پاکستان نے گزشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہیں

پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے ،وزیراعظم کی سعودی، اماراتی اور کویتی سفرا سے ملاقاتیں، خطے میں امن کیلئے مشترکہ کام کرنے کی خواہش کا اظہار

وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی، متحدہ عرب امارات کے سفیر عبید ابراہیم سالم الزابی اور کویت کے سفیر نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں، ان ملکوں کے سفرا نے خطے میں امن وسلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے ایوان وزیراعظم میں ملاقات کی۔اس موقع پر وزیراعظم نے حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور وزیراعظم نے سعودی قیادت اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کی ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں، وزیراعظم نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو یکسر مسترد کیا۔وزیراعظم نے واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا،انہوں نے کہاکہ پاکستان کی کامیابیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ سے ہٹانے کی بھارتی کوششیں ناقابل فہم ہیں۔ وزیراعظم نے سعودی عرب سمیت برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں، انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا ۔سعودی سفیر نے اس اہم معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہاکہ سعودی عرب خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے ۔دریں اثنا، وزیر اعظم شہباز شریف سے متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبید ابراہیم سالم الزابی نے بھی وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی۔وزیر اعظم نے پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا، ملاقات میں پہلگام واقعے کے بعد خطے کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے ، انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 90 ہزار جانوں اور 152 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔وزیر اعظم نے بھارتی الزمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کا مقصد پاکستان کی توجہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے ہٹانا ہے ۔متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزابی نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، سفیر نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔دریں اثنا، وزیراعظم محمد شہباز شریف سے کویتی سفیر کی ملاقات ہوئی ہے ، جس میں واقعہ پہلگام کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم کویت کے ولی عہد کے جلد پاکستان کے دورے کے منتظر ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے ، پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے ہوئے بہت قربانیاں دیں، بھارت نے واقعہ پہلگام کو بغیر ثبوت کے پاکستان سے جوڑا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی برادری کو واقعے کی شفاف تحقیقات کی پیشکش کی ہے ، پاکستان ایسی کارروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔کویتی سفیر نے پاکستان کے موقف کو آگاہ کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

تیسری عالمی جنگ کےسائے

عالمی منظرنامہ اس وقت ایک ایسی چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر موڑ پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو عالمی طاقتوں کی چالوں، جغرافیائی سیاسی دباؤ، اور بدنیتی پر مبنی ایجنڈوں سے جنم لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ اب محض ایک خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسی آگ ہے جو چنگاریوں سے شعلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، ہندوستان کے ساتھ اس کی گہری یاری، ایران میں خفیہ اداروں را اور موساد کا نیٹ ورک، اور 2026 میں پاکستان کے ممکنہ طور پر اس آگ میں جھلسنے کا خطرہ، یہ سب وہ عوامل ہیں جو دنیا کو ایک عظیم سانحے کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔

آئیے، اس پیچیدہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کیسے اس تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس میں کیسے پھنس سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سر جوڑتی ہیں، تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ آج کا عالمی منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، تناؤ کی وہ لکیر کھنچی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔

روس-یوکرین تنازعہ، ایران-اسرائیل کشیدگی، اور ہندوستان-پاکستان تعلقات کی گرما گرمی— یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کا جال بن رہے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات، اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دیا ہے۔

دوسری طرف، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں نے ایران کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں، جنہیں بعض مبصرین ’تحکمانہ‘ اور ’جارحانہ‘ قرار دیتے ہیں، نے خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔

اس صورت حال میں، چین اور روس کی ایران کے ساتھ قربت، اور امریکا کی اسرائیل کے ساتھ مکمل حمایت، عالمی طاقتوں کو 2 خیموں  میں تقسیم کر رہی ہے۔ جب یہ دونوں خیمے ٹکرائیں گے، تو نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

تیسری عالمی جنگ ناگزیر اس لیے ہو چکی ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یہ پراکسی جنگیں، جیسے کہ شام، یمن، اور اب ایران میں جاری تنازعات، ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ ہیں۔ جب طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو چمکاتی ہیں اور اپنے اتحادیوں کو اکساتی ہیں، تو امن کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، معاشی بحران، وسائل کی کمی، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے۔ جب وسائل کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو قومیں اپنے وجود کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

اسرائیل کی بدمعاشی اور ہندوستان کی یاری

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں مشرق وسطیٰ کے تناؤ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ غزہ میں جاری تنازعہ اور ایران پر حالیہ حملوں نے خطے کو ایک بارود کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔

اسرائیل کی یہ پالیسیاں کوئی نئی بات نہیں، یہ اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ ایران پر حملوں کے بعد، جہاں اسرائیل نے مبینہ طور پر ایرانی ڈرونز کو نشانہ بنایا، عالمی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بدمعاشی کا ایک اہم پہلو اس کی ہندوستان کے ساتھ گہری دوستی ہے۔

ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ چند دہائیوں میں نہ صرف مضبوط ہوئے ہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک فوجی، ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اسرائیل کی ’موساد‘ کے درمیان تعاون کی اطلاعات نے خطے میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ تعاون خاص طور پر ایران کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے، جہاں دونوں ایجنسیوں نے مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

ہندوستان کی اسرائیل کے ساتھ یہ یاری پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ، جس میں ہندوستان نے پہلگام حملے کاجھوٹا بےبنیاد الزام لگا کر پاکستان پر میزائل حملے کیے، اس بات کی واضح مثال ہے کہ ہندوستان اپنی جارحانہ پالیسیوں کو اسرائیل کی طرز پر ڈھال رہا ہے۔

اس تنازعہ نے نہ صرف پاک-بھارت تعلقات کو مزید خراب کیا بلکہ عالمی سطح پر یہ اشارہ بھی دیا کہ ہندوستان اب خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، جو اسرائیل کی حمایت سے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔

ایران، جو مشرق وسطیٰ کا ایک اہم کھلاڑی ہے، اس وقت اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے نشانے پر ہے۔ را اور موساد کا نیٹ ورک ایران کے اندر خفیہ کارروائیوں کے ذریعے اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، یہ دونوں ایجنسیاں ایران کے جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں، اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے تناظر میں بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ موساد اور را نے پاکستان کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنائی تھی، جس میں ایران کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شامل تھی۔

ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں نے اس نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ ایران کے جوابی حملوں کو اردن اور دیگر اتحادیوں نے ناکام بنایا، لیکن یہ صورتحال ایران کو مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

اگر ایران اس جنگ میں مکمل طور پر کود پڑتا ہے، تو روس اور چین کی حمایت اسے ایک بڑی طاقت بنا سکتی ہے، جو عالمی جنگ کے امکانات کو اور بڑھا دے گی۔

پاکستان، جو جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس ممکنہ عالمی جنگ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی جارحیت کا براہ راست نشانہ بن سکتا ہے۔ اس تنازعہ میں ہندوستان نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا، جبکہ پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی۔

2026 تک اگر عالمی تناؤ بڑھتا ہے، تو پاکستان کے لیے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو گھیرے میں لے سکتی ہے، خاص طور پر اگر ایران کے ساتھ تنازعہ بڑھتا ہے۔

پاکستان کی ایران کے ساتھ ہمدردی اور اسرائیل کی مذمت اسے مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں کھینچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی جوہری صلاحیت اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بناتی ہے۔

پاکستان کی فوج، جو خطے میں ایک مضبوط ترین طاقت سمجھی جاتی ہے، اس جنگ میں دفاعی کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ہندوستان اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی ہے، جو اسے عالمی طاقتوں کے ایجنڈوں میں مزید اہم بنا دیتی ہے۔

تحریر: چوہدری خالد عمر

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چوہدری خالد عمر

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ازبکستان کے سفیر علی شیر تختایف کی ملاقات
  • وزیراعظم سے ایرانی سفیر کی ملاقات، شہباز شریف کی اسرائیلی حملوں کی مذمت
  • چین اور قازقستان کو مشترکہ طور پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہیے، چینی صدر
  • مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کا امتحان
  • نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار سے جاپان میں پاکستان کے نامزد سفیر عبدالحمید بھٹہ کی ملاقات
  • خیبرپختونخوا: سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 5 خوارج ہلاک
  • تیسری عالمی جنگ کےسائے
  • غداری اور جاسوسی پر سعودی شہری کو سزائے موت
  • غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی ، مزید 23 فلسطینی شہید
  • وزیر اعظم کی بنگلہ دیش میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر سمیت دیگر ممالک میں اہم سفارتی تعیناتیوں کی منظوری