ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی کی غزہ کے حق میں پوسٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
غزہ:
ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی بھی غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم پر چپ نہ رہ سکیں اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں سوشل میڈیا میں آواز بلند کی ہے۔
انجلینا جولی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز کی پوسٹ کو شیئر کیا ہے، جس میں فلسطین کی سنگین صورت حال نمایاں کی گئی ہے۔
ہالی وڈ اداکارہ کی جانب سے شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘غزہ فلسطینیوں اور جو ان کی مدد کر رہے ہیں ان کے لیے ایک بدترین قبرستان بن دیا ہے’۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے سوشل میڈیا میں لکھا کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فضائی، زمینی اور سمندری راستوں سے جارحیت دوبارہ شروع کی گئی ہے اور اس میں مزید وسعت لائی گئی، اس وقت سے لوگوں کو جبری بے دخل کرنا اور جان بوجھ کر بنیادی امداد روکی جا رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینیوں کی زندگیاں ایک دفعہ پھر منظم انداز میں تباہ کی جا رہی ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اب تک وحشیانہ کارروائیوں میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت 51 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان رواں برس کے شروع میں جنگ بندی ہوئی تھی اور معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا تاہم دوسرے مرحلے میں مذاکرات سے قبل ہی اسرائیل نے بم باری شروع کردی، اس کے علاوہ زمینی اور سمندری راستوں سے بھی بدترین حملے جاری ہیں۔
واضح رہے کہ ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی خیرسگالی سفیر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکی ہیں اور دنیا بھر میں بے گھر افراد اور جنگوں سے متاثرہ خواتین کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سفیر کی حیثیت سے جنگ زدہ افغانستان کا بھی دورہ کیا تھا اور پاکستان میں سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے بے گھر افراد کے کیمپوں کا بھی دورہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انجلینا جولی ہالی وڈ
پڑھیں:
ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