فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ چہارم)
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
جب جولائی انیس سو اڑتیس میں فرانس میں منعقد ایویان کانفرنس میں امریکا اور برطانیہ سمیت شریک بتیس ممالک جرمنی اور اس کے مقبوضہ ممالک کی یہودی آبادی کو اپنے ہاں پناہ دینے کا قابلِ عمل منصوبہ بنانے میں ناکام ہو گئے تو نازیوں نے اس ’’ مسئلے کا حل ‘‘ اپنے طور پر نکالنے کے جن دیگر منصوبوں پر غور شروع کیا ان میں ’’ مڈغاسگر منصوبہ‘‘ بھی شامل تھا۔افریقہ کے جنوب مشرقی ساحل سے چار سو کلومیٹر پرے بحرِ ہند میں واقع جزیرہ مڈغاسگر فرانسیسی نو آبادی تھا۔
یہودیوں کی یورپ سے افریقہ منتقلی کا خیال نیا نہیں تھا۔ ایک جرمن مستشرق پال ڈی لیگارڈے نے اٹھارہ سو اٹہتر میں یورپی یہودیوں کی مڈعاسگر منتقلی کا تصور پیش کیا۔انیس سو چار اور پانچ میں خود صیہونی تحریک کے اندر یہ بحث جاری تھی کہ اگر کسی سبب فلسطین یہودیوں کا قومی وطن نہیں بن پاتا تو بہتر ہے کہ برطانوی سامراج کی اس پیش کش پر سنجیدگی سے دھیان دیا جائے کہ یوگنڈا اور کینیا کی نوآبادی کے سرحدی علاقے کاٹ کر ایک یہودی صوبہ تشکیل دیا جائے جہاں وہ محفوظ زندگی بسر کر سکیں۔مگر ایک جانب تو خود کینیا اور یوگنڈا میں موجود نوآبادیاتی سفید فام زمینداروں نے اس تصور کی کڑی مخالفت کی اور دوم خود صیہونی تحریک کے اندر بھی اکثریت نے اس تصور کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ فلسطین یا پھر کچھ بھی نہیں۔
اسی عرصے میں ایک برطانوی یہود مخالف تنظیم ’’ دی برٹنز ‘‘ کے کار پرداز ہنری ہملٹن بیمش اور برطانیہ کی امپیریل فاشسٹ لیگ کے سربراہ آرنلڈ لیسے نے بھی یورپی بالخصوص برطانوی یہودیوں کی مڈعاسگر منتقلی کے لیے پمفلٹ بازی کی مگر اس مہم کو خاص پذیرائی نہ مل سکی۔
انیس سو سینتیس میں دائیں بازو کی پولش حکومت نے جرمنی سے نکالے گئے پولش یہودیوں کی مڈغاسگر میں آبادکاری کے امکانات کو ٹٹولا اور ایک تین رکنی پولش کمیٹی نے فرانس کی رضامندی سے حالات کا جائزہ لینے کے لیے مڈغاسگر کا دورہ بھی کیا۔اس کمیٹی نے رپورٹ دی کہ جزیرے کی آب و ہوا اور جغرافیے کو دیکھتے ہوئے وہاں صرف پانچ تا سات ہزار خاندانوں کی منتقلی ہی ممکن ہے۔
جب نازی جرمنی کی قیادت کو اس آئیڈیے کی بھنک پڑی تو ہٹلر کے دستِ راست ہرمن گوئرنگ ، وزیرخارجہ وان ربن ٹروپ ، نازی نظریہ ساز جولئیس اسٹرائخر اور الفرڈ روزنبرگ کے ٹولے نے یہودیوں کی افریقہ بدری کے امکانات پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا تھا۔وزارتِ خارجہ میں امورِ یہود شعبے کے سربراہ فرانز ریڈماخر نے بھی تجویز کی حمایت میں یہ نوٹ لکھا کہ فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی نہ صرف مشرقِ وسطی میں جرمن مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گی بلکہ فلسطین پر برطانوی قبضے کے سبب ہم ایک جرمن مخالف پلا پلایا گروہ برطانیہ کے حوالے کر دیں گے۔
اس بیوروکریٹک نوٹ کے مطابق اگر یہودیوں کو مڈغاسگر میں جرمن فوجی انتظامیہ کی نگرانی میں رکھا جائے تو ان کی سلامتی کی خاطر امریکی یہودی برادری بھی جرمنی کے بارے میں امریکی انتظامیہ کو اکسانے کی سازشوں سے باز رہے گی۔
