بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ لڑے : حافظ نعیم الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہوگیا، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا،پاکستان کشمیریوں کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑے۔
جماعت اسلامی کی کال پر غزہ کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی کی اپیل کی جانے والی ہڑتال کی اپیل کے نتیجے میں کراچی تا پشاور تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی، جبکہ ملک بھر کے مختلف شہروں میں احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی اصولی مخالفت پر قائداعظم کی مہر بھی ثبت ہے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان
جماعت اسلامی کی کال پر لاہور میں انارکلی اور ملحقہ مارکیٹیں بھی بند ہیں، شاہ عالم مارکیٹ، برانڈرتھ روڈ، ہال روڈ اور ملحقہ مارکیٹیں بھی بند رہیں گی، ریڈی میڈ گارمنٹس، سولر مارکیٹ بھی بند ہے جبکہ شہر کی مرکزی غلہ منڈی بھی مکمل طور پر بند ہے۔
ادھر پشاور میں قصہ خوانی، خیبر بازار، پیپل منڈی، صدر، ہشت نگری اور دیگر اہم کاروباری علاقوں میں دکانیں بند ہیں جبکہ تنظیم تاجران کے مطابق رامپورہ گیٹ میں احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا۔
راولپنڈی کے راجہ بازار، مری روڈ، صدر اور کمرشل مارکیٹ میں دکانیں بند ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ڈرگٹ اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ہڑتال کی جا رہی ہے جس کے باعث بیشتر بازاروں میں میڈیکل سٹورز بھی بند ہیں۔
پاکپتن اور گردونواح میں تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند ہیں۔
ملکہ کوہسار مری میں اہل غزہ سے یکجہتی کے لیے مکمل شٹر ڈاون ہڑتال ہے، جماعت اسلامی کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال پر تمام کاروباری مراکز بند ہیں، مال روڈ، کینٹ مارکیٹ، بھوربن مارکیٹ، علیوٹ اور پھگواڑی سمیت تمام بازار اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 26 اپریل کو پورے ملک میں ہڑتال ہوگی، حافظ نعیم الرحمان کا اعلان
کوئٹہ میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ہڑتال کی جا رہی ہے، شہر میں تمام اہم بازار اور کاروباری مراکز بند ہیں، مستونگ، قلات، خضدار اور پشین سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب کراچی میں کورنگی كراسنگ روڈ پر سیاسی جماعت کی جانب سے فلسطین کے حق میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کے باعث روڈ ٹریفک کے لیے بند ہے، مظاہرین کی جانب سے سڑکوں کو ٹائر جلا کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ دھرنے کے باعث روڈ بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کو گودام چورنگی اور ناصر جمپ سے چمڑا چورنگی بھیجا جا رہا ہے۔
جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ آج ملک بھر میں اسرائیلی مظالم کیخلاف مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے، اسرائیل غزہ میں قتل عام کررہاہ، فلسطینیوں کے قتل عام سے غزہ میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ حماس کی بجائے اسرائیل کی حمایت کی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے، آج کی کامیاب ہڑتال نے ثابت کیا ہے کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہے، پاکستانی قوم فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے ساتھ ہے ۔
امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور پانی بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے، بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کھبی بھی عمل نہیں کیا، لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں مگر ان کا کوئی ساتھ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ حافظ نعیم الرحمان نے تفصیلات بتا دیں
انہوں نے کہا کہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ایکسپوز ہو گیا، سندھ طاس معاہدہ بھارت یکطرفہ طورپر ختم نہیں کرسکتا کیوں کہ سندھ طاس معاہدے میں عالمی بینک ضامن ہے، پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کامقدمہ لڑے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل بھارت جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان غزہ ہڑتال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل بھارت جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان ہڑتال جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان حافظ نعیم الرحمان نے کاروباری مراکز بند جماعت اسلامی کی کی جا رہی ہے نے کہا کہ ہڑتال کی بند ہیں بھی بند کے لیے
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