Islam Times:
2025-06-14@18:40:46 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(4)

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(4)

اسلام ٹائمز: 5 اگست کی دم صبح قائد ملت، علامہ سید عاف حسین الحسینی کو پشاور میں انکے خوابوں کے مرکز جامعہ معارف الاسلامیہ (جامعہ عارف الحسینی) میں شہید کر دیا گیا، انکی شہادت نے ملت تشیع پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ شہید نے جو سفر شروع کیا تھا، اسکے خطوط، راستے کیسے بدل گئے، علامہ فاضل موسوی اسیر مکہ تھے، مرکزی نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اسوقت نائب صدر تھے، قائم مقام صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ذمہ داریوں پر فایز ہوئے، انکا بطور قائد ملت انتخاب، ایک تاریخی داستان ہے، جسے سامنے لانے کی کوشش کریں گے، جبکہ شہید کے بعد یہ قومی و ملی پلیٹ فارم کس رخ پر گامزن رہا، کون سے اہم کام ہوئے، کون سے سانحات رونما ہوئے، کیسے قومیات کا سفر طے ہوتا رہا، ہم اگلی قسط میں زیر مطالعہ لائیں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رح) 10 فروری کو بھکر کی سرزمین پر قائد منتخب ہوئے تو اس وقت انہیں بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا تھا۔ بیرونی چیلنجز تو سامراج دشمنی، انقلاب اسلامی اور اس کے بانی کے نظریہ سے تعہد اور عالمی اسلامی تحریکوں سے وابستگی، حمایت و تعاون کی فکر کی وجہ سے فطری طور پر سامنے آنے تھا۔ ملکی سطح پر آمریت کے بدترین ایام اور سیاسی قائدین و جماعتوں پر سخت پابندیاں، گرفتاریاں، سزائیں، کوڑے، شاہی قلعہ کی اسیریاں، پریس پر پابندیاں اور فرقہ وارانہ متعصبانہ فضا کا پروان چڑھانا بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھے۔ بطور شیعہ قیادت، ایک روحانی، ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے قوم کو سیاسی و دینی ماحول میں آگے لے کر جانا داخلی چیلنج سے تعلق رکھتا تھا، جبکہ قائد شہید کیلئے سب سے بڑا چیلنج ایک مقابل قیادت کا سامنے آنا تھا۔

سید حامد علی شاہ موسوی جو علی مسجد سیٹلائیٹ ٹاون راولپنڈی کے خطیب تھے، انہیں مفتی جعفر حسین قبلہ کی رحلت کے بعد آنے والے وقفے میں یہ سوچ کر تیار کیا گیا تھا کہ پنڈی بیس قیادت ہونی چاہیئے، جبکہ ان کے انتخاب میں ایسے عناصر بھی کارفرما تھے، جن کا کردار اور عمل اداروں سے وابستہ، قائد شہید جیسی شخصیت جو قیادت اور عہدوں سے دور رہنے والی تھی اور جو اتحاد بین المسلمین کے پاکستان میں سب سے بڑے داعی تھے، بلکہ وہ داعی اور بانی بھی تھے۔ اگر داخلی طور پر تفریق و تقسیم کا شکار تھے تو ان کی جدوجہد پر بہت سے سوال اٹھتے تھے اور مقصد کو زک پہنچتی تھی۔ لہذا قائد شہید نے اس حوالے سے بہت ہی مخلصانہ روش اختیار کی، اپنی قیادت و سیادت کو قربان کرنے پر بھی تیار تھے۔

