پاک بھارت ممکنہ جنگ ، کس کے پاس کتنے ہتھیار ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو ’ ہزار زخم دینے‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اس وقت دونوں ممالک میں جنگ کے طبل پہلے سے زیادہ شدت سے بج رہے ہیں۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق 1947 کے بعد سے اب تک یہ دونوں جوہری طاقتیں 4 بڑی جنگیں لڑ چکی ہیں اور کشمیر کے تنازعے پر متعدد مرتبہ محاذ آرائی میں ملوث رہی ہیں، ایسے میں ان کی موجودہ عسکری طاقتوں کا تقابلی جائزہ خاصا دلچسپ اور اہمیت کا حامل ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کا دروازہ بند ہوچکا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو بڑی تباہی ہوگی، بھارت کی جانب سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا خدشہ ہے۔بین الاقوامی سطح پر دفاعی طاقت کا تجزیہ کرنے والی ویب سائٹ ’گلوبل فائر پاور‘ جو 2006 سے دنیا کے 145 ممالک کی افواج کا جائزہ لے رہی ہے، اس نے اپنی تازہ درجہ بندی میں پاکستان کو سال 2025 میں بارہویں نمبر پر رکھا ہے جب کہ بھارت دنیا کی چوتھی بڑی عسکری طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اس فہرست میں صرف امریکا، روس اور چین بھارت سے آگے ہیں، دوسری جانب سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کا پانچواں بڑا دفاعی خرچ کرنے والا ملک ہے جو سالانہ 86 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10ارب ڈالر ہے جو بھارت کے مقابلے میں تقریباً 9 گنا کم ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس رعد (ہاتف-8) کروز میزائل موجود ہے جو پاکستان ایئر فورس کی جوہری سٹینڈ آف صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ان فوجی صلاحیتوں اور اخراجات کے تناظر میں مختلف آراءسامنے آئی ہیں،سابق قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے مبینہ طور پر خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا دروازہ موثر طریقے سے بند ہو چکا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ مکمل تباہی کا باعث بنتا تاہم 2017 کی پرانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ انہوں نے پہلے خبردار کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ایک مکمل طور پر لیس فوج موجود ہے، میجر جنرل اعجاز اعوان دونوں ممالک کے درمیان کسی میزائل تبادلے کو نہیں دیکھتے تاہم وہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ممکنہ بھارتی حملے یا بلوچستان یا خیبر پختونخوا (کے پی) میں دہشت گردانہ حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق دفاعی اخراجات میں سرفہرست ممالک میں امریکا ، چین، روس، جرمنی، بھارت، برطانیہ، سعودی عرب، یوکرین، فرانس اور جاپان شامل ہیں۔گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق پاکستان کے پاس 654000 فعال فوجی، 500000 نیم فوجی اہلکار اور 550000 ریزرو اہلکار موجود ہیں۔اس کے برعکس بھارت کے فعال فوجی اہلکاروں کی تعداد 14 55550، نیم فوجی اہلکار 2527000 اور ریزرو اہلکار 1155000 ہیں، ہوائی قوت میں پاکستان کے پاس 1399 طیارے ہیں جن میں سے 328جنگی طیارے اور 373ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ بھارت کے پاس 2229 طیارے، 513جنگی طیارے اور 899 ہیلی کاپٹر موجود ہیں، زمینی فوجی اثاثوں میں پاکستان کے پاس 2627 ٹینک، 17516بکتر بند گاڑیاں، 662 خودکار توپیں، 2,629 گھسیٹنے والی توپیں اور 600 موبائل راکٹ لانچرز ہیں۔
بھارت کے پاس ان میں سے زیادہ تر اثاثے بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں 4201 ٹینک، 148594 بکتر بند گاڑیاں اور 3975 توپیں شامل ہیں، بحری قوت کے لحاظ سے پاکستان کے پاس 121جہازوں کا بیڑا ہے جس میں 8 آبدوزیں اور 9فریگیٹس شامل ہیں۔اس کے برعکس بھارت کے بحری بیڑے میں 293 جہاز، 2 طیارہ بردار جہاز، 18 آبدوزیں اور 14 فریگیٹس شامل ہیں، ہوائی اڈوں کی تعداد پاکستان میں 116 اور بھارت میں 311ہے۔مرچنٹ نیوی کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس 60 جبکہ بھارت کے پاس 1859 تجارتی جہاز ہیں اور پاکستان کے 3 کے مقابلے میں بھارت کے پاس 56بندرگاہیں اور ٹرمینل موجود ہیں۔
SIPRI کی جون 2024 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس اس وقت 172 جوہری ہتھیار ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 170، یہ گزشتہ 25 سال میں پہلا موقع ہے کہ بھارت کا ایٹمی ذخیرہ پاکستان سے تجاوز کر گیا ہے، ماضی میں مغربی تجزیہ کار اداروں بشمول SIPRI اور International Panel on Fissile Materials (IPFM) کی رپورٹس میں عموماً پاکستان کو تھوڑی سی برتری حاصل رہی ہے۔SIPRI کے مطابق بھارت کے جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع میں جنگی طیارے، زمین سے مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائل شامل ہیں، پاکستان کی ایٹمی قوت میں طیارے، زمینی اور سمندری کروز میزائل شامل ہیں۔
پاکستان رعد (ہاتف-8) جیسے کروز میزائل تیار کر رہا ہے جن کی رینج 350 سے 600 کلومیٹر کے درمیان ہے اور یہ فضائیہ کی ایٹمی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔ III، میراج V، F-16، اور JF-17 جیسے طیارے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل ہیں۔
پاکستان کا ابدالی میزائل کا تجربہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پاکستان کے پاس بھارت کے پاس کہ پاکستان موجود ہیں کہ بھارت شامