Express News:
2025-04-28@01:58:12 GMT

پوپ فرانسس

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

کاتھولک مذہبی راہ نما پاپائے اعظم فرانسس کی زندگی اور خدمات کے چند منفرد اور مختلف پہلوکچھ شخصیات کے بارے میں لکھنے کے لیے نہ تو الفاظ تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی زیادہ سوچنے کی۔ بس قلم اٹھانا ہوتا ہے، اور پھر خیالات کی روانی اور جذبات کی موج خود بہنے لگتی ہے۔

پوپ فرانسس کے بارے میں بھی لکھتے ہوئے ہمیشہ میری یہ یہی کیفیت رہی۔ لفظوں کا چناؤ، ان کا ٹھیراؤ اور بہاؤ سب کچھ خود بخود ترتیب پاتے گئے۔21 اپریل 2025 کو، 88 برس کی عمر میں کاتھولک چرچ کے روحانی پیشوا، پوپ فرانسس، اس فانی دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے انتقال کی خبر کے بعد دُنیا بھر میں رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ان کی زندگی، خدمات، اور کئی غیرمعمولی اقدامات کو سراہا گیا۔ بطور کاتھولک مسیحی، پاپائے اعظم فرانسس میرے لیے ایک روحانی راہ نما کی حیثیت تو رکھتے ہی تھے، لیکن جس انداز سے انہیں دیگر مذاہب، قوموں اور معاشروں میں عزت و وقار حاصل ہوا، وہ ان کی شخصیت کی عالم گیریت اور انسان دوستی کا واضح ثبوت ہے۔

انٹرنیٹ پر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جا رہا ہے اور ان کے بے شمار احسن اقدامات کو تاریخی اور عہد ساز قرار دیا جا رہا ہے۔ میں نے پوپ فرانسس کی زندگی کے بارے میں کافی کچھ پڑھا، دیکھا اور لکھا ہے۔ میری دلی خواہش بھی تھی اور اس سال ان سے ملاقات متوقع تھی، لیکن شاید قسمت کو منظور نہ تھا۔ آج کے اس مضمون میں پوپ فرانسس کے بطور مذہبی راہ نما کے دورانیے کے دوران کیے گئے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا، جو انہیں ایک روایتی مذہبی راہ نما سے بڑھ کر دُنیا کے سب سے بڑے مذہبی حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک عہد ساز شخصیت ثابت کرتے ہیں۔ تاہم اس سے قبل چند اہم اور تاریخی باتیں ہیں جو انہیں تاریخ کا ایک منفرد اور عہدِحاضر کا بہترین مذہبی راہ نما ثابت کرتی ہیں۔ پوپ فرانسس لاطینی امریکا کے ملک ارجنٹائن سے منتخب ہونے والے پہلے پوپ تھے، جن کی ابتدائی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ وہ پوپ بننے سے قبل بھی اپنی سادہ طرزِ زندگی اور عوامی و سماجی افکار کے پرچار کی بدولت معروف تھے۔

خاندان کی اہمیت: مغرب میں خاندانی روایات شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ تاہم، پوپ فرانسس نے اپنے پیغامات اور خطبات میں ہمیشہ خاندان کی اقدار، اہمیت اور افادیت پر بھرپور زور دیا تھا۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ خاندانوں کے بغیر معاشرہ اور مذہبی جماعتیں پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ اسی لیے، وہ خاندان کو اندرونی طور پر مضبوط اور متحد بنانے کی اشد ضرورت پر زور دیتے تھے۔ خاندان وہ بنیادی درس گاہ ہے جو انسانوں کی تربیت اور معاشرتی تعمیر میں انتہائی ناگزیر کردار ادا کرتی ہے۔ وہ والدین کو بچوں کے ساتھ بہتر رویہ، بزرگوں کی عزت اور دیکھ بھال اور والدین کی فرماںبرداری کی تلقین کرتے تھے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے بچاؤ کے سفیر:پوپ فرانسس نے نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ دیگر اہم اور عالمی سطح کے پلیٹ فارمز پر، نیز اپنے مذہبی خطبات اور پیغامات میں بھی ماحولیاتی تبدیلی اور موسمی اثرات سے بچاؤ کے لیے حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو بارہا خاطرخواہ اور عملی اقدامات کی تلقین کی۔ وہ اکثر یہ بات دہراتے تھے کہ اگر ہم اپنی ’’دھرتی ماں‘‘ کی حفاظت نہیں کر سکتے تو یہ خُدا اور کائنات کے قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، اور دراصل ہم خُدا کی نعمتوں کی ناشکری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی لیے، اُن کا پیغام ہمیشہ یہ رہا کہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل اور زمین کے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔

سماجی ہم آہنگی اور امن کے پیام بر:پوپ فرانسس نے اپنے دورِقیادت کے دوران کئی ایسے ممالک کا دورہ کیا جہاں عمومی طور پر مذہبی راہ نما جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، عراق اور متحدہ عرب امارات ان میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے مختلف ممالک اور تہذیبوں کے درمیان سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے، بین المذاہب مکالمے کی فضا قائم کرنے، اور کئی ممالک کے درمیان جنگ کے خاتمے اور صلح کے قیام کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ ان کی یہ کوششیں دُنیا بھر میں امن، رواداری اور باہمی احترام کے فروغ کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔

غزہ میں جنگ کی پُرزور آواز:پوپ فرانسس شاید وہ واحد اہم مذہبی راہ نما ہیں جنہوں نے ابتدا ہی سے غزہ میں جنگ اور نسل کشی کی پرزور مذمت کی، اور اسرائیل پر جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے دباؤ ڈالا۔ اپنی وفات سے صرف ایک دن قبل، ایسٹر کے پیغام میں بھی انہوں نے غزہ کے لیے خصوصی اپیل اور دُعا کی۔ اس کے ساتھ وہ غزہ میں مقیم کاتھولک مسیحیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، ان کے لیے دُعا کرتے اور وہاں کے مقامی مذہبی راہ نماؤں سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے رہے۔ اس مشکل اور کٹھن دور میں، جب دُنیا کے بہت سے رہنما اسرائیل کی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنے سے گریزاں تھے، پوپ فرانسس نے نہ صرف غزہ کے عوام کی حمایت کی بلکہ جنگ بندی کے لیے کھلے الفاظ میں اپنا واضح اور باہمت موقف بھی اپنایا۔

آزادی اظہارِرائے، مگر ذمے داری کے ساتھ:پوپ فرانسس ایک ایسے راہ نما تھے جنہوں نے آزادی اظہارِرائے کو محض ایک انسانی حق نہیں، بلکہ ایک مقدس امانت قرار دیا۔ اُن کے نزدیک الفاظ اگر اصلاح کا وسیلہ ہوں تو رحمت ہیں، لیکن اگر نفرت کو جنم دیں تو زحمت بن جاتے ہیں۔ انہوں نے دُنیا کو سکھایا کہ زبان اور قلم کی آزادی کے ساتھ ایک گہری اخلاقی ذمے داری بھی جُڑی ہوتی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر، جب دُنیا دو انتہاؤں میں بٹ چکی تھی۔ ایک طرف آزادی رائے کا شور، اور دوسری جانب مذہبی جذبات کی تذلیل، تب پوپ فرانسس نے وہ بات کہی جو بہت کم لوگ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا،’’اگر کوئی میری ماں کو گالی دے گا، تو اُسے ایک گھونسا ضرور پڑے گا۔‘‘ یہ اُن کا اندازِتمثیل تھا، جس کے ذریعے وہ یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ اظہارِرائے کی آزادی ضرور ہونی چاہیے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو پامال کیا جائے۔ ان کا یہ متوازن اور باوقار مؤقف دُنیا بھر میں سراہا گیا، کیوںکہ اُنہوں نے نفرت کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے انسانیت کے چراغ کو روشن رکھنے کو ترجیح دی۔ پوپ فرانسس کا یہ اصولی رویہ انہیں ایک ایسے راہ نما کے طور پر متعارف کرواتا ہے جو صرف روحانی پیشوا نہیں، بلکہ بین الاقوامی اخلاقیات کے علم بردار بھی تھے۔

 سادگی اور عاجزی کا پیکر:پوپ فرانسس سادگی، عاجزی اور انکساری کا عملی نمونہ تھے۔ انہوں نے بطور پوپ ہمیشہ ان اوصاف کو اپنایا اور اپنی زندگی سے ثابت کیا کہ قیادت کا حسن انہی خوبیوں میں ہے۔ وہ اپنے مذہبی راہنماؤں اور سیاسی قائدین پر بھی زور دیتے کہ ہمیں زندگی میں سادگی کو اپنانا چاہیے، کیوںکہ سادگی خُدا کو پسند ہے اور یہ انسان کو حلیم اور عاجز بناتی ہے۔ انہوں نے اپنی تدفین کے لیے بھی پہلے سے مقرر روایتی رسومات کو اپنانے سے گریز کرتے ہوئے سادگی کو ترجیح دی اور اس کا اظہار بھی کیا۔

ایک منفرد قائدانہ انداز کا داعی:پوپ فرانسس اپنے منفرد قائدانہ انداز کی بدولت نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی حلقوں میں بھی معروف تھے۔ انہوں نے اپنے دورقیادت میں کئی ایسے عمدہ اور منفرد اقدامات کیے جو عمومی طور پر مذہبی یا سیاسی راہ نما اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اکثر اپنے مذہبی راہ نماؤں، یعنی بشپ صاحبان، کو کہتے تھے کہ آپ صرف ایئرپورٹس کے بشپ نہ بنیں بلکہ اپنے لوگوں کے درمیان رہیں اور ان ہی جیسا طرزِزندگی اپنائیں۔ پوپ فرانسس ایک ایسے دور اور وقت میں عملی مثال کے طور پر سامنے آئے، جہاں انہوں نے نہ صرف اپنے مذہبی پیروکاروں بلکہ دُنیا بھر کے تمام مذاہب کے راہ نماؤں اور لوگوں کے لیے یہ پیغام دیا کہ اگر آپ واقعی مذہب کی تعلیمات کو اپنائیں اور اپنی زندگی سے اس کا عملی اظہار کریں، تو نہ صرف اپنے مذہبی حلقوں میں بلکہ پورے معاشرے اور دُنیا میں مثبت اور مؤثر تبدیلی لا سکتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ 2019 میں ایک ویڈیو میں 1.

3 بلین کاتھولک مسیحیوں کے روحانی راہ نما پوپ فرانسس اپنے ماتحت کاڈرنیل، کاہنوں کے سامنے جنوبی سوڈان کے حکم رانوں سے پرزور اپیل کررہے تھے کہ وہ اپنے ملک میں جاری جنگ کو ختم کریں اور امن کو موقع دیں۔ پوپ فرانسس نے اس وقت دُنیا کے لیڈروں کو حیران کن، غیرمعمولی اقدام کے ذریعے احساس دلایا کہ لیڈر، انا، خودغرضی اور غرور سے بڑا ہوکر اپنی ذات کو اپنے عوام کے لیے اپنے آپ کو چھوٹا کردیتا ہے۔ پوپ فرانسس نے اس موقع پر سوڈان کے سربراہوں کے پاؤں چوم کر اُن سے درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جنگ بندی کریں اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں۔ پوپ فرانسس کے اس اقدام سے وہ نہ صرف ایک مرتبہ عالمی منظرنامے میں مرکزی مقام حاصل کرچکے تھے بلکہ اُنہوں نے اس امر سے ثابت کیا ہے کہ لیڈرشپ اگر خلوس دل اور نیک نیتی سے چاہے تو دُنیا میں امن لاسکتی ہے۔ پوپ فرانسس کا یہ کام ہمارے جیسے معاشرے میں ایک قابل ذکر مثال ہے جہاں عوام کی فلاح اور بہتری کی بجائے لیڈر اپنی انا اور خودغرضی پے ڈٹے ہوئے ہیں۔ پوپ فرانسس چوںکہ ایک مذہبی راہ نما تھے اُن کی تقلید شاید سیاسی لوگ تو نہ کریں لیکن کم ازکم اُن کے پیروکاروں کو اُن کی تقلید ضرور کرنی چاہیے۔