ان کی طرف سے دنیا بھر کے مخلصین و مومنین کو یہ اعتماد فراہم کیا گیا تھا کہ وہ قبلہ حامد علی شاہ موسوی کو بلا لیں، میں حاضر ہو جائوں گا، شہید قائد نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں مخلص اور دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ ہر اس جگہ پہ پہنچے، جہاں بھی انہیں اتحاد ملت کیلئے بلایا گیا۔ اس حوالے سے دو مقامات دینہ، جہاں کے سادات نے قبلہ حامد علی شاہ کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، آغا سردار علی جان کی دعوت پر آپ شدید بیماری و علالت کے باوجود دینہ پہنچے، جس کی مکمل داستان بہت سی کتب اور شہید پر لکھے گئے مضامین میں موجود ہے۔ اسی طرح شہید نے استر زئی کوہاٹ میں سید حامد علی شاہ کے چاہنے والوں کی دعوت پر بروقت پہنچے، مگر ملاقات کیلئے حامد علی شاہ نہیں آئے، دینہ اور کوہاٹ میں شہید کا پہنچنا اس چیلنج کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ شہید اس کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

دوسرا چیلنج جو داخلی طور پر انہیں درپیش تھا، وہ عقائد کے حوالے سے ان پر بھونڈے الزامات تھے، جن کے بارے ان پر ہر جگہ سوالات ہوتے تھے اور وہ بہت ہی خوبصورت انداز سے ان کا جواب دیتے تھے۔ ایک ایسی قوم جو ان پر یاعلیؑ مدد کے منکر ہونے کا الزام لگاتی تھی، جو ان کے خلاف سید نا ہونے اور پختون ہونے کا الزام لگاتی تھی اور مجالس کے نظام سے وابستہ شخصیات، چاہے وہ ذاکرین تھے یا خطباء، بانیان مجالس و جلوس تھے یا امام بارگاہوں کے ٹرسٹیز، شہید قائد سب کی مخالفت کا شکار تھے۔ ایسی قوم کو جو سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتی تھی اور شیعہ منبر و مساجد سے سیاسی امور و ایشوز پر بات کرنا گناہ تصور کرتی اور اسے دشمنان اہلبیت کا کام سمجھا جاتا، اس کو سیاسی میدان میں باوقا منزل تک لے جانا شہید قائد کی آرزو اور جہد مسلسل تھی، جبکہ ان کیساتھ کاندھا ملا چلنے والے علما کرام کی تعداد بہت کم تھی اور جو موجود تھے ان کا تعلق اس طبقہ فکر و نظریہ سے تھا، جو نظریہ ولایت فقیہ کو اس نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جس نظر سے قائد شہید دیکھتے تھے۔

ایسے چیلنجز میں شہید قائد کا کاموں اور قوم کی ترقی و تعمیر اور پیش رفت نیز قومی وقار کی بحالی کا گراف بنائیں، آج بھی ان کی پائے خاک کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکا، جبکہ ان کے مقابل وسائل و امکانات کی بہار ہے۔ بہت ہی مختصر انداز میں بھی اگر ان کے کاموں کی فہرست ذکر کی جائے تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ چند مختصر کام ذکر کر رہا ہوں۔۔۔ قوم کی یکجہتی، سیاسی میدان میں اپنا کردار ادا کرنے، اپنے وجود کے اظہار، قومی وقار کی بحالی کیلئے عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنسز کا سلسلہ جن میں مینار پاکستان لاہور، ملتان، فیصل آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، چنیوٹ شامل ہیں۔ پاکستان کے گوش و کنار حتیٰ اندرون بلوچستان میں جہاں ابھی بھی شیعہ آبادیاں نا ہونے کے برابر ہیں، وہاں تک دورہ جات، تنظیمی اسٹرکچرز کا ملک کے چاروں صوبوں، کشمیر، گلگت بلتستان، قبائلی علاقہ جات تک وسعت، باقاعدہ عہدیداران کا انتخاب، سیاسی جماعتوں بالخصوص اس وقت کی تحریک بحالی جمہوریت جسے ایم آرڈی کہا جاتا تھا، سے بھرپور روابط۔ مینار پاکستان کے سائے تلے سیاسی جدوجہد۔