مئی انیس سو چالیس میں نازی وزیرِ داخلہ ہملر نے چانسلر ایڈولف ہٹلر کو میمو ارسال کیا کہ یورپ سے یہودیت کو پاک کرنے کے لیے افریقہ بالخصوص مڈغاسگر سمیت کہیں بھی منتقل کرنا ممکن ہے۔ اس بابت اطالوی فاشسٹ ڈکٹیٹر مسولینی سے بھی صلاح مشورہ کیا گیا۔ مئی انیس سو چالیس میں جب نازیوں نے فرانس پر قبضے کے لیے پیش قدمی شروع کی تو جرمن ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ ہتھیار ڈلوانے کے معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی جائے کہ فرانس پانچ لاکھ ستاسی ہزار مربع کیلومیٹر رقبے کا جزیرہ مڈغاسگر نازی جرمنی کے حوالے کر دے گا تاکہ اگلے چار برس میں یورپ کے لگ بھگ چالیس لاکھ یہودیوں کو مرحلہ وار منتقل کیا جا سکے۔ منصوبے کے مطابق جزیرے کو نازی وزارتِ داخلہ کے انتظام میں دیا جانا تھا یعنی پولیس اسٹیٹ بنایا جانا تھا۔البتہ یہودی آبادی کو روزمرہ معاملات میں خودمختاری حاصل ہوتی۔
مگر ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر پرے اتنی تعداد میں یورپی یہودیوں کی منتقلی کیسے ممکن ہو گی۔اس بارے میں یہ بتایا گیا کہ جب جرمنی فرانس کے بعد برطانیہ پر قبضہ کرے گا تو مقبوضہ برطانوی بحریہ کے وسائل کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یورپ میں تب تک برطانیہ ہی سب سے بڑی بحری طاقت تھی۔
اس منصوبے پر بھاری لاگت کا بار کون اور کیسے اٹھائے گا ؟ اس بارے میں یہ کہا گیا کہ یہودی املاک کی نیلامی سے جمع ہونے والی رقم سے ایک بینک قائم کیا جائے۔بیرونِ یورپ مقیم متمول یہودیوں کو اپنے ہم عقیدہ بھائیوں کی سلامتی کے لیے بینک میں عطیات جمع کروانے پر مجبور کیا جائے اور پھر اس رقم کو بینک کے قرضے کی شکل میں یہودیوں کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جائے اور یہی بینک مڈغاسگر کے ’’ نئے باسیوں ‘‘ اور باقی دنیا کے درمیان جرمن نگرانی میں مالیاتی روابط کا ذریعہ ہو۔
لیکن جب برطانیہ پر قبضے کے لیے بنائے گئے ’’ آپریشن سمندری شیر ‘‘ کے مطابق ستمبر انیس سو چالیس کے بعد لندن سمیت متعدد اہم شہروں پر شدید بمباری کے باوجود لندن پر نازی قبضہ مشکل دکھائی دینے لگا تو نازیوں نے آپریشن مڈغاسگر کو بھی عارضی طور پر بالائے طاق رکھ دیا اور پوری توجہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے ’’ آپریشن باربروسا ‘‘ کی تیاریوں پر مرکوز ہو گئی۔اس دوران ہٹلر کے معتمدین ہملر اور ہائیڈرخ نے ایک اور متبادل منصوبے پر کام شروع کر دیا کہ سوویت یونین کی ممکنہ شکست کی صورت میں چالیس لاکھ یورپی یہودیوں اور مقبوضہ روس کی یہودی آبادی کو سائبیریا کے برفستان میں دھکیل دیا جائے اور ان سے سائبیریا میں بطور کانکن یا صنعتی غلام کا کام لیا جائے۔
جون انیس سو اکتالیس میں نازیوں نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا۔برطانیہ پر قبضہ کیے بغیر ’’ مشرق کا محاذ ‘‘ کھول دینا نازی جرمنی کی مہلک عسکری غلطی ثابت ہوئی۔چند ماہ میں ہی لق و دق سوویت یونین میں نازی پیش قدمی موسمِ سرما اور کڑی فوجی مزاحمت نے مل کر روک دی۔تاہم اس دوران یورپی یہودیوں کی نسلی صفائی کا حتمی منصوبہ ملتوی کرنے کے بجائے کام مزید تیز ہو گیا۔بیس جنوری انیس سو بیالیس کو برلن کی ایک مضافاتی عمارت میں ایک تاریخی اجلاس ہوا جس میں لاکھوں یہودیوں کی قسمت کا حتمی فیصلہ طے پا گیا۔ ( جاری ہے )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نازیوں نے میں یورپ کیا جائے یہودی ا میں یہ کے لیے
پڑھیں:
عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟
میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے رک جاتا ہے‘ فون کرتا ہوں تو فون نہیں ہوتا‘ کوئی ایپ کھولتا ہوں تو وہ نہیں کھلتی‘ اسکرین‘ بلیک ہو جاتی ہے‘ آواز بند ہو جاتی ہے اور میں فون کسی کو ملاتا ہوں اور وہ مل کسی دوسرے کو جاتا ہے تو میں پھر کیا کرتا ہوں‘ میں فون کو آف کر دیتا ہوں اور اسے چند سیکنڈ بعد جب دوبارہ آن کرتا ہوں تو یہ سو فیصد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
آئی ٹی کی زبان میں اس عمل کو ری اسٹارٹ کہتے ہیں اور یہ عمل صرف موبائل فون تک محدود نہیں بلکہ تمام کمپیوٹر گیجٹس کو اکثر اوقات اس عمل سے گزارنا پڑتا ہے‘ انھیں ری اسٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔
ہم انسان بھی قدرت کا بڑا سا اسمارٹ فون ہیں‘ ہمارے اندر بھی ہزاروں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہم بظاہر ایک کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے اندر سیکڑوں مختلف کام چل رہے ہوتے ہیں‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ صرف تین فیصد لمحہ موجود میں رہتا ہے‘ اس کی توجہ کا باقی 97 فیصد ماضی اور مستقبل میں زندگی گزارتا ہے۔
یہ ماضی کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے یا پھر مستقل اس کے دل کو کھرچ رہا ہوتا ہے چناں چہ ہم سب کے اندر ہر وقت اندیشوں اور خواہشوں کی سیکڑوں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہمارا دماغ سائز اور وزن میں جسم کا صرف دو فیصد ہے لیکن یہ ہمارے جسم کی 20 فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔
آپ کبھی نوٹ کیجیے گا آپ کو پریشانی‘ ٹینشن یا اینگزائٹی میں زیادہ بھوک لگتی ہے بالخصوص آپ میٹھا زیادہ کھاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ کا وزن اچانک گرنے لگتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ جب آپ کے دماغ میں اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور پریشانی کی ایپس کھلتی ہیں تویہ دھڑا دھڑ جسم کی توانائی کھانے لگتی ہیں۔
لہٰذا آپ کی بھوک بڑھ جاتی ہے یا پھر دماغ جسم کا انرجی اسٹور خالی کر دیتا ہے‘ دوسرایہ ایپس جب مسلسل چلتی ہیں تو پھر ایک وقت آتا ہے جب آپ ہینگ ہونے لگتے ہیں اور اس وقت آپ کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ موبائل فون کی طرح ’’ڈیڈ‘‘ ہو جائیں اور آپ کا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں اڑ جائیں یا پھر آپ اپنے آپ کو آف کر کے ری اسٹارٹ کر لیں۔
دوسرا آپشن زیادہ بہتر ہے چناں چہ آپ جوں ہی ہینگ ہوں آپ خود کو آف اور ری اسٹارٹ کریں آپ زیادہ سے زیادہ سات دن میں نارمل ہو جائینگے اور اگر آپ یہ نہیں کرینگے تو پھر عدیل اکبر کی طرح غیر فطری موت کا شکار ہو جائیں گے۔
دنیا میں زندگی جہاں بھی موجود ہے اس کے پاس اپنے بچاؤ کے صرف دو آپشن ہیں‘ فائیٹ یا فلائیٹ‘ تمام جان دار اپنے بچاؤ کے لیے لڑتے ہیں یا پھر خطرے کی جگہ سے بھاگ جاتے ہیں‘ انسان کے پاس بھی صرف یہی دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ لڑیں یا پھر بھاگ جائیں۔
عقل کا تقاضا یہ ہے ہم بیک وقت دونوں آپشنز استعمال کریں‘ آپ حالات سے ضرور لڑیں لیکن اس لڑائی میں جان دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘ دنیا میں مرنا کوئی کمال نہیں‘ یہ کوئی بہادری نہیں‘ بہادری تمام تر مسائل اور چیلنجز کے باوجود زندہ رہنا اور بھرپور زندگی گزارنا ہے۔
