غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ خیالی عبادت گاہ تعمیر کرنے پر مبنی اشتعال انگیز ویڈیو جاری کر کے اس خطرناک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے آج جمعرات 24 اپریل 2025ء کے دن اپنی تقریر میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی کو مسمار کرنے کا شیطانی منصوبہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: "اسرائیلیوں نے حال ہی میں ایک اشتعال انگیز ویڈیو جاری کی ہے جس میں مسجد اقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ خیالی عبادت گاہ تعمیر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ سازش ہے۔ اس بارے میں عرب حکومتوں نے صرف بیان دینے پر ہی اکتفا کیا ہے جبکہ بعض عرب ذرائع ابلاغ صیہونی دشمن سے تعاون کر رہے ہیں۔" انہوں نے غزہ میں صیہونی جارحیت کی شدت میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن نے غزہ میں صحت کے مراکز تباہ کر کے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے اور گذشتہ پچاس دنوں سے غزہ کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم بھوک کو فلسطینی عوام کے خلاف ایک ہتھیار اور نسل کشی کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس نے کھانے پینے کی اشیاء اور ادویہ جات غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہیں۔ اس طرح غزہ میں فلسطینی عوام شدید ترین بحرانی حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔" انصاراللہ یمن کے قائد نے مزید کہا: "صیہونی دشمن نے فلسطینی قیدیوں سے ظالمانہ سلوک جاری رکھا ہوا ہے اور یوں اپنے جرائم بڑھاتا جا رہا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی انسانی اصول کا پابند نہیں ہے۔"
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے لبنان کے حالات کے بارے میں کہا: "صیہونی دشمن ہر روز لبنان پر جارحیت کر رہا ہے اور حتی جنوبی لبنان میں رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے تاکہ وہاں زندگی معمول پر واپس نہ آ سکے۔" انہوں نے حزب اللہ لبنان کے بارے میں کہا: "حزب اللہ لبنان نے پوری طاقت سے صیہونی دشمن کا رعب اور دبدبہ خاک میں ملا دیا ہے جس کی وجہ سے صیہونی رژیم اس کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ حزب اللہ لبنان نے جنگ بندی کی بھرپور پابندی کی ہے لیکن صیہونی رژیم اب تک بارہا اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے لبنان حکومت کو اسرائیلی جارحیت کی روک تھام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن بدستور لبنان کی سرزمین پر جارحیت جاری رکھے ہوا ہے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی دشمن سے ہر قسم کی سازباز کا مطلب لبنانی قوم سے واضح خیانت ہو گا۔ سید بدرالدین الحوثی نے جنگ بندی کی پابندی کے لیے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: "امریکہ صیہونی رژیم کی مدد کے لیے مخصوص قسم کے ہتھکنڈوں سے لبنان میں انارکی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔"
قائد انصاراللہ یمن نے مسلمانان عالم پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و ستم پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔ انہوں نے کہا: "ہمیں چاہیے کہ مسلمانان عالم کو ان کی دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی یاددہانی کروائیں تاکہ وہ ظلم و ستم پر خاموش تماشائی نہ بنیں کیونکہ امت مسلمہ کی خاموشی صیہونی دشمن کو مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مزید جری کر سکتی ہے۔" سید بدرالدین الحوثی نے غاصب صیہونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن کے مقابلے میں ذلت اور جھک جانا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ صیہونی دشمن حتی ان افراد کے لیے بھی ذرہ برابر اہمیت کا قائل نہیں ہے جو امت مسلمہ میں ہیں اور اس کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ صیہونی رژیم سے دوستی کا مطلب صرف اور صرف اسے مضبوط بنانا اور امت مسلمہ کو نابود کرنا ہے۔" انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: "صیہونی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا نتیجہ امت مسلمہ کی شکست اور ہار کی صورت میں ظاہر ہو گا اور امت مسلمہ اپنا وقار، سرزمین اور خودمختاری سب کچھ کھو بیٹھے گی۔ واحد راہ حل اس غاصب رژیم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بدرالدین الحوثی نے غاصب صیہونی رژیم انصاراللہ یمن صیہونی دشمن انہوں نے ہوئے کہا ہے اور رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ کے جلاد کا آخری اسلحہ
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔ تحریر: رسول قبادی