منشور کا اعلان جو آج بھی قومی جماعتوں کیلئے ایک رہنماء دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، تنظیمی اسٹرکچرز کی مضبوطی کیلئے باقاعدگی سے مرکزی کونسل، سپریم کونسل کے اجلاس، اہل سنت علماء کیساتھ مل کر ملک میں وحدت بین المسلمین کی فضاو ماحول بنایا اور تکفیریت کا راستہ روکا، عالمی استعمار  بالخصوص امریکہ کے خلاف بھرپور ماحول سازی، جس سے قوم و ملت کو اس کے حقیقی دشمن کی شناخت ہوئی، عالمی سطح کی حج کانفرنسز، فلسطین و کشمیر پر جاندار، واضح موقف، مظلومین جہاں چاہے ان کا تعلق اریٹیریا سے تھا یا فلسطین، لیبیا، عراق، حجاز، افغانستان، لبنان، سب کی کھل کی حمایت، عالمی اسلامی تحریکوں سے بھرپور روابط بالخصوس لبنان، حزب اللہ کیساتھ روابط، لبنان کا تاریخی دورہ، اسرائیل کے مقابل لبنانی بارڈر تک دورہ، یوم القدس، یوم مردہ باد امریکہ، یوم انہدام جنت البقیع، یوم برات از مشرکین، سالگرد انقلاب اسلامی، جیسے ایام بہت شاندار انداز میں منائے جاتے تھے۔

شہید قائد ہر اہم موقع پر اپنا پیغام جاری کرتے تھے، چاہے وہ یوم القدس ہو، امامیہ جوانان کنونشن ہو، یا ایام محرم ہوں، شہید کا پیغام جاری ہوتا، جو پورے پاکستان تک پہنچتا تھا۔ شہید قائد نے خود کو کسی مخصوص گروہ یا افراد تک محدود نہیں کر رکھا تھا، وہ ہر ایک سے ملتے، ہر ایک کو اہمیت دیتے، اگر کسی عام جوان سے ایک بار مل لیا اور نام پوچھ لیا تو دوسری بار سامنے آنے پر اس کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ محبت بھرا انداز تھا کہ جوان کھنچے چلے آتے تھے، ان میں ایسی کشش اور جاذبیت تھی کہ جو ایک بار ملتا وہ گرویدہ ہو جاتا، وہ مبتلائے عشق ہو جاتا، آج کے جوانان کو اپنی قیادتوں کے ان رویوں اور انداز کو جانچنا چاہیئے، آخر کیوں ہمیں ورکرز، عہدیدار نہیں ملتے، ہم بھاڑے کے کارکن اور عہدیدارا معین کرتے ہیں اور تنظیمی اجلاسوں میں کام چلاتے ہیں۔

قائد شہید کے دور میں مرکزی دفتر پشاور میں تھا، مگر روابط پورے پاکستان میں محکم تھے، یہ خط و کتابت کا دور تھا، موبائل فونز نہیں تھے، دفتر کا لوکل نمبر ہوتا تھا، شہید بھی جہاں دورہ جات کیلئے تشریف لے جاتے، عمومی طور پر مقامی مدارس میں قیام کرتے۔ مقامی علماء کو اہمیت دیتے، حتی نماز جماعت میں مقامی عالم دین کی اقتدا کرتے۔ نوجوانان بالخصوص امامیہ جوانان کو خاص اہمیت دیتے، امامیہ جوانان بھی شہید کو عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرتے، ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے۔ شہید قائد کو جب بہت زیادہ داخلی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو ڈاکٹر محمد علی نقوی ان کیساتھ راز و نیاز کرتے، اپنے درد بھی ایک دوسرے کو سناتے اور منصوبہ بندی بھی کرتے، یہ ان کا اعتماد تھا، یہ ان کی محبت تھی، یہ ان کی پہچان و معرفت تھی، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو اہمیت دیتے تھے۔

