لاہور کے سائیکل سواروں کی یاد میں
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
ہماری زندگی سے جو خوبصورت چیزیں منہا ہوئی ہیں ان میں سائیکل کی سواری بھی شامل ہے، سکوٹر اور موٹر سائیکل نے اس کی جگہ تو لی لیکن ان کی حرکت میں وہ برکت پیدا نہ ہو سکی جو سائیکل سوار کی خوش خرامی میں ہوتی تھی۔ سائیکل پر سفر ہولے ہولے آگے بڑھتا اور آپ ارد گرد کے ماحول سے سرسری گزرنے کے بجائے اس کا حصہ بن جاتے تھے، اسے چلانے سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہونے سے بھی کسی کو انکار نہیں۔
زمانے کی برق رفتاری کے سامنے قدم ہموار رکھنا آسان نہیں ہوتا لیکن ان کے اکھڑنے سے پہلے مزاحمت کی سعی شخصی وقار میں اضافہ کرتی ہے، معاشرہ اور حکومت مل کر اپنی شرائط پر زندگی بسر کرنے والے حضرات کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں لیکن ہم پرانی چیزوں کو اچھا نہیں جانتے، انہیں سماجی درجہ بندی سے جوڑ دیتے ہیں، اس لیے ہم نے دوسروں کی تحقیر کے لیے یہ جملہ اکثر سنا ہوگا کہ ’ارے صاحب یہ آج کل بہت بنتے ہیں کل تک سائیکل چلاتے پھرتے تھے۔‘ دوسری طرف گاڑیوں کے مالکان کے سامنے ہم بچھے بچھے جاتے ہیں، جس معاشرے میں چھوٹی بڑی گاڑیاں اور ان کے ماڈل انسانی رتبے کا تعین کریں اور سڑکیں اور ٹریفک پلان انہی کے لیے بنائے جائیں وہاں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے دل میں راہ کیسے پیدا ہو۔
ایک قاری کی حیثیت سے سائیکل سواری کے بارے میں بہت سی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں جنہیں میں نے ہمیشہ بڑے شوق سے پڑھا ہے، مثلاً پطرس کا پرلطف مضمون ’مرحوم کی یاد میں‘ ہمیشہ حافظے میں محفوظ رہا جس میں مرزا صاحب سے خریدی گئی سائیکل کے عیوب کھلنے سے پہلے ان کے دوست نے کیسے کیسے حسین خیال باندھے تھے:
’صبح صبح ہوا خوری کے لیے ہر روز نہر تک جایا کروں گا، شام کو ٹھنڈی سڑک پر جہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا، ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو بائیسکل جگمگا اٹھے گی اور ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اڑ رہا ہے۔‘
سائیکل کی سواری کے بارے میں چند دن پہلے پنجابی کے معروف لکھاری امرجیت چندن کی کتاب ’نقطہ‘ میں ان کا مضمون ’سائیکل چلاؤ ندیاں‘ پڑھ کر طبیعت بڑی سرشار ہوئی اور میں نے یہ جانا کہ سائیکل سے محبت کا حق یوں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ پہلو دار تحریر سائیکل پر ذاتی تاثرات اور یادداشتوں کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ اور مشاہیر سے اس کے تعلق کی کہانی سناتی ہے، اس پر بات کرنے کے علاوہ ہم لاہور میں سائیکل سواری کی حکایات بھی بیان کریں گے۔
امرجیت چندن کی تحریر کا آغاز جس خوبصورت ٹکڑے سے ہوتا ہے ہم نے اس کی ان الفاظ میں ترجمانی کی کوشش کی ہے:
