Islam Times:
2025-07-30@03:40:12 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(4)

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(4)

اسلام ٹائمز: 5 اگست کی دم صبح قائد ملت، علامہ سید عاف حسین الحسینی کو پشاور میں انکے خوابوں کے مرکز جامعہ معارف الاسلامیہ (جامعہ عارف الحسینی) میں شہید کر دیا گیا، انکی شہادت نے ملت تشیع پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ شہید نے جو سفر شروع کیا تھا، اسکے خطوط، راستے کیسے بدل گئے، علامہ فاضل موسوی اسیر مکہ تھے، مرکزی نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اسوقت نائب صدر تھے، قائم مقام صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ذمہ داریوں پر فایز ہوئے، انکا بطور قائد ملت انتخاب، ایک تاریخی داستان ہے، جسے سامنے لانے کی کوشش کریں گے، جبکہ شہید کے بعد یہ قومی و ملی پلیٹ فارم کس رخ پر گامزن رہا، کون سے اہم کام ہوئے، کون سے سانحات رونما ہوئے، کیسے قومیات کا سفر طے ہوتا رہا، ہم اگلی قسط میں زیر مطالعہ لائیں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رح) 10 فروری کو بھکر کی سرزمین پر قائد منتخب ہوئے تو اس وقت انہیں بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا تھا۔ بیرونی چیلنجز تو سامراج دشمنی، انقلاب اسلامی اور اس کے بانی کے نظریہ سے تعہد اور عالمی اسلامی تحریکوں سے وابستگی، حمایت و تعاون کی فکر کی وجہ سے فطری طور پر سامنے آنے تھا۔ ملکی سطح پر آمریت کے بدترین ایام اور سیاسی قائدین و جماعتوں پر سخت پابندیاں، گرفتاریاں، سزائیں، کوڑے، شاہی قلعہ کی اسیریاں، پریس پر پابندیاں اور فرقہ وارانہ متعصبانہ فضا کا پروان چڑھانا بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھے۔ بطور شیعہ قیادت، ایک روحانی، ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے قوم کو سیاسی و دینی ماحول میں آگے لے کر جانا داخلی چیلنج سے تعلق رکھتا تھا، جبکہ قائد شہید کیلئے سب سے بڑا چیلنج ایک مقابل قیادت کا سامنے آنا تھا۔

سید حامد علی شاہ موسوی جو علی مسجد سیٹلائیٹ ٹاون راولپنڈی کے خطیب تھے، انہیں مفتی جعفر حسین قبلہ کی رحلت کے بعد آنے والے وقفے میں یہ سوچ کر تیار کیا گیا تھا کہ پنڈی بیس قیادت ہونی چاہیئے، جبکہ ان کے انتخاب میں ایسے عناصر بھی کارفرما تھے، جن کا کردار اور عمل اداروں سے وابستہ، قائد شہید جیسی شخصیت جو قیادت اور عہدوں سے دور رہنے والی تھی اور جو اتحاد بین المسلمین کے پاکستان میں سب سے بڑے داعی تھے، بلکہ وہ داعی اور بانی بھی تھے۔ اگر داخلی طور پر تفریق و تقسیم کا شکار تھے تو ان کی جدوجہد پر بہت سے سوال اٹھتے تھے اور مقصد کو زک پہنچتی تھی۔ لہذا قائد شہید نے اس حوالے سے بہت ہی مخلصانہ روش اختیار کی، اپنی قیادت و سیادت کو قربان کرنے پر بھی تیار تھے۔

ان کی طرف سے دنیا بھر کے مخلصین و مومنین کو یہ اعتماد فراہم کیا گیا تھا کہ وہ قبلہ حامد علی شاہ موسوی کو بلا لیں، میں حاضر ہو جائوں گا، شہید قائد نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں مخلص اور دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ ہر اس جگہ پہ پہنچے، جہاں بھی انہیں اتحاد ملت کیلئے بلایا گیا۔ اس حوالے سے دو مقامات دینہ، جہاں کے سادات نے قبلہ حامد علی شاہ کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، آغا سردار علی جان کی دعوت پر آپ شدید بیماری و علالت کے باوجود دینہ پہنچے، جس کی مکمل داستان بہت سی کتب اور شہید پر لکھے گئے مضامین میں موجود ہے۔ اسی طرح شہید نے استر زئی کوہاٹ میں سید حامد علی شاہ کے چاہنے والوں کی دعوت پر بروقت پہنچے، مگر ملاقات کیلئے حامد علی شاہ نہیں آئے، دینہ اور کوہاٹ میں شہید کا پہنچنا اس چیلنج کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ شہید اس کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

دوسرا چیلنج جو داخلی طور پر انہیں درپیش تھا، وہ عقائد کے حوالے سے ان پر بھونڈے الزامات تھے، جن کے بارے ان پر ہر جگہ سوالات ہوتے تھے اور وہ بہت ہی خوبصورت انداز سے ان کا جواب دیتے تھے۔ ایک ایسی قوم جو ان پر یاعلیؑ مدد کے منکر ہونے کا الزام لگاتی تھی، جو ان کے خلاف سید نا ہونے اور پختون ہونے کا الزام لگاتی تھی اور مجالس کے نظام سے وابستہ شخصیات، چاہے وہ ذاکرین تھے یا خطباء، بانیان مجالس و جلوس تھے یا امام بارگاہوں کے ٹرسٹیز، شہید قائد سب کی مخالفت کا شکار تھے۔ ایسی قوم کو جو سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتی تھی اور شیعہ منبر و مساجد سے سیاسی امور و ایشوز پر بات کرنا گناہ تصور کرتی اور اسے دشمنان اہلبیت کا کام سمجھا جاتا، اس کو سیاسی میدان میں باوقا منزل تک لے جانا شہید قائد کی آرزو اور جہد مسلسل تھی، جبکہ ان کیساتھ کاندھا ملا چلنے والے علما کرام کی تعداد بہت کم تھی اور جو موجود تھے ان کا تعلق اس طبقہ فکر و نظریہ سے تھا، جو نظریہ ولایت فقیہ کو اس نظر سے نہیں دیکھتے تھے، جس نظر سے قائد شہید دیکھتے تھے۔

ایسے چیلنجز میں شہید قائد کا کاموں اور قوم کی ترقی و تعمیر اور پیش رفت نیز قومی وقار کی بحالی کا گراف بنائیں، آج بھی ان کی پائے خاک کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکا، جبکہ ان کے مقابل وسائل و امکانات کی بہار ہے۔ بہت ہی مختصر انداز میں بھی اگر ان کے کاموں کی فہرست ذکر کی جائے تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ چند مختصر کام ذکر کر رہا ہوں۔۔۔ قوم کی یکجہتی، سیاسی میدان میں اپنا کردار ادا کرنے، اپنے وجود کے اظہار، قومی وقار کی بحالی کیلئے عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنسز کا سلسلہ جن میں مینار پاکستان لاہور، ملتان، فیصل آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، چنیوٹ شامل ہیں۔ پاکستان کے گوش و کنار حتیٰ اندرون بلوچستان میں جہاں ابھی بھی شیعہ آبادیاں نا ہونے کے برابر ہیں، وہاں تک دورہ جات، تنظیمی اسٹرکچرز کا ملک کے چاروں صوبوں، کشمیر، گلگت بلتستان، قبائلی علاقہ جات تک وسعت، باقاعدہ عہدیداران کا انتخاب، سیاسی جماعتوں بالخصوص اس وقت کی تحریک بحالی جمہوریت جسے ایم آرڈی کہا جاتا تھا، سے بھرپور روابط۔ مینار پاکستان کے سائے تلے سیاسی جدوجہد۔