آہ، پاپائے اعظم فرانسس! ایک مردِآہن، انسانیت کی پُکار اور خدمت کی ایک شان دار مثال، جنہوں نے قیادت کے منصب کو نئی جہت عطا کی۔ وہ نہ صرف کاتھولک مسیحی دُنیا، بلکہ اپنے عظیم اقدامات کی بدولت دُنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ خُداوند اُن کی روح کو اپنے حضور شرفِ قبولیت بخشے، آمین۔ اُن کا خلا پُر ہونے میں بہت وقت لگے گا...!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پوپ فرانسس نے مذہبی راہ نما د نیا بھر میں اپنے مذہبی انہوں نے کی زندگی کے ساتھ نے اپنے میں بھی تھے کہ اور ان بلکہ ا

پڑھیں:

پوپ فرانسس کی تدفین، لاکھوں سوگوار ویٹی کن کی سڑکوں پر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) ویٹی کن نے کہا ہے کہ پوپ فرانسس کی آخری رسومات سینٹ پیٹرز اسکوائر میں ادا کی گئیں، جس کے بعد روم میں ان کے پسندیدہ چرچ 'سانتا ماریا ماجورے باسیلیکا‘ میں ان کی تدفین کر دی گئی ہے۔

کیا کلیسائے روم اب ایک افریقی پوپ کے انتخاب کے لیے تیار ہے؟

پوپ فرانسس کی وفات پر عالمی رہنماؤں اور عوام کا خراج عقیدت

ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے پوپ فرانسس پیر 21 اپریل کو 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

اطالوری دارالحکومت روم میں سینٹ ماریا ماجورے باسیلیکا میں پوپ فرانسس کی تدفین کی تقریب دن ایک بجے شروع ہوئی جو 30 منٹ تک جاری رہی۔

پوپ فرانسس کی آخری رسومات چار لاکھ سوگواروں اور عالمی رہنماؤں کی شرکت

2013ء سے دنیا کے 1.4 بلین کیتھولک مسیحیوں کی قیادت کرنے والے پوپ کو الوداع کہنے کے لیے تقریباﹰ چار لاکھ افراد سینٹ پیٹرز اسکوائر پر جمع تھے اور روم کی سڑکوں پر قطاروں میں کھڑے تھے۔

(جاری ہے)

آخری رسومات میں 50 سے زائد سربراہان مملکت و ریاست موجود تھے، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر بھی شامل تھے۔

ہجوم کے سامنے آخری رسومات ادا کرنے کے بعد پوپ فرانسس کا لکڑی کا تابوت آہستہ آہستہ روم کے سانتا ماریا ماجورے باسیلیکا لے جایا گیا۔

ادارت: عاطف بلوچ

متعلقہ مضامین

  • روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ: انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے سعودی وفدکی پاکستان آمد
  • پوپ فرانسس روم میں سپرد خاک، آخری رسومات میں ٹرمپ سمیت 50 سربراہان مملکت کی شرکت
  • پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں وزیرِ اوورسیز پاکستانیز چودھری سالک حسین کی شرکت
  • پوپ فرانسس کی تدفین، لاکھوں سوگوار ویٹی کن کی سڑکوں پر
  • پوپ فرانسس کی آخری رسومات اور تدفین آج ہوگی
  • ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی کیتھولک چرچ آمد، پوپ فرانسس کے انتقال پر اظہار افسوس 
  • کیا کوئی خاتون پوپ فرانسس کی جگہ پوپ بن سکتی ہیں ؟
  • نجی عازمین کو حج پر بھجوانے کے لیے وزیراعظم سے مدد طلب
  • پوپ فرانسس کی میت کو کھلے تابوت میں منظرِعام پر لایا گیا؛ تصاویر وائرل