان کی معاشی ترقی 3فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، نجی سرمایہ کاری میں اضافے سے ترقی کی رفتار بڑھنے کا امکان ہے۔عالمی قیمتوں میں استحکام اور طلب میں کمی سے مہنگائی پر قابو پانا ممکن ہے، پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے اصلاحات کا تسلسل ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری اور استحکام کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ یہ بحران سے استحکام تک کا سفر محض اقتصادی بحالی کی داستان نہیں، بلکہ یہ ایک عزم سے بھرپور قوم کی کہانی ہے جو مشکلات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے تاریخ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15 برس کے وقفے کے بعد سیکریٹری خارجہ کی سطح کا مشاورتی اجلاس بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہوا جس میں فریقین نے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات کے تمام شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا جن میں سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات، زراعت، ماحولیات اور تعلیم میں تعاون، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعلقات اور عوام کے درمیان رابطے شامل ہیں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کے طلبا کے لیے اپنی زرعی یونیورسٹیوں میں تعلیم کی پیشکش کی، جب کہ بنگلہ دیش نے فشریز میں ٹیکنیکل ٹریننگ اور میری ٹائمز اسٹڈیز کی پیشکش کی ہے۔ بنگلہ دیش نے پاکستان کی نجی یونیورسٹیز کی طرف سے اسکالرشپس کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں تعاون کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔
دونوں اطراف نے کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان شپنگ کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور فضائی راستوں کو کھولنے کی اہمیت پر بھی زور دیا، ویزوں اور سفر کی سہولتوں پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے سیکریٹری خارجہ کی ملاقات کے دوران تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع، نوجوانوں کے روابط اور سارک کی بحالی پر بات چیت مرکوز رہی۔ ڈاکٹر یونس نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات کے بارے میں اپنے وژن کا بھی اظہار کیا۔حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں بھارت مخالف ایک لہر اٹھی ہے۔ جس نے بھارت کی تزویراتی گہرائی کو چیلنج کیا ہے۔ پہلے مالدیپ میں بھارت نواز حکومت کا خاتمہ اور پھر بنگلہ دیش میں بھارت مخالف قیادت کے ظہور نے اس کے لیے نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکا کے ساتھ مل کر چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش کے مخالف ہر قدم اٹھا سکتا ہے، تاہم اب تک کی صورتحال کے مطابق بنگلہ دیش بھارتی اثر سے نکل کر چین اور پاکستان کی طرف باہمی احترام کے ساتھ تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے جا رہا ہے۔پاکستان اور بنگلادیش برادر اسلامی ممالک ہیں۔ جن کے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں جب کہ ان کا مخالف بھی بھارت ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے لے کر سرحد پر بھارتی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ٹیکسٹائل، زراعت، کھیل، فوجی ساز و سامان، لوگوں کے درمیان تعلقات، اور ثفافتی شعبوں میں تعاون کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔بنگلہ دیش میں نئی قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نیا موڑ دینے کے لیے پر عزم ہے، تاہم ضرورت عملی اقدامات کی ہے تاکہ ایک دوسرے کے پوٹینشل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی اور معاشی مفادات کا حصول ممکن بنایا جا سکے اور خطے میں امن و امان اور ترقی کے لیے سارک ممالک سے مل کر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔دونوں ممالک مسلم ملک اور ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ کے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے اپنے عوام کے لیے بہتر اقدامات سے آسانیاں پیدا کرنے پر کام کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے ڈالر تک پہنچ اقدامات کیے استحکام کی اقدامات کی پاکستان کے پاکستان کی کے درمیان یہ اضافہ ارب ڈالر کی معیشت پر گامزن حکومت نے برا مدات کیا گیا کے شعبے کے لیے دیا ہے کیا ہے
پڑھیں:
بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔
یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔
اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔
انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔
ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔
اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔
قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''
انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔
اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔
اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔
انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