رینٹل پاور کیس کا تحریری فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
راجہ پرویز اشرف — فائل فوٹو
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے رینٹل پاور ریفرنس کیس سے راجہ پرویز اشرف اور دیگر کو بری کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد علی وڑائچ نے تحریری فیصلہ جاری کیا، جس کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات پر نیب نے رینٹل پاور پلانٹس کے خلاف انکوائری شروع کی۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد 31 ملزمان کے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ کار کے کمپنی کو غیر قانونی کنٹریکٹ دینے پر 12 ملزمان کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس فائل ہوا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت متعدد ملزمان کو نیب ریفرنسز سے ڈسچارج کر دیا۔
فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے 5 ستمبر 2023ء کے فیصلے میں نیب ترامیم کو جزوی طور پر کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد ریفرنس واپس نیب عدالت میں آگیا۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ نیب نے 31 میں سے 11 ملزمان کی حد تک کیس واپس لے لیا تھا۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ باقی ملزمان کا کیس اصل ریفرنس کے 11 ملزمان کے برابر ہے جنہیں بری کیا جاچکا ہے، ریفرنس میں باقی بچ جانے والے ملزمان پر اصل ملزمان کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے، اصل ملزمان پر نیب کیس واپس لے چکی لہٰذا باقی ملزمان بھی بری ہونے کے حقدار ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: راجہ پرویز اشرف
پڑھیں:
عظمیٰ بخاری کی جعلی ویڈیو مقدمہ، ملزم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
فائل فوٹو۔لاہور ہائیکورٹ میں وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی جعلی ویڈیو کے مقدمہ میں ملزم علی حسن کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ضمانت پر سماعت کی۔
اس موقع پر عظمٰی بخاری کے وکیل نے کہا کہ ملزم نے فیک ویڈیو وائرل کی، ضمانت کامستحق نہیں، ایف آئی اے تفتیش میں ملزم گناہ گار ثابت ہوا۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پی ٹی اے کی ٹیکنیکل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا ملزم نے ویڈیو پر تبصرہ کرکے اسے شیئر کیا جو قانون کی نظر میں جرم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے میں علی حسن طور کا ذکر ہے مگر جو ویڈیو اپ لوڈ ہوئی وہ تو اس کی اپنی ہے۔ سیلفی ویڈیو کو اپ لوڈ کرنا اور اس میں ذکر کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ سیلفی ویڈیو میں ملزم نے کیا بولا یہ تو ٹرائل کی باتیں ہیں، لکھنے اور بولنے میں چیزوں کا فرق تو عدالت کے سامنے واضح ہوگیا۔
انھوں نے کہا کہ جس حد تک معاملے کو سنجیدہ بتایا گیا عدالت کےسامنے ہے، اسی ویڈیو کا بتا کر سنجیدہ رپورٹس بنا کر عدالت میں پیش کی گئیں۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے تو لاکھوں ویڈیوز اور ٹک ٹاک ہوتے ہیں، فارنزک رپورٹ عدالت تک آنے میں کتنے سال لگیں گے۔ بتایا جائے ان ویڈیوز کی بنیاد پر تفتیشی افسر نے ملزم کو کس حد تک فکس کیا۔
ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ مقدمے کا چالان عدالت جمع ہوچکا ہے۔
عدالت عالیہ نے اس پر ایف آئی اے کے وکیل کو ہدایت کی کہ جو پوچھا جا رہا ہے وہ بتایا جائے، جس وقت تفتیشی رپورٹ بنائی گئی اس وقت تو وہ ویڈیوز ریکارڈ پر بھی نہیں تھیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا جس فیک ویڈیو کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ ملزم کے اکاؤنٹ سے شئیر نہیں ہوئی، اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو ہم ضمانت کی درخواست واپس لینے کو تیار ہیں۔