جب سانحہ مکہ کے بعد اگلے سال ایرانی حجاج پر پابندی تھی تو امام خمینی کی خواہش پر شہید قائد نے اپنے سب سے قریبی رفیق ڈاکٹر محمد علی نقوی کیساتھ راز و نیاز کیا اور ڈاکٹر محمد علی نقوی جو کشتہ ولایت و رہبری تھے، انہوں نے جان کی پروا کیے بنا حج کا سفر کیا اور برات از مشرکین کا فریضہ انجام دیا، جس میں بعد ازاں انہیں گرفتار کر لیا گیا، ان کی گرفتاری کے بعد ان کی جان کو شدید خطرہ تھا، زیادہ امکان یہی تھا کہ انہیں اس جرم کی پاداش میں ساتھیوں سمیت پھانسی دے دی جائے گی۔ قائد شہید اپنے آخری ایام میں ایران عراق جنگ، جس کو امام خمینی  نے زہر کا پیالہ پینے سے تشبیہ دی تھی، کی خبریں بہت دقت سے سنتے تھے۔ اس وقت ریڈیو تہران و زاہدان چلتا تھا، شہید کے پاس ریڈیو ہوتا تھا، جسے وہ کان سے لگاتے تھے۔ اسی طرح اپنے دیرینہ مخلص رفیق و ہم دم ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اسارت، اپنے سینیئر نائب صدر علامہ فاضل موسوی سمیت دیگر اسیران کیلئے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھا، مگر انہیں یقین تھا کہ اسیران مکہ رہا ہونگے۔

5 اگست کی دم صبح قائد ملت، علامہ سید عاف حسین الحسینی کو پشاور میں ان کے خوابوں کے مرکز جامعہ معارف الاسلامیہ (جامعہ عارف الحسینی) میں شہید کر دیا گیا، ان کی شہادت نے ملت تشیع پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ شہید نے جو سفر شروع کیا تھا، اس کے خطوط، راستے کیسے بدل گئے، علامہ فاضل موسوی اسیر مکہ تھے، مرکزی نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس وقت نائب صدر تھے، قائم مقام صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ذمہ داریوں پر فایز ہوئے، ان کا بطور قائد ملت انتخاب، ایک تاریخی داستان ہے، جسے سامنے لانے کی کوشش کریں گے، جبکہ شہید کے بعد یہ قومی و ملی پلیٹ فارم کس رخ پر گامزن رہا، کون سے اہم کام ہوئے، کون سے سانحات رونما ہوئے، کیسے قومیات کا سفر طے ہوتا رہا، ہم اگلی قسط میں زیر مطالعہ لائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد علی نقوی حامد علی شاہ شہید قائد قائد شہید علامہ سید قائد ملت میں شہید تھی اور شہید کے شہید نے تھا کہ کون سے کے بعد

پڑھیں:

شہرِ قائد میں الیکٹرانک بسوں کے 3 نئے روٹس کا اعلان

سٹی 42 : سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں الیکٹرانک بسوں کے 3 نئے روٹس کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

  مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ جولائی میں مزید 100 نئی ای وی بسیں چلیں گی۔ انہوں نے کہا کہ 9 میٹر طویل 34 نئی بسیں بھی جولائی میں فعال ہوں گی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ جولائی میں 5 ڈبل ڈیکر بسیں چلیں گی، شہری علاقوں میں 1000 ای وی بسیں متعارف کروائی جائیں گی۔ 

فنڈز کی کمی: نگران دورِ حکومت میں تعمیر کیے گئے تھانے فعال نہ ہو سکے

متعلقہ مضامین

  • پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا‘اسحاق ڈار
  • شہرِ قائد میں ایک بار پھر زلزلہ  
  • سیاسی خواب،تاریخی زخم
  • کراچی میں ایک بار پھر زلزلے کے جھٹکے
  • اسرائیل کا ایران پر حملہ بہت افسوس ناک ہے، نواز شریف
  • شہرِ قائد میں الیکٹرانک بسوں کے 3 نئے روٹس کا اعلان
  • پاکستان میں بجٹ کی سیاست
  • ظلم و ناانصافی کیخلاف جدوجہد تیز کرینگے ٗ بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کیے جائیں ٗمنعم ظفر خان
  • کراچی ایک بار پھر زلزلے سے لرزاٹھا،مرکز ملیر ، 10 کلو میٹر گہرائی
  • کراچی کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر زلزلے کے جھٹکے، شہریوں میں خوف و ہراس