’سائیکل ایسی مشین ہے جو انسان کے سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے، کلائی پر بندھی گھڑی سے بھی بڑھ کر قریب، گھڑی تو کہیں پہنچنے کی یاد دہانی کرواتی ہے، سائیکل کہیں پہنچنے کا وسیلہ ہے جو پہنچ کر اپنی آمد کا اعلان کرتی ہے۔ ( یہاں انگریزی کے لفظ ارائیول جیسا کوئی پنجابی کا لفظ نہیں مل رہا) کہیں پہنچتے تو موٹر سائیکل، ہوائی جہاز اور راکٹ بھی ہیں لیکن ان میں سائیکل کے جیسی اپنایت اور جسمانی تھکاوٹ کے جیسی مٹھاس نہیں ہوتی اور سائیکل جیسی محبوب سواری بھی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔‘
امرجیت چندن کو یہ مضمون قلم بند کرتے وقت وہ سارے سائیکل یاد آئے جو کبھی انہوں نے چلائے تھے پر اب صرف ان کی یاد باقی ہے کیونکہ ان کے بقول: ’سجنوں کی طرح سائیکل بھی اوجھل ہو جاتے ہیں۔‘
نکودر کی سڑکوں پر وہ سائیکل چلانے کا تذکرہ چھیڑتے ہیں جہاں کبھی محنت مزدوری کے لیے جاتے وقت ان کے والد نے بھی سائیکل چلائی ہوگی جو بڑے مان سے بتاتے تھے کہ نکودر میں سب سے پہلے ریلے سائیکل انہوں نے خریدی تھی۔
امرجیت چندن کے مضمون میں سائیکل کے بارے میں ان کی نظم بھی شامل ہے۔ راج جین کا بنایا سائیکل کا خاکہ بھی کتاب کا حصہ ہے، وہ پرانی ہندی فلموں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں سائیکل چلاتے ہوئے پیار ہو جاتا تھا۔ ان کے بقول ’سائیکل چلاتے عاشقوں کے گیت کبھی پرانے نہیں ہونے۔‘
امر جیت خواتین کے سائیکل چلانے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کلونت سنگھ ورک نے سائیکل سوار لڑکیوں کو شیرنیاں قرار دے کر ان کے بارے میں کہانی لکھی تھی۔
سائیکل چلانے والی خواتین کے اس حوالے سے مجھے لاہور کی دو نامور خواتین کا خیال آیا جو اس شہر میں سائیکل دوڑاتی پھرتی تھیں، ایلس فیض نے میاں کی قید کے دوران بچت کی غرض سے سائیکل چلائی تو فیض احمد فیض نے خط میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا:
’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے، اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفتر سے تمہارے بائسیکل پر اپنے گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں، اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانی بند کر دی ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘
اس کے جواب میں ایلس نے لکھا:
’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ہم تانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘
طاہرہ مظہر علی خان جنہوں نے کڑے وقت میں ایلس کا بہت خیال رکھا انہوں نے بھی لاہور میں بہت سائیکل دوڑائی۔ کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے یہ سائیکل ان کے بہت کام آئی۔ اشرافیہ سے مضبوط نسبی تعلق کے باوجود یہ سائیکل ہی تھی جس نے انہیں عام لوگوں کے قریب کیا اور وہ ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
امرجیت چندن نے سائیکل کی کمیونسٹوں کی زندگی میں اہمیت پر روشنی ڈالی اور لکھا کہ یہ ان کا انگ ہوتی تھی۔
لاہور میں خواتین کی سائیکل سے وابستگی کی آخری نشانی اینگلو انڈین خواتین تھیں جن کے بارے میں فکشن نگار اور سابق سینیئر بیوروکریٹ طارق محمود نے ’دام خیال‘ میں لکھا :
’سڑک پر اکثر کیرج فیکٹری کی طرف سے سائیکلوں پر سوار سانولے سلونے نسوانی وجود دکھائی دیتے، یہ خواتین سکرٹ اور بلاؤز میں ملبوس ہوتیں۔ گھنے، گھنگھریالے شارٹ کٹ بالوں میں اور بھی بھلی لگتیں، یہ اینگلو انڈین خواتین تھی۔
کیرج فیکٹری کے راستے کے دائیں بائیں آبادیوں میں یہ لوگ رہائش پذیر تھے، سائیکل کے کیریئر پر ٹوکریاں رکھے بازار میں آتیں۔ بریک لگاتیں سائیکل سے اترتیں، ٹوکری ہاتھ میں تھامے، سبزی فروشوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتیں۔ رنگ برنگے، پھولدار فراک ان کی پہچان تھے، بعض خواتین کے گلے میں کراس جھولتا دکھائی دیتا۔ کبھی کبھار ان میں سے کچھ بغیر بازو کے فراک میں ہوتیں۔ ان کے سلیولیس ٹاپس اور عیاں پنڈلیوں پر کوئی بھی معترض نہ تھا، ہر کوئی اپنے آپ میں جی رہا تھا۔‘
امرجیت نے برنارڈ شا اور ٹالسٹائی کے سائیکل سے تعلق کے بارے میں لکھنے کے بعد سوال اٹھایا ہے کہ پتا نہیں پنجابی کے بڑے لکھاریوں کی سائیکل کے ساتھ کس طرح کی سانجھ رہی ہے؟
’میں نے کہیں پڑھا سنا نہیں کہ پورن سنگھ یا گربخش سنگھ سائیکل چلاتے تھے یا کہ امرتا پریتم کو سائیکل چلانی آتی ہے؟‘
پنجابی کے ادیبوں شاعروں کے ہاں سائیکل سواری کی روایت کے بارے میں تو ہم نہیں جانتے لیکن اس زبان کے عاشقِ صادق اور گورنمنٹ کالج لاہور کے درویش صفت عوامی پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد جنہوں نے پنجابی کے صوفی شعرا کا کلام بڑی محنت سے مرتب کر کے شائع کیا، علمی دنیا میں ان سے بڑا سائیکل سوار شاید ہی لاہور میں پیدا ہوا ہو، انہوں نے طویل عرصہ سائیکل چلائی اور پرنسپل ہو کر بھی اس سے ناتا برقرار رکھا، ڈاکٹر صاحب کے قلندرانہ مزاج کو سائیکل ہی راس آسکتی تھی۔
لاہور کے ادیبوں میں اشفاق احمد کی سائیکل سواری بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کا تعلق ان کی رومانوی زندگی سے بھی ہے، انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو کی پہلی کلاس میں اپنا تعارف کروایا تو اس میں سائیکل کی ملکیت بھی ظاہر کی:
’خواتین و حضرات! میرا نام اشفاق احمد ہے، میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے آیا ہوں، ہمارے قصباتی شہر کا نام مکتسر ہے، میرے والد وہاں ڈنگر ڈاکٹر تھے۔ پھر رفتہ رفتہ حیوان ناطق کا علاج بھی کرنے لگے، ہم 8 بہن بھائی ہیں اوراس وقت میں موج دریا کے بالمقابل 1 مزنگ روڈ میں رہتا ہوں۔ میرے پاس ایک سائیکل ہے جس پر میں اس وقت آیا ہوں۔‘
بانو قدسیہ نے پی ٹی وی پر نعیم بخاری سے ایک گفتگو میں اشفاق احمد سے رومانس کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس زمانے میں ان کے پاس سائیکل ہوتی تھی تو اشفاق احمد نے اس پر لقمہ دیا کہ ہاں اور میں اسے ہاتھ چھوڑ کر بھی چلا لیتا تھا۔ بانو قدسیہ نے ’راہ رواں‘ میں ایک دن اشفاق احمد کے اپنے ہاں سائیکل پر آنے کا بھی لکھا ہے، اس ملاقات میں بانو قدسیہ نے انہیں پسندیدہ فلمی اداکاروں کی تصویروں کا البم دکھایا اور کے ایل سہگل سے ملاقات کا قصہ سنایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کہانیاں لکھتی ہیں۔
لاہور کے وہ شاعر جن کی سائیکل سے محبت کا کوئی ثانی نہیں وہ مبارک احمد ہیں، اس سواری سے ان کے تعلق کو انتظار حسین نے اپنے کالموں میں بہت اجاگر کیا۔ ان کے بعد وہ قیوم نظر کا نام لیتے ہیں اور پھر ان دونوں کے ٹی ہاؤس اور حلقہ اربابِ ذوق سے وابستگی کا حوالہ آجاتا ہے۔
