سوات میں غیرت کے نام پر‘ 2 افراد کا قتل
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
سوات کی تحصیل بریکوٹ میں دو افراد کو ’غیرت‘ کے نام پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
غالیگے تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) علی باچا نے ڈان کو بتایا کہ یہ واقعہ سوات کی تحصیل بریکوٹ کے نجیگرام علاقے میں پیش آیا، جہاں دو افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قتل ’غیرت‘ کے نام پر کیے گئے ۔
ایس ایچ او باچا نے بتایا کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب منیار کا رہائشی ایک نوجوان نجی گرام میں ایک گھر میں داخل ہوا۔
ایس ایچ او علی باچا نے بتایا کہ گھر کے سربراہ نے اسے دیکھتے ہی فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں اس کی موقع پر ہی موت ہوگئی جبکہ فائرنگ کے دوران گھر کے مالک کا بھائی بھی شدید زخمی ہوا، جو ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق مقتول کا گھر کی ایک خاتون سے مبینہ طور پر ناجائز تعلق تھا۔
واضح رہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2024 میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ ایک سنگین مسئلہ رہا، خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں ایسے واقعات کی تعداد زیادہ رہی، جنوری سے نومبر 2024 تک ملک میں 531 افراد ’غیرت‘ کے نام پر قتل کیا گیا۔
ان میں سے 185 مرد تھے جبکہ ملک بھر میں کل 346 خواتین کی موت ہوئی۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں تشدد سے متعلق ہلاکتوں میں بلوچستان میں 16، اسلام آباد میں ایک، خیبرپختونخوا میں 32، پنجاب میں 53 اور سندھ میں 83 افراد کو قتل کیا گیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے نام پر
پڑھیں:
دل میں خوف سا، کیوں ہے بھائی
حمایت علی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
ڈر، اندیشہ اور خدشہ، سب کی منزل خوف ہی ہوتی ہے۔ خوف، ایک چھوٹا سا لفظ کسی بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے، کبھی یہ ڈراتا ہے تو کبھی کسی بڑے خطرے سے بھی آگاہ کرتا ہے۔
انسان کو کسی بھی چیز یا احساس سے خوف آ سکتا ہے، مگر کسی انسان کا خوف کسی دوسرے انسان کے لیے دلچسپی یا حیرانی کا سبب بھی بن سکتا ہے، کیسے آیئے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اونچائی کا، کسی کے لیے بلندی میں ایک کشش ہے تو کئی افراد کو اونچائی پر چڑھنے کی سوچ ہی ایک انجانے خوف میں گھیر لیتی ہے، کوہ پیماؤں کو ہی دیکھ لیں، اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بلند اور خطرناک چوٹیاں سر کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں، پیسہ اپنی جگہ مگر شوق اور جنون نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
کچھ افراد کو تو اونچائی سے اتنا خوف آتا ہے کہ ان کا یہ ڈر خوبصورت تفریحی مقامات پر جانے کے شوق پر بھی حاوی ہو جاتا ہے اور وہ دلفریب تفریحی مقامات حقیقت میں دیکھنے سے محروم ہی رہتے ہیں۔
جھولے، بچوں کے لیے ایک سستی اور بہترین تفریح ہوتی ہے، مگر اس سے بھی کئی افراد کو خوف آتا ہے اور زیادہ تیزی سے جھولا لینے سے تو انہیں اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
پنکھا گرمی میں ہر کسی کا خوب ساتھ نبھاتا ہے، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض افراد کو چلتے پنکھے سے بھی خوف آتا ہے، یہ خوف کہ کب پنکھا ان پر گر جائے، انہیں سکون سے سونے بھی نہیں دیتا۔
لفٹ بہت کام کی چیز ہے، کوئی بھی اونچی عمارت ہو یا پلازہ، اس کے بغیر تعمیر نامکمل سمجھتی جاتی ہے، پلک جھپکتے ہی ایک منزل سے دوسرے منزل تک پہنچائے، کئی افراد کو اس عجوبے سے بھی خوف آتا ہے، سیڑھیاں چڑھ لیتے ہیں، سانس پھلا لیتے ہیں مگر لفٹ میں نہیں بیٹھتے، لفٹ پھنسنے کی خبریں اور واقعات ان کے خوف میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
پانی زندگی ہے مگر یہ ہی پانی اکثر خطرناک بھی ہو جاتا ہے، سمندر یا پھر بپھرے دریا کئی افراد کی موت کا سبب بن چکے ہیں، بپھرا دریا یا سمندر، ان سے دور ہی رہنا چاہیے مگر دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو ساکت پانی سے بھی خوف کھاتے ہیں۔
کسی نہر یا دریا میں کشتی کی سیر ان کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہیں ہوتی اور ان کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ مجبوری میں بھی کشتی کا سفر نہ کریں۔
ٹرین میں سفر کے دوران سرنگ سے گزرنا سب کے لیے ہی دلچسپی کا سبب ہوتا ہے، مگر روزمرہ زندگی میں اندھیرے سے گزرنا بہت سے افراد کے لیے انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اندھیرے میں تو کئی افراد کے لیے تو اپنے گھر میں چھت پر جانا بھی کسی مہم سے کم نہیں ہوتا۔
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے
آج کی رات بھی تنہا ہی کٹی
آج کے دن بھی اندھیرا ہوگا
کئی افراد کے لیے جہاز کا سفر معمول ہوتا ہے، ابھی ایک شہر یا ملک میں تو اگلے دن ہی کہیں اور ۔۔۔ دنیا میں ایسے افرد کی بھی کمی نہیں، جنہیں جہاز کے سفر سے بھی خوف آتا ہے۔ سفر کے دوران یہ خوف ہی لاحق رہتا ہے کہ کب کوئی حادثہ ہی نہ پیش آ جائے اور جہاز گرنے کے واقعات تو ان کے خوف میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔
اللہ ہر حادثے سے بچائے مگر جہاز کے سفر سے خوف سے ملتا جلتا یہ چھوٹا سا لطیفہ ہی پڑھ لیں ،
ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ تم اتنے امیر ہو، مگر جہاز میں سفر کیوں نہیں کرتے، ریل گاڑی میں کیوں جاتے ہو
دوسرا بولا، اگر خدا نخواستہ ٹرین کا حادثہ ہو جائے تو
Here Are You
لیکن اگر، ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہو جائے تو
Where Are You
بیماری ہر کسی کے لیے پریشانی ہی لاتی ہے، مگر آپ کی زندگی میں یقیناً ایسے افراد بھی آئے ہوں گے، جو کسی کی معمولی بیماری کا بھی سن کر آگے، بہت آگے کا سوچتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ہی خیال آتا ہے کہ اس بیمار شخص نے بچنا ہی نہیں ہے۔
دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو بے خطر اور معصوم جانوروں اور پرندوں سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتے ہیں، مگر ان سے ڈرنے والے بھی آپ کو مل ہی جائیں گے، جیسے بلی کو ہی لے لیجئے، ایسے افراد بھی اس جہاں میں ہیں جو ایسے گھر میں داخل ہونے سے سو بار سوچتے ہیں جہاں بلیاں موجود ہوں، کاکروچ، چھپلکی یا پھر مینڈک، ان سے ڈرنے والے بھی بہت ہیں، وہ ایسے کمرے میں اس وقت تک قدم نہیں رکھتے جب تک یہ ایسے حشرات یا جانور اپنی جگہ بدل نہ لیں۔
کبھی آپ نے سنا کہ کوئی شخص اپنے سائے سے ڈر جائے، جی جناب، ایسے افراد بھی ہیں اس جہاں میں، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ کئی ایسے افراد بھی ہیں جو بہت زیادہ آئینہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
نارمل اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے نیند بہت ضروری ہے مگر سونے سے بھی بہت لوگوں کو خوف آتا ہے، انہیں یہ ہی وسوسہ ستاتا ہے کہ اگر وہ سو گئے تو اٹھ نہیں پائیں گے اور ان کی آنکھ بھی بار بار کھل جاتی ہے، بعض افراد کو کسی بھی امتحان یا انٹرویو سے پہلے بھی ایک خوف گھیر لیا ہے۔ وہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
منیر نیازی نے کہا تھا کہ میرا خوف ہی میری طاقت ہے، ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ ڈر یا خوف نظر آتا ہے،
یہ شعر ہی پڑھ لیجیے
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
خوف یا ڈر کا مثبت پہلو دیکھیں تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی معاملات میں ہمیں کسی خطرے سے بھی آگاہ کر رہا ہوتا ہے، جیسے تیز رفتار گاڑی آتی دیکھ کر دماغ ہمیں رکنے کا سگنل دیتا ہے، امتحان کا خوف ہمیں مزید محنت کرنے کی جانب راغب کرتا ہے۔
خوف ایک فطری احساس ہے لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے، تو یہ ہمارے لیے مشکلات بھی کھڑی کر سکتا ہے، جس خوف سے چھٹکارا پانا ممکن ہو، اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اپنے پیاروں سے بات کرنا بھی مفید ہو سکتا ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ڈر یا خوف ہماری زندگی کا حصہ ہے مگر وہ کہتے ہیں نا ’جو ڈر گیا، وہ مر گیا‘۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی ڈر منیر نیازی