خوش رہنے والے لوگوں میں ایشیا کے باشندے سرفہرست، خوشی کا راز کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
گیلیپ کی ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے پرمسرت لوگوں میں ایشیائی باشندے سرفہرست ہیں۔
اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایشیا میں مرد اور عورتیں دونوں ایک ہی سطح پر خوش ہیں، مردوں اور عورتوں میں خوشی کی شرح 46 فیصد پائی گئی ہے۔
سروے میں اعلیٰ تعلیمی درجات کے ساتھ خوشی میں اضافہ کا تعلق پایا گیا، کم تعلیم یافتہ لوگوں میں خوشی کی سطح 38 فیصد، متوسط تعلیمی اہلیت کے حامل لوگوں میں 47 فیصد جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں 50 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: 102 سالہ خاتون ڈاکٹر کی خوشی سے بھرپور طویل زندگی کا راز
اسی طرح کم عمر کے حساب سے 34 سال سے کم عمر لوگوں نے 51 فیصد خوشی رپورٹ کی ہے جبکہ بڑی عمر یعنی 55 سال سے زیادہ عمر والوں میں خوشی کی شرح 43 فیصد رہی۔
سروے میں جن جواب دہندگان نے اسلام کے ساتھ وابستگی وہ سب سے زیادہ یعنی 54 فیصد خوش پائے گئے جبکہ جن کا عقیدہ ہندو مت تھا وہ سب سے کم یعنی 2 فیصد خوش تھے۔
اس سروے کے نتائج سے یہ پتا چلتا ہے کہ خوشی اور آمدنی کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق ہے۔ جیسے جیسے جیسے ذاتی گھرانے کی آمدنی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، خوشی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: طلاق یافتہ والدین کے بچوں کو کن قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
کم آمدنی کے درجے سے تعلق رکھنے والے افراد کی خوشی کی شرح صرف 33 فیصد تھی، یہ شرح بڑھتی ہوئی آمدنی کے ساتھ 42 فیصد، 48 فیصد اور 56 فیصد تک پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ آمدنی والے لوگوں میں خوشی کی شرح 62 فیصد ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
happiness آمدنی ایشیا خوشی خوشی کاراز زندگی صحت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایشیا خوشی کاراز زندگی خوشی کی شرح میں خوشی کی لوگوں میں سروے میں
پڑھیں:
غزہ: بھوک سے اموات اور اسرائیلی حملوں سے تباہی کا سلسلہ جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جولائی 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے غزہ میں تباہ کن اور تیزی سے بگڑتے انسانی حالات پر سنگین تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں اسرائیل کے حملوں سے تباہی، اموات اور نقل مکانی جاری ہے جبکہ بھوک سے ہلاکتوں کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
'اوچا' نے علاقے کی تازہ ترین صورتحال سے مطلع کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں خوراک کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہےجہاں گزشتہ روز مزید دو افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
غذائی قلت کے نتیجے میں جسمانی مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے جبکہ خواتین، بچوں، معمر افراد اور معذور لوگوں کے لیے یہ خطرات کہیں زیادہ ہیں۔ Tweet URLخوراک کی قلت سے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ان کے نومولود بچوں کو طبی پیچیدگیوں کا خطرہ لاحق ہے۔
(جاری ہے)
امداد کی تقسیم میں رکاوٹیںغزہ میں آںے والی امداد کی معمولی مقدار 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کی بہت بڑی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اسرائیل کے حکام نے امدادی اداروں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور لوگوں کو مدد پہنچانے کی کارروائیوں کو کئی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
جمعرت کو غزہ میں مختلف مقامات پر مدد پہنچانے کے لیے اسرائیلی حکام کو 15 درخواستیں دی گئیں جن میں سے چار کو مسترد کر دیا گیا، تین کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، ایک منسوخ کر دی گئی، دو کو منتظمین نے روک دیا جبکہ صرف پانچ امدادی مشن ہی انجام دیے جا سکے۔
گزشتہ روز محدود مقدار میں ایندھن بھی غزہ میں لایا گیا جسے بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز، ہسپتالوں، پینے کے پانی اور نکاسی آب کی سہولیات کے لیے تقسیم کر دیا گیا۔ ایندھن کی قلت بدستور برقرار ہے اور ضروری خدمات بحال رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں ڈیزل درکار ہے۔
سرحدی راستے کھولنے کا مطالبہشدید مشکلات کے باوجود اجازت ملتے ہی اقوام متحدہ کی ٹیمیں امداد کی فراہمی بڑھانے اور شدید ضروریات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
'اوچا' نے کہا ہے کہ امدادی خوراک اور طبی سہولیات مہیا کرنے، پانی کی فراہمی اور کوڑا کرکٹ کی صفائی، لوگوں کو غذائیت مہیا کرنے اور انہیں پناہ کا سامان دینے کے لیے اسرائیل کو غزہ کے سرحدی راستے کھولنا ہوں گے۔ ایندھن اور ضروری سامان علاقے میں لانے کی اجازت ملنی چاہیے اور امدادی عملے کو محفوظ انداز میں اپنا کام کرنے کے لیے سہولت فراہم کرنا ضروری ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ جس قدر بڑی تعداد میں ہو سکے لوگوں کی زندگیاں بچانا ہوں گی اور اس مقصد کے لیے منصوبہ تیار ہے جسے رکن ممالک کو بھی بھیجا گیا ہے جس میں موت اور تباہی روکنے اور امدادی کارروائیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانے کے لیے ضروری اقدامات کا خاکہ بھی دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا عزمانہوں نے 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' (جی ایچ ایف) کے سربراہ کو بھی خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ لوگوں کو امداد پہنچانے کے لیے کسی بھی شراکت دار کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔
ٹام فلیچر نے واضح کیا ہے کہ ایسی کسی بھی شراکت میں انسانیت، غیرجانبداری اور آزادی کے عالمی سطح پر قابل قبول اصولوں کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ انسانی امداد بلاتفریق وہیں پہنچنی چاہیے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور امدادی کارکن متحارب فریقین کے بجائے ضرورت مند شہریوں کو جوابدہ ہیں۔
ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر ان کی تکالیف میں کمی لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کے حوالے سے بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