انتظار حسین نے ایکسپریس میں اپنے کالم میں لکھا تھا:
’سائیکل کو یاد کرتے کرتے ہمیں ٹی ہاؤس یاد آ گیا، وہ سائیکل کا عہد زریں تھا، ٹی ہاؤس میں ادب کا جو شہسوار آتا وہ سائیکل پر سوار آتا اور ٹی ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد ادب پر سواری گانٹھتا۔ آج کے موٹر سوار ادیبوں کو ان کی موٹریں مبارک ہوں، مگر ان کی موٹروں میں وہ بات کہاں جو مبارک احمد اور قیوم نظر کی سائیکلوں کی تھی۔ ان دو سائیکلوں کا جو ہم نے حوالہ دیا تو سمجھ لو کہ ہم نے پورے حلقہ ارباب ذوق کو سمیٹ کر ایک کوزے میں بند کردیا ہے۔ اس زمانے میں تو حلقہ کی شناخت ہی سائیکل تھی، جب یہ دو سائیکلیں نہ رہیں تو پھر حلقہ ارباب ذوق بھی وہ حلقہ ارباب ذوق نہ رہا، اور ٹی ہاؤس تو بالکل ہی نہ رہا۔ ‘
2012 میں جیل روڈ پر انتظار حسین کے گھر کے اردگرد کی سڑکوں پر تعمیراتی کام نے یہ صورت اختیار کی کہ ان کی گاڑی کا باہر نکلنا ممکن نہ رہا، گھر میں رہنے کی مجبوری پر ایک تو ان پر سلیم شاہد کے اس شعر کا مفہوم اچھی طرح روشن ہوا جو فیض احمد فیض کو بھی پسند تھا دوسرے ان کو اپنی سائیکل کی یاد آئی۔
پہلے شعر سن لیجیے:
باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں
بیٹھا ہوں میں گھر میں در و دیوار پہن کر
اب انتظار حسین کا بیان ملاحظہ کیجیے:
’سائیکل سواروں کو ہم نے دیکھا کہ تعمیر کے بکھیڑے میں جو رکاوٹیں راہ میں کھڑی ہوگئی ہیں انہیں خاطر ہی میں نہیں لا رہے۔ آگے رستہ بند ہے، ہوا کرے، سائیکل کو تھوڑا اٹھا کر فٹ پاتھ پہ چڑھایا اور پھاند کر دوسری سمت میں آگئے۔ جب ہم سائیکل سوار تھے تو ہم بھی ایسی رکاوٹوں کو کب خاطر میں لاتے تھے۔‘
میں نے انتظار صاحب کا یہ کالم پڑھ کر ان سے کہا تھا کہ فٹ پاتھ پر سائیکل چڑھانا تو کوئی بات ہی نہیں میں نے خطروں کے ان کھلاڑیوں کو بارہا ریلوے پھاٹک بند ہونے کی صورت میں سائیکل کندھے پر اٹھائے ریلوے لائن کراس کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
24 دسمبر 1975 کو مشرق اخبار میں شائع ہونے والے انتظار حسین کے کالم ’سائیکل اور نئی شاعری کے آخری ایام‘ سے یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجیے کہ اس سے جہاں سائیکل چلانے والے چند اور ادیبوں کے نام سامنے آتے ہیں وہیں اس سواری کے لاہور میں زوال آمادہ ہونے کے عرصے کا تعین کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے:
’سائیکل اس شہر میں اب بھی چلتی ہے مگر اب وہ ایک پسماندہ سواری ہے، اعجاز حسین بٹالوی، صفدر میر، امجد حسین، ڈاکٹر عبادت بریلوی ان سب کی سائیکلیں مال روڈ سے رخصت ہو چکی ہیں، اب ان کی کاریں ان کی سائیکلیں ہیں اور سائیکل لے دے کے قیوم نظر کے پاس رہ گئی ہے یا مبارک احمد کے پاس۔‘
لاہور کے سائیکل سوار ادیبوں میں ڈاکٹر سلیم اختر کا درجہ بھی بہت اونچا ہے کیونکہ سائیکل پر دن بھر میں ان کے جتنی مسافت شاید کسی اور نے طے نہیں کی جس پر دوست حیران ہو کر پوچھتے تھے کہ آخر وہ اتنی سائیکل کیسے چلا لیتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس تجربے کو بڑی خوبصورتی سے اپنی یادداشتوں کی کتاب ’نشان جگر سوختہ‘ میں ’رخش صبا رفتار‘ کے عنوان کے تحت رقم کردیا ہے۔ ان کے بقول ’اس لاہور میں اتنی سائیکل چلائی کہ جسم سائیکلنگ کا عادی بلکہ خوگر ہو گیا اتنا کہ چھٹی والے دن جسم جیسے اکڑ جاتا۔ تب جسم کو پُرسکون کرنے کے لیے شام کو سائیکل نکالتا اور یوں ہی بلا مقصد دو چار میل کی سیر کر لیتا۔‘
آخر میں مسعود اشعر کی سائیکل سواری کا احوال جس کا تعلق اس زمانے سے ہے جب وہ امروز (لاہور) میں کام کرتے تھے اور ان کی رہائش گاہ چوبرجی کے پاس اسلامیہ پارک میں تھی۔ رات بارہ ساڑھے بارہ بجے ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد وہ فلپس سائیکل پر جو انہوں نے بڑے چاؤ سے خریدی تھی گھر کا رخ کرتے۔ گرمیوں میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن سردیوں میں وہ سر تا پا گرم لباس پہن کر ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے نکلتے۔ راستے میں سردی کے ساتھ کتوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا، اس سفر کی سب سے حسین یاد کے بارے میں انہوں نے ’ہمارے زمانے کی سردیاں‘ میں لکھا تھا :
’ان دنوں کی جو نہایت ہی دلکش اور دل نشین یاد ہمارے ذہن میں محفوظ رہ گئی ہے، وہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں سانس لیتا بھورا بھورا کہرا تھا۔ ان دنوں یونیورسٹی گراؤنڈ بالکل صاف ستھرا تھا، اس میں کسی اور چیز یا کسی اور عمارت نے دخل نہیں دیا تھا۔ ہم اس گراؤنڈ کے قریب پہنچتے تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے۔ ہمارے سامنے وسیع و عریض گراؤنڈ ہے اور وہ گراؤنڈ ملگجے بھورے بھورے کہرے سے بھرا ہوا ہے اور اس کہرے میں ایسے لہریں اٹھ رہی ہیں جیسے وہ کہرا سانس لے رہا ہو۔ یہاں ہم اپنی سائیکل کی رفتار کم کر دیتے اور اس کہرے کے ساتھ خود بھی سانس لینے لگتے، اور پھر یہ ہلکے ہلکے سانس لیتا کہرا ہمارے گھر تک ساتھ جاتا۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews ادیب پرانی سواری سائیکل سوار سائیکل سواری شاعر لاہور محمودالحسن وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پرانی سواری سائیکل سوار سائیکل سواری لاہور محمودالحسن وی نیوز سائیکل چلائی سائیکل سواری سائیکل چلانے سائیکل سوار امرجیت چندن کے بارے میں اشفاق احمد میں سائیکل سائیکل سے کی سائیکل سائیکل پر سائیکل کی لاہور میں پنجابی کے کے سائیکل سائیکل کے انہوں نے لاہور کے کسی اور نہیں ہو ٹی ہاؤس کے ساتھ کی یاد سے بھی کے پاس کے بعد کے لیے
پڑھیں:
لاہور: مریم اورنگزیب کی گاڑی کو حادثہ، ذرائع
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی گاڑی کو لاہور میں حادثہ پیش آیا ہے۔
قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے فیز 5 میں ہونے والے ٹریفک حادثے میں مریم اورنگزیب کی آنکھ پر چوٹ آئی۔
ذرائع نے بتایا کہ حادثے میں مریم اورنگزیب کی گاڑی سمیت چار گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں، گاڑی میں مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب بھی موجود تھیں۔