چناں چہ ہمیں ہر جنگ سے پہلے اپنی لڑائی کی حد طے کرنی چاہیے اور جوں ہی ہم اس حد تک پہنچ جائیں تو فوراً ہتھیار پھینکیں اور بھاگ جائیں کیوں کہ ہم اگر زندہ رہیں گے تو ہمارے دوبارہ لڑنے اور جیتنے کے چانسز ہوں گے بصورت دیگر ہم منوں مٹی کے اندر ہوں گے اور ہم نے جن کے لیے جان دی ہو گی وہ ہماری قبر پر دعا کے لیے بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
لہٰذا دونوں آپشن استعمال کریں‘ ایک حد تک لڑیں اور اس کے بعد دوبارہ حملے کی نیت سے پسپائی اختیار کریں‘ یہ یاد رکھیں‘ دنیا میں ہر کام جہاد اور ہر جنگ مقدس نہیں ہوتی‘ ہم کارپوریٹ ورلڈ میں سانس لے رہے ہیں اور اس میں دو چار ماہ بعد ہر چیز بدل جاتی ہے۔
آپ امریکا کی مثال لے لیں‘ جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میںکتنا فرق ہے‘ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میںکتنی جلدی تبدیلی آئی‘ بھارت اور بنگلہ دیش ایک ہفتے میں دوست سے دشمن بن گئے‘ شمالی کوریا اور روس دو ماہ میں چین کے دشمن سے دوست بن گئے۔
نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلقات چار دن میں الٹ گئے اور ایلون مسک اور ٹرمپ کے درمیان ایک ہفتے میں دو براعظموں جتنی دوری آ گئی‘ ہماری زندگی میں بھی اتنی تیزی سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں‘ ہم آج ایک صورت حال کا شکار ہیں‘ اگلے دن اٹھیں گے تو ہر چیز بدل چکی ہوگی۔
لہٰذا کل ہمارے لیے کیا تحفہ لے کر طلوع ہوتا ہے آپ آنے والے دن کو کم از کم اتنا موقع ضرور دیں‘ سال میں جب موسم اور دن ایک جیسے نہیں رہتے توپھر ہمارے حالات کیسے اور کیوں مستقل رہ سکتے ہیں لہٰذا آپ وقت کو وقت دے کر دیکھیں‘ یقین کریں وقت آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔
میں اب آپ کو ری اسٹارٹ کرنے کے تین طریقے بتاتا ہوں‘ یہ نسخے آزمودہ ہیں اور ان کا رزلٹ بھی سو فیصد ہے‘ آپ انھیں آزما کر دیکھیں‘یہ اگر کارگر ثابت ہوں تو میرے لیے دعا کر دیجیے گا۔
نسخہ نمبر ون چھٹی ہے‘ آپ جب کسی صورت حال شکار ہو جائیں‘ نوکری میں الجھ جائیں‘ باس ہٹلر نکل آئے‘ ورک لوڈ بڑھ جائے‘ گھر میں کشیدگی ہو جائے‘ مقدمہ بازی شروع ہو جائے‘ پراپرٹی پر قبضہ ہو جائے‘ لڑائی مار کٹائی ہو جائے‘ فراڈ ہو جائے یا کسی بیماری میں پھنس جائیں تو آپ فوری طور پر چھٹی لے لیں۔
یہ چھٹی کم از کم سات دن کی ہونی چاہیے‘ آپ کو اگر چھٹی نہیں ملتی تو میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر غائب ہو جائیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو موبائل فون بند کریں اور غائب ہو جائیں۔
آپ اس کے بعد سات دن اکیلے کسی اجنبی جگہ پر گزاریں‘ آپ کسی پہاڑی یا سمندری مقام پر چلے جائیں اور کسی دوست یا جاننے والے سے رابطہ نہ کریں‘ موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہرگز استعمال نہ کریںاور روز صرف تین کام کریں‘ صبح پانچ بجے اٹھ جائیں‘ لمبی واک کریں‘ہلکا کھانا کھائیں اور رات 9 بجے سو جائیں۔
موبائل فون بالکل استعمال نہ کریں‘ کتابیں پڑھیں‘ لوکل لوگوں کے ساتھ گپ لگائیں اور انھی کے کھانے کھائیں‘ آپ اللہ کے کرم سے سات دن میں نیا جنم لے کر واپس آئیں گے۔
یہ وہ نسخہ ہے جو دنیا کے تمام کام یاب لوگ استعمال کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے جنگل میں لیک کے کنارے ایک گھر بنا رکھا ہے‘ یہ ہر ماہ تین دن کے لیے وہاں چلا جاتا ہے‘ اس گھر میں کوئی ماڈرن گیجٹ نہیں‘ یہ وہاں قدرتی زندگی گزارتا ہے اور نیا بن کر واپس آ جاتا ہے، آپ بھی یہ کر کے دیکھیں۔
نسخہ نمبر دو‘ آپ اگر کسی شہر یا جاب میں پھنس گئے ہیں‘ دفتر کا ماحول تیزابی یا ٹاکسک ہے اور آپ نفسیاتی‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے بیمار ہو چکے ہیں تو آپ پہلے نبھانے کی کوشش کریں اگر کامیاب ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ دل مضبوط کر کے چھوڑ دیں۔
طلاق لیں یا دے دیں‘ نوکری پر لات ماریں اور اگر گاؤں‘ شہر یا ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو فوراً چھوڑ دیں‘ آپ یہ یاد رکھیں آپ انبیاء کرام سے بڑے نہیں ہیں اور زیادہ تر انبیاء کرام کو اپنے خاندان‘ قبیلے‘ والدین‘ دوست احباب اور بیوی بچے چھوڑنا پڑے تھے‘ شہر سے بھی ہجرت کرنی پڑی اور ان کی زمین ‘ جائیداد اور کاروبار بھی ختم ہوئے۔
یہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کے قرب اور مدد کے باوجود ’’گیواپ‘‘ پر مجبور ہو گئے تو پھر آپ اور ہم کیا چیز ہیں؟ جب دنیا کے تمام بڑے‘ کام یاب اور فاتح وطن اور خاندان چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو پھر آپ اور میں کسی کھیت کی مولی ہیں‘ ہمارے سامنے بھٹو خاندان جلاوطن ہوا‘ شریف خاندان تین مرتبہ اقتدار سے نکلا‘ دربدر ہوا‘ عمران خان آج جیل میں پڑا ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی آخری وقت ملک سے باہر گزارنے پر مجبور ہو گیا تو پھر ہم کیا ہیں۔
چنانچہ یہ آپشن ضرور اور فوراً لیں آپ بچ جائیں گے اور آپ کی زندگی بھی بدل جائے گی اور آخری نسخہ‘ یہ ایک کہانی ہے‘ آپ اس کہانی کو لکھ کر سامنے لگا لیں‘ یہ زندگی کے ہر مشکل وقت میں آپ کی مدد کرے گی۔
بادشاہ نے قیدی کو سزائے موت سنا دی‘ قیدی نے بادشاہ سے دو منٹ مانگے اور پھر عرض کیا‘ بادشاہ سلامت اگرمیں مر گیا تو میرے ساتھ ایک حیران کن فن بھی مر جائے گا‘ میں پوری دنیا میں اس فن کا واحد ماہر ہوں‘ بادشاہ نے پوچھا ’’وہ کیا فن ہے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا ’’جناب میں گھوڑے کو اڑانا سکھا سکتا ہوں۔
بادشاہ نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا اگر مجھے چھوٹا سا محل‘ دس پندرہ نوکر چاکر اور آپ کاعزیز ترین گھوڑا مل جائے تو میں اسے اڑھائی سال میں اڑا کر دکھا دوں گا‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اور اگرتم ناکام ہو گئے تو پھر‘‘ قیدی نے جواب دیا‘ آپ میرا سر اتار دیجیے گا۔
بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا ‘اسے اس کی خواہش کے مطابق سب کچھ دے دو اور اگر یہ اڑھائی سال بعد ناکام ہو جائے تو اس کی گردن کاٹ دینا یوں قیدی کو محل‘ نوکر اور گھوڑا مل گیا‘ وہ جب گھوڑا لے کر جا رہا تھا تو کسی نے اس سے کہا‘ او بے وقوف انسان دنیا میں کبھی گھوڑا بھی اڑا ہے‘ تم بالآخر مارے جاؤ گے۔
قیدی نے ہنس کر جواب دیا ’’بے وقوف میں نہیں تم لوگ ہو‘ میں پھانسی لگنے والا تھا لیکن مجھے اس ڈیل سے اڑھائی سال مل گئے‘ میں اس عرصے میں محل میں رہوں گا اور بادشاہ کے گھوڑے کو انجوائے کروں گا۔
پوچھنے والے نے پوچھا اور تم اس کے بعد کیا کرو گے‘ اس نے جواب دیا اڑھائی سال میں ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے‘ ہو سکتا ہے میں نہ رہوں اور یہ بھی عین ممکن ہے گھوڑا واقعی اڑنا سیکھ جائے۔
آپ بھی بے شک جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن اس سے پہلے ٹائم ضرور بائی کریں‘ ہو سکتا ہے آپ کو تکلیف دینے والا مر جائے‘ آپ کا بلاوا آ جائے یا پھر آپ نے جو کام اسٹارٹ کیا ہے وہ واقعی ہو جائے۔
کاش عدیل اکبر کو یہ تین تکنیکس معلوم ہوتیں تو شاید یہ آج بھی زندہ ہوتا۔