منشور کا اعلان جو آج بھی قومی جماعتوں کیلئے ایک رہنماء دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، تنظیمی اسٹرکچرز کی مضبوطی کیلئے باقاعدگی سے مرکزی کونسل، سپریم کونسل کے اجلاس، اہل سنت علماء کیساتھ مل کر ملک میں وحدت بین المسلمین کی فضاو ماحول بنایا اور تکفیریت کا راستہ روکا، عالمی استعمار  بالخصوص امریکہ کے خلاف بھرپور ماحول سازی، جس سے قوم و ملت کو اس کے حقیقی دشمن کی شناخت ہوئی، عالمی سطح کی حج کانفرنسز، فلسطین و کشمیر پر جاندار، واضح موقف، مظلومین جہاں چاہے ان کا تعلق اریٹیریا سے تھا یا فلسطین، لیبیا، عراق، حجاز، افغانستان، لبنان، سب کی کھل کی حمایت، عالمی اسلامی تحریکوں سے بھرپور روابط بالخصوس لبنان، حزب اللہ کیساتھ روابط، لبنان کا تاریخی دورہ، اسرائیل کے مقابل لبنانی بارڈر تک دورہ، یوم القدس، یوم مردہ باد امریکہ، یوم انہدام جنت البقیع، یوم برات از مشرکین، سالگرد انقلاب اسلامی، جیسے ایام بہت شاندار انداز میں منائے جاتے تھے۔

شہید قائد ہر اہم موقع پر اپنا پیغام جاری کرتے تھے، چاہے وہ یوم القدس ہو، امامیہ جوانان کنونشن ہو، یا ایام محرم ہوں، شہید کا پیغام جاری ہوتا، جو پورے پاکستان تک پہنچتا تھا۔ شہید قائد نے خود کو کسی مخصوص گروہ یا افراد تک محدود نہیں کر رکھا تھا، وہ ہر ایک سے ملتے، ہر ایک کو اہمیت دیتے، اگر کسی عام جوان سے ایک بار مل لیا اور نام پوچھ لیا تو دوسری بار سامنے آنے پر اس کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ محبت بھرا انداز تھا کہ جوان کھنچے چلے آتے تھے، ان میں ایسی کشش اور جاذبیت تھی کہ جو ایک بار ملتا وہ گرویدہ ہو جاتا، وہ مبتلائے عشق ہو جاتا، آج کے جوانان کو اپنی قیادتوں کے ان رویوں اور انداز کو جانچنا چاہیئے، آخر کیوں ہمیں ورکرز، عہدیدار نہیں ملتے، ہم بھاڑے کے کارکن اور عہدیدارا معین کرتے ہیں اور تنظیمی اجلاسوں میں کام چلاتے ہیں۔

قائد شہید کے دور میں مرکزی دفتر پشاور میں تھا، مگر روابط پورے پاکستان میں محکم تھے، یہ خط و کتابت کا دور تھا، موبائل فونز نہیں تھے، دفتر کا لوکل نمبر ہوتا تھا، شہید بھی جہاں دورہ جات کیلئے تشریف لے جاتے، عمومی طور پر مقامی مدارس میں قیام کرتے۔ مقامی علماء کو اہمیت دیتے، حتی نماز جماعت میں مقامی عالم دین کی اقتدا کرتے۔ نوجوانان بالخصوص امامیہ جوانان کو خاص اہمیت دیتے، امامیہ جوانان بھی شہید کو عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرتے، ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے۔ شہید قائد کو جب بہت زیادہ داخلی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو ڈاکٹر محمد علی نقوی ان کیساتھ راز و نیاز کرتے، اپنے درد بھی ایک دوسرے کو سناتے اور منصوبہ بندی بھی کرتے، یہ ان کا اعتماد تھا، یہ ان کی محبت تھی، یہ ان کی پہچان و معرفت تھی، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو اہمیت دیتے تھے۔

جب سانحہ مکہ کے بعد اگلے سال ایرانی حجاج پر پابندی تھی تو امام خمینی کی خواہش پر شہید قائد نے اپنے سب سے قریبی رفیق ڈاکٹر محمد علی نقوی کیساتھ راز و نیاز کیا اور ڈاکٹر محمد علی نقوی جو کشتہ ولایت و رہبری تھے، انہوں نے جان کی پروا کیے بنا حج کا سفر کیا اور برات از مشرکین کا فریضہ انجام دیا، جس میں بعد ازاں انہیں گرفتار کر لیا گیا، ان کی گرفتاری کے بعد ان کی جان کو شدید خطرہ تھا، زیادہ امکان یہی تھا کہ انہیں اس جرم کی پاداش میں ساتھیوں سمیت پھانسی دے دی جائے گی۔ قائد شہید اپنے آخری ایام میں ایران عراق جنگ، جس کو امام خمینی  نے زہر کا پیالہ پینے سے تشبیہ دی تھی، کی خبریں بہت دقت سے سنتے تھے۔ اس وقت ریڈیو تہران و زاہدان چلتا تھا، شہید کے پاس ریڈیو ہوتا تھا، جسے وہ کان سے لگاتے تھے۔ اسی طرح اپنے دیرینہ مخلص رفیق و ہم دم ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اسارت، اپنے سینیئر نائب صدر علامہ فاضل موسوی سمیت دیگر اسیران کیلئے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھا، مگر انہیں یقین تھا کہ اسیران مکہ رہا ہونگے۔

5 اگست کی دم صبح قائد ملت، علامہ سید عاف حسین الحسینی کو پشاور میں ان کے خوابوں کے مرکز جامعہ معارف الاسلامیہ (جامعہ عارف الحسینی) میں شہید کر دیا گیا، ان کی شہادت نے ملت تشیع پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ شہید نے جو سفر شروع کیا تھا، اس کے خطوط، راستے کیسے بدل گئے، علامہ فاضل موسوی اسیر مکہ تھے، مرکزی نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس وقت نائب صدر تھے، قائم مقام صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ذمہ داریوں پر فایز ہوئے، ان کا بطور قائد ملت انتخاب، ایک تاریخی داستان ہے، جسے سامنے لانے کی کوشش کریں گے، جبکہ شہید کے بعد یہ قومی و ملی پلیٹ فارم کس رخ پر گامزن رہا، کون سے اہم کام ہوئے، کون سے سانحات رونما ہوئے، کیسے قومیات کا سفر طے ہوتا رہا، ہم اگلی قسط میں زیر مطالعہ لائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد علی نقوی حامد علی شاہ شہید قائد قائد شہید علامہ سید قائد ملت میں شہید تھی اور شہید کے شہید نے تھا کہ کون سے کے بعد

پڑھیں:

آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟

جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نمو

پاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔

آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکام

یہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟

عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘

پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔

‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثر

ڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک محدود کرنا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔

اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔

سیاسی ایجنڈے سے غائب

سابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔

‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناک

پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدود

ڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔

نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔

متعلقہ مضامین

  • صرف جمہوریت۔ورنہ کچھ نہیں
  • عمران خان کے بیٹوں کا پاکستان آنا ڈرامہ تھا، خواجہ آصف کا ردعمل
  • پی ڈی پی کی جدوجہد آئین، پرچم اور خصوصی حیثیت کے لیے ہے, التجا مفتی
  • شہر قائد میں ڈکیتی مزاحمت پر ایک اور شہری قتل
  • ’’حق دو بلوچستان مارچ‘‘ لاہور پہنچ گیا: شرکاء کا جدوجہد جاری رکھنے کا عزم
  • موضوع: پاکستان کی تازہ ترین سیاسی صورتحال
  • کراچی کی مردم شماری میں شہری آبادی کی شمولیت وکلاء کی جدوجہد کا ثمر ہے، خالد مقبول صدیقی
  • حریت رہنمائوں کا تنازعہ کشمیر کے حتمی حل تک پرامن جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ
  • آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
  • برسی قائد شہید کی آمد، ایم ڈبلیو ایم رہنماوں کے پیغامات