دنیا بھر میں اپنی معصوم شکل، پر جیسے گلپھڑوں اور ویڈیو گیمز جیسے مائنکرافٹ میں مشہور ہونے والے ننھے جل تھلیے ایکسولوٹل اب صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہے، سائنس دانوں کے لیے یہ ننھا سا جانور ایک سائنسی معجزہ بن چکا ہے، جو انسانوں کے کٹے ہوئے ہاتھ، پیر یا دیگر اعضا کی دوبارہ تخلیق کی امید جگا رہا ہے۔

بوسٹن کی نورتهیسٹرن یونیورسٹی میں حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر جیمز موناہن اور ان کی ٹیم نے ایک نئی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر ایکسولوٹل کس طرح نہ صرف اپنے ہاتھ پاؤں، بلکہ دل، پھیپھڑوں اور یہاں تک کہ دماغ کے حصوں کو بھی دوبارہ بنا لیتا ہے۔

ڈاکٹر جیمز موناہن کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق واقعی غیر معمولی ہے، یہ جانور وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو عام طور پر سائنس فکشن میں دیکھا جاتا ہے۔

تحقیق میں استعمال کیے گئے ایکسولوٹل کو جینیاتی طور پر اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ جب ان کے جسم میں ریٹینوک ایسڈ نامی مالیکیول سرگرم ہوتا، تو وہ چمکنے لگتے۔ یہ مالیکیول، جو وٹامن اے سے تعلق رکھتا ہے اور جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات میں بھی استعمال ہوتا ہے، خلیات کو بتاتا ہے کہ وہ جسم کے کس حصے میں موجود ہیں اور وہاں کیا چیز دوبارہ بنانی ہے۔

تحقیق کے دوران، ایکسولوٹل کی اعضا کی تخلیق کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے ان کے اعضا کو خاص طریقے سے مکمل بے ہوشی کے بعد الگ کرکے پھر دیکھا گیا کہ یہ جانور کس طرح سے اپنے جسم کے حصوں کو دوبارہ اگاتے ہیں۔

’جب ان کو ایک ایسی دوا دی گئی جو ریٹینوک ایسڈ کے ٹوٹنے کے عمل کو روکتی ہے، تو ان کے نئے اگنے والے اعضا میں گڑبڑ دیکھی گئی، مثلاً جہاں صرف نیچے والا بازو بننا چاہیے تھا، وہاں اوپر والا بازو بننے لگا۔‘

ڈاکٹر جیمز موناہن کے مطابق اس سے یہ ظاہر ہوا کہ ریٹینوک ایسڈ نہ صرف اعضا کی تخلیق میں مدد دیتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جسم کا کون سا حصہ کہاں ہے، اور وہاں کیا بننا چاہیے۔

’ایکسولوٹل نہ صرف بغیر کسی تکلیف کے اعضا کھو دیتا ہے بلکہ چند ہفتوں میں اُسے مکمل طور پر دوبارہ بنا بھی لیتا ہے، یہ عمل انسانوں میں ممکن نہیں، لیکن ہماری تحقیق ایک دن ممکنہ طور پر اس خواب کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔‘

چمکنے والے ایکسولوٹل بنانے والی ٹیم کے رکن اور ایم ڈی آئی بائیولوجیکل لیبارٹری کے محقق پرایاگ مراوالا، کے مطابق یہ ہم انسانوں سے بہت مختلف نہیں ہیں۔ ’ہمارے پاس بھی وہی جینز ہیں جن سے بچپن میں ہمارے اعضا بنے تھے۔ چیلنج یہ ہے کہ ہم بڑے ہوکر ان جینز کو دوبارہ کیسے فعال کریں، جو کام ایکسولوٹل بخوبی کرتا ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں ایکسولوٹل کی مقبولیت نے سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، اب یہ جانور صرف تجربہ گاہوں میں ہی نہیں، بلکہ کھلونوں، ملبوسات، اور ویڈیو گیمز میں بھی عام نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر جیمز موناہن مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تھوڑا سا خواب جیسا لگتا ہے۔ ’میں ہوائی اڈے پر ایکسولوٹل دیکھتا ہوں، شاپنگ مال میں، یہاں تک کہ میرے بچے اسکول سے ایکسولوٹل کے کھلونے لے کر آتے ہیں کیونکہ اب لوگ جان چکے ہیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر جیمز موناہن اعضا کی

پڑھیں:

سوڈان میں خونیں کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-3

 

سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • عمران خان کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • تلاش
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس کی منظوری سے مریم نواز نے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا ہے: عظمیٰ بخاری
  • نئے پراپرٹی آرڈیننس سے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا: عظمیٰ بخاری
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل