وزیراعظم اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے درمیان رابطہ،‘بھارتی الزامات بے بنیاد قرار’
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آ باد:
وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جہاں وزیراعظم نے پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں جنوبی ایشیا کی صورت حال پر توجہ مرکوز کی گئی۔
بیان میں بتایا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں اور وہ دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر میں مذمت کرتا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے پاکستان کو پہلگام واقعہ سے جوڑنے کی کسی بھی کوشش کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا اور واقعے کی شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔
وزیر اعظم نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو غیر قانونی قرار دینے کی بھارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس کی وسیع پیمانے پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے گفتگو کے دوران انہوں نے خاص طور پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس کا پانی 24 کروڑ لوگوں کی لائف لائن ہے۔
وزیراعظم نے زور دیا کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا پوری طاقت سے دفاع کرے گا۔
وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے کہا کہ وہ بھارت کو ذمہ داری اور تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیں۔
اس موقع پر وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا حل طلب مسئلہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اس کے منصفانہ حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
شہباز شریف نے بین الاقوامی برادری کے ذمہ دار رکن اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا اس اہم وقت میں خطے میں کسی قسم کی کشیدگی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے غیر
پڑھیں:
پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مسئلہ جموں و کشمیر پر مؤثر اقدام کا مطالبہ
اسلام آباد:اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کے طویل اور اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مسئلہ جموں و کشمیر پر عالمی سطح پر فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
عاصم افتخار نے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہی، جس کا موضوع تھا: ’’سیاسی حل کے فروغ کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشنز کو ڈھالنا – ترجیحات اور چیلنجز۔‘‘
سفیر عاصم نے بتایا کہ پاکستان اب تک چار براعظموں میں 48 اقوام متحدہ امن مشنز میں 2لاکھ 35ہزار سے زائد فوجی بھیج چکا ہے، جن میں سے 182 اہلکاروں نے امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔ پاکستان نہ صرف سب سے بڑے فوجی بھیجنے والے ممالک میں شامل ہے بلکہ امن تعمیراتی کمیشن کا بانی رکن بھی ہے۔
اپنے بیان میں سفیر عاصم نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے تمام امن مشنز کی بنیاد سیاسی حل پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی ساکھ کا امتحان ہے کہ آیا وہ بین الاقوامی امن و انصاف کے اصولوں پر عملدرآمد کر پاتی ہے یا نہیں۔
سفیر نے کہا کہ ’’سیاسی حل کی ضرورت بالکل واضح ہے اور یہ ضرورت کہیں زیادہ شدید نہیں جتنی کہ مسئلہ جموں و کشمیر میں ہے، جو کہ طویل عرصے سے اس کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ سلامتی کونسل کو اپنی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس تنازع کا منصفانہ اور دیرپا حل نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان اقوام متحدہ کے قدیم ترین مشنوں میں سے ایک، قوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ برائے بھارت و پاکستان (UNMOGIP)، کی میزبانی کر رہا ہے، جو کہ لائن آف کنٹرول کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ خود اس مسئلے کے حل نہ ہونے کا بین الاقوامی ثبوت ہے۔
سفیر عاصم نے کہا کہ موجودہ سال اس حوالے سے اہم ہے کہ کئی بڑے جائزہ عمل جاری ہیں، جن میں ’’مستقبل کے لیے معاہدہ، امن سازی کے فن تعمیر کا جائزہ‘‘ اور UN80 Initiative شامل ہیں۔ ان تمام اقدامات کو امن مشنز کی سیاسی بنیاد کو تقویت دینی چاہیے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک دہائی سے کوئی نیا امن مشن تعینات نہیں ہوا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی تنازعات کے حل میں قائدانہ کردار کی بحالی کے لیے 2015 کے HIPPO رپورٹ کے بنیادی اصولوں ’’سیاست، شراکت داری، اور عوام‘‘ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشنز کو مضبوط بنانے کے لیے تجاویز دی گئیں۔
امن مشنز کا مقصد سیاسی عمل کو سپورٹ کرنا ہے، اس کی جگہ لینا نہیں۔ اگر سیاسی عمل غیر موجود ہو تو مشنز کو امن قائم رکھنے اور مکالمے کے لیے جگہ بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
سلامتی کونسل کو ’’کرسمس ٹری‘‘ طرز کی بھاری مینڈیٹ سازی سے گریز کرنا چاہیے، جو زمینی حقائق سے ہٹ کر ہوتی ہے۔
امن مشنز کی کامیابی کے لیے سلامتی کونسل کا متحد اور پائیدار سیاسی تعاون ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان برائے سیکرٹری جنرل (SRSGs) کو مکمل اختیارات دیے جانے چاہئیں۔
امن مشنز کو مقامی سطح پر امن قائم کرنے کے عمل کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے پاکستانی امن فوجیوں کی ابیئی (UNISFA) میں مقامی برادریوں سے کامیاب شراکت داری کو ایک مثبت مثال کے طور پر پیش کیا۔
موجودہ بجٹ کٹوتیوں سے امن مشنز متاثر ہو رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا کل امن مشنز کا بجٹ صرف 5.5 ارب ڈالر ہے، جو دنیا کے فوجی اخراجات کا صرف 0.3 فیصد ہے۔ اس کے باوجود یہ سب سے مؤثر عالمی ہتھیار ہے۔
امن مشنز کے انخلا کا فیصلہ زمینی حالات کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ کسی طے شدہ کیلنڈر کے مطابق۔
قرارداد 2719 پر مؤثر عملدرآمد اور علاقائی تنظیموں (OIC, EU, ASEAN وغیرہ) سے قریبی شراکت داری ناگزیر ہے۔
مشنز کے مینڈیٹ کی تیاری اور جائزے میں فوجی اور پولیس بھیجنے والے ممالک کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ زمینی تجربات پالیسی سازی میں جھلکیں۔
سفیر عاصم نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط، جامع اور سیاسی بنیادوں پر مبنی اقوام متحدہ امن مشن نظام کی حمایت جاری رکھے گا جو اقوام متحدہ کے چارٹر پر مبنی ہو، انصاف کے اصولوں کو فروغ دے، اور دنیا بھر کے تنازعات زدہ علاقوں، خصوصاً جموں و کشمیر کے عوام کے لیے امن کی راہ ہموار کرے۔
اختتام پر انہوں نے کہا کہ ’’امن مشن کوئی جادوئی حل نہیں، مگر یہ متروک بھی نہیں۔ سیاست راستہ دکھاتی ہے اور امن مشنز اس راستے کو محفوظ بناتے ہیں جب تک کہ دیرپا امن کا ہدف حاصل نہ ہو جائے۔ سلامتی کونسل کو اس راستے اور منزل، دونوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔‘‘