UrduPoint:
2025-07-27@05:22:03 GMT

ایرانی بندرگاہ پر دھماکہ: ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 25 ہو گئی

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

ایرانی بندرگاہ پر دھماکہ: ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 25 ہو گئی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2025ء) یہ دھماکہ ہفتہ 26 اپریل کو آبنائے ہرمز کے قریب جنوبی ایران کے شہر بندر عباس کی شہید رجائی بندرگاہ پر ہوا۔ آبنائے ہرمز سے دنیا کی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے۔

بندرگاہ کے کسٹم دفتر نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ ممکنہ طور پر دھماکہ خطرناک اور کیمیائی مواد ذخیرہ کرنے والے ڈپو میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہوا۔

ایک علاقائی ایمرجنسی عہدیدار نے بتایا کہ کئی کنٹینر پھٹ گئے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز نے ایران کے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے حوالے سے بتایا کہ دھماکے کی وجہ بننے والا مادہ سوڈیم پرکلوریٹ تھا، جو میزائلوں کے لیے ٹھوس ایندھن کا ایک اہم جزو ہے۔

(جاری ہے)

ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے صوبائی عدلیہ کے سربراہ کے حوالے سے اتوار کے روز ہلاکتوں کی تازہ تعداد 25 بتائی ہے۔

سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ 800 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

آج اتوار کے روز لائیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جائے وقوعہ پر اب بھی کالا دھواں دکھائی دے رہا ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دھماکا اتنا زوردار تھا کہ اسے 50 کلومیٹر دور تک محسوس کیا گیا اور اس کی آواز سنی گئی۔

اتوار کے روز جائے وقوعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیر داخلہ اسکندر مومینی نے کہا کہ بندرگاہ کے اہم علاقوں میں صورتحال مستحکم ہوگئی ہے۔

انہوں نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ کارکنوں نے کنٹینرز کی لوڈنگ اور کسٹم کلیئرنس دوبارہ شروع کردی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق دھماکے کے سبب زلزلے جیسے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ بندرگاہ کی زیادہ تر عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔

سرکاری ٹی وی نے مقامی ایمرجنسی سروسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سینکڑوں متاثرین کو قریبی طبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ صوبائی بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر نے عطیات کی اپیل کی ہے۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے بندر عباس میں اپنے قونصل خانے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تین چینی شہری 'معمولی زخمی‘ ہوئے ہیں۔

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے دھماکے کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صورتحال اور وجوہات کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے دھماکے پر ''ایران کے ساتھ یکجہتی‘‘ کا اظہار کیا اور سعودی عرب نے تعزیت کا اظہار کیا۔

بندر عباس میں اسکول اور دفاتر بند

سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ پورے علاقے میں دھواں اور فضائی آلودگی پھیلنے کی وجہ سے اس بندرگاہ کے نزدیکی شہر اور صوبہ ہرمزگان کے دارالحکومت بندر عباس میں تمام اسکولوں اور دفاتر کو اتوار کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ حکام ہنگامی کوششوں پر توجہ مرکوز کرسکیں۔

وزارت صحت نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ 'تاحکم ثانی‘ باہر جانے سے گریز کریں اور حفاظتی ماسک کا استعمال کریں۔

حکام نے صوبے بھر میں تین روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے۔

ایران کی سرکاری آئل پروڈکٹس ڈسٹری بیوشن کمپنی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ دھماکے کا اس کی تنصیبات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران اور امریکہ کے وفود نے تہران کے جوہری پروگرام پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کے لیے عمان میں ملاقات کی، جس میں دونوں فریقوں نے پیش رفت کی اطلاع دی۔

اگرچہ ایرانی حکام اب تک اس دھماکے کو ایک حادثے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران کے علاقائی حریف اسرائیل کے ساتھ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیل نے 2020ء میں شہید رجائی بندرگاہ کو سائبر حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرکاری ٹی ایران کے بتایا کہ

پڑھیں:

بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر

ایرانیات کے فرانسیسی ماہر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر بارہ روزہ جارحیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فضول بہانوں سے ایران پر حملے نے اس ملک کے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے ایرانیوں میں اتحاد پیدا کیا اور یوں اسلامی جمہوریہ ایران کو فائدہ پہنچایا۔ اسلام ٹائمز۔ فرانس کے ماہر ایرانیات، جغرافیہ دان اور قومی سائنس اکیڈمی (CNRS) کے سربراہ برنارڈ آورکیڈ لبنان کے اخبار "الاخبار" سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر تھونپی گئی بارہ روزہ جنگ کے حقیقی اہداف کے بارے میں کہا: "میری نظر میں رجیم چینج پہلی ترجیح نہیں تھی بلکہ اسرائیل کا مقصد ایرانی قوم کو کمزور بنانا تھا نہ کہ اسلامی جمہوریہ کو۔ اسرائیل نے اس جنگ میں کسی بھی مذہبی شخصیت یا اعلی سطحی سیاسی عہدیدار کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ اگرچہ ایران کے صدر بھی ایک حملے میں زخمی ہو گئے تھے لیکن اس کا اصل نشانہ ایرانی قوم تھی۔" انہوں نے مزید کہا: "ایران نے 2015ء میں امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) پر دستخط کیے تھے اور اس کے تحت بین الاقوامی انسپکٹرز کی نظارت قبول کی تھی۔ اس کے بعد ایران کے درمیانے طبقے نے ترقی کی اور ایران نے دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے تھے اور یہ اسرائیل کے لیے خطرہ تھا۔" یہ فرانسیسی ماہر مزید کہتے ہیں: "خود تل ابیب کے پاس 300 ایٹم بم ہیں لہذا وہ ایران کی جوہری طاقت سے پریشان نہیں ہے اور یہ بہانہ محض ایک نظریاتی بہانہ ہے۔ دوسری طرف 92 ملین ایرانی مشرق وسطی کی تہذیب یافتہ قوم شمار ہوتے ہیں، وہ ایک طاقتور ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور مخصوص افکار و نظریات کا مالک ہونے کے ناطے عالمی برادری سے تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے۔"
 
فرانسیسی ماہر ایرانیات برنارڈ آورکیڈ نے مزید کہا: "چونکہ ایران کے جوہری پروگرام کو ایرانی عوام کی حمایت حاصل ہے لہذا اس پر حملہ دراصل ایرانی علم و دانش پر حملہ ہے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والے محققین اور سائنس دانوں کی تعداد ان فوجی کمانڈرز سے کہیں زیادہ تھی جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ البتہ ٹرمپ کا طریقہ کار مختلف ہے۔ وہ ایران کو کمزور کرنے کے درپے ہے لیکن اسے نابود نہیں کرنا چاہتا۔ ٹرمپ اس بات کو اہمیت نہیں دیتا کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کا نظام نافذ ہے یا کوئی اور۔ انسانی حقوق کی بھی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ ایران میں اسے سرمایہ کاری کا موقع مل سکے۔ ایران ایسا ملک ہے جو نظریاتی اور علمی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کے پاس آئندہ دو سو برس تک تیل اور گیس موجود ہے لہذا اس کے پاس آمدن کے اچھے مواقع پائے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کی آرزو ہے کہ وہ ایران کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرے اور اسی وجہ سے وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں حتمی راہ حل کا خواہاں ہے تاکہ اس طرح اقتصادی مفادات حاصل کر سکے۔" انہوں نے مزید کہا: "درست ہے کہ ایران میں کچھ مذہبی اور قومی اقلیتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن اس ملک کا قومی تشخص بہت مضبوط ہے۔ شاید بعض طاقتیں بلوچ، کرد یا ترکمن قوموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں لیکن وہ ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتیں اور نظام کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اس بارے میں واضح مثال سابق سوویت یونین کی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کی وجہ تاجک اور ازبک باشندوں کی بغاوت نہیں تھی بلکہ گورباچف کے فیصلے تھے۔"

متعلقہ مضامین

  • یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران
  • بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر
  • روس نے ایرانی سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا
  • ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کا عدالتی کمپاؤنڈ پر حملہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ
  • ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کا عدالتی کمپاؤنڈ پر حملہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ
  • ایرانی مواصلاتی سیٹلائٹ ’’ناہید 2‘‘ کامیابی سے لانچ کردیا گیا
  • پاکستان میں مون سون بارشوں سے ہلاکتوں کی تعداد 266 تک پہنچ گئی، آدھے سے زیادہ بچے شامل
  • تھائی لینڈ اورکمبوڈیا کے درمیان جھڑپیں جاری،16افرادہلاک
  • کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے
  • لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلادھار بارشیں، ہلاکتوں کی تعداد 252 تک جا پہنچی