عدالتی حکم کے باوجود ماہرنگ بلوچ کی رہائی کیوں نہ ہوسکی؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی این پی کے 92 سے زیادہ کارکنان کی عدالتی حکم کے باوجود رہائی ممکن نہ ہو سکی۔
بلوچستان ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس اعجاز سواتی اور عامر رانا پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان ہائیکورٹ کا بی وائی سی سربراہ ماہرنگ بلوچ و ساتھیوں کی رہائی کا حکم
عدالت میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پیش ہوئے جنہوں نے عدالت سے ایک دن کی مہلت کی استدعا کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ کابینہ اجلاس میں تھری ایم پی او کے تحت گرفتار افراد سے متعلق فیصلہ کیا جائےگا۔
عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا آج سوگ منانے کا اعلان
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جیل میں قید رہنماؤں اور لاپتا افراد سے یکجہتی کے لیے آج سوگ منانے کا اعلان کردیا۔
یہ بھی پڑھیں ماہرنگ بلوچ کے پیچھے کون ہے؟ پی ٹی آئی کیوں چھوڑی؟ BLA کو کون فنڈنگ کر رہا ہے؟جان اچکزئی سے خصوصی انٹرویو
اعلامیہ کے مطابق بلوچستان میں زندگی بندوق کے ماتحت رکھی گئی ہے اور اسے تشدد کے ذریعے قابو میں رکھا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلوچستان بی این پی بی وائی سی عدالتی حکم لاپتا افراد ماہ رنگ بلوچ وی نیوز یوم سوگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بی این پی بی وائی سی عدالتی حکم لاپتا افراد ماہ رنگ بلوچ وی نیوز یوم سوگ
پڑھیں:
سنجیدی ڈیگاری کیس: قتل کی گئی خاتون کی والدہ کے ڈی این اے سیمپل لے لیے گئے
بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں قتل کی گئی خاتون کی والدہ کے ڈی این اے سیمپل لے لیے گئے۔
پولیس سرجن کے مطابق ڈی این اے سیمپل پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قبر کشائی کر کے خاتون کے سیمپل پہلے ہی لے لیے گئے تھے۔
علاوہ ازیں ڈیگاری میں خاتون اور مرد کے قتل کیس میں مقتولہ بانو بی بی کی والدہ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
گل جان بی بی کو 2 روز کا ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا، آج عدالت نے خاتون کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ نے بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے سزا قرار دیا تھا اور مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