غزہ کی پٹی، جو طویل محاصرے کا شکار چھوٹا سا علاقہ ہے اس وقت اکیسویں صدی کے سب سے بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے ایک طرف تو اسے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ہر قسم کی انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہے۔ یوں صیہونی فوج 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اس گھناونے مجرمانہ اقدام پر، جو واضح طور پر نسل کشی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا مصداق ہے، بعض عرب اور اسلامی ممالک نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ کہ کچھ عرب ممالک تو حتی اسرائیل سے دوستی اور تعاون بڑھانے میں مصروف ہیں۔
بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال
اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔
امداد رسانی کے بہانے عام شہریوں کا قتل عام
غزہ میں جاری ایک انتہائی مجرمانہ اقدام فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کے بہانے بلا کر گولیوں کا نشانہ بنانا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صیہونی ٹھیکے دار جنہوں نے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، بھوکے فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدامات انتہائی مشکوک اور مرموز ہیں جن میں اب تک 700 کے قریب عام فلسطینی شہری شہید اور ہزاورں زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں کم از کم 18 فلسطینی بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے ہیں جبکہ غذا کی تلاش کرنے والے 70 فلسطینی صیہونی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حملے جو "آزادانہ قتل عام" کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں، جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا مصداق ہیں۔
غزہ میں نازک انسانی صورتحال
غزہ اس وقت بھرپور انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی کل آبادی کا 90 فیصد حصہ جلاوطنی پر مجبور ہو چکا ہے اور 18 لاکھ سے زیادہ فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں عارضی کیمپس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پانی کی قلت، وبائی امراض جیسے ہیپاٹائٹ پھیل جانا، میڈیکل سہولیات کا تقریباً نہ ہونا اور دیگر مسائل نے فلسطینیوں کی زندگی دوبھر کر دی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025ء سے اب تک کم از کم 57 بچے بھوک کے باعث شہید ہو چکے ہیں اور موت کے خطرے سے روبرو فلسطینی بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ کے اسپتال اور طبی مراکز صیہونی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور بھوک کے مارے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی تصاویر دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
عرب اور اسلامی ممالک کی کوتاہی
اس انسانی المیے پر عرب اور اسلامی ممالک کی خاموشی درحقیقت فلسطین کاز اور انسانی اقدار سے غداری کے مترادف ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنے مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک نے توقع کے برخلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دباو ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی عرب ریاستوں نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات پہلے کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں سیاسی اور اقتصادی مفادات کی اہمیت بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کی جان سے زیادہ اہم ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی حکمرانوں پر نسل کشی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور یہ اسلامی ممالک اس کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتے تھے۔
عمل کا وقت ہے
غزہ میں اسرائیلی جرائم خاص طور پر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، بین الاقوامی قوانین، جنیوا کنونشن اور ابتدائی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ انسانی المیہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلامی ذرائع ابلاغ ان حکمرانوں کا چہرہ عیاں کریں جو فلسطین کاز سے غداری میں مصروف ہیں اور عوام کو فلسطینیوں کی حمایت کی ترغیب دلائیں۔ عالمی سطح پر فلسطین میں اسرائیلی ظلم و ستم سے آگاھی بڑھتی جا رہی ہے اور انسانی معاشرے بیدار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت تقریباً 27 مغربی ممالک نے مشترکہ بیانیے میں صیہونی رژیم پر عام شہریوں کے وحشت ناک قتل عام اور جان بوجھ کر انسانی امداد روکنے کا الزام عائد کیا ہے اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جو زور شور سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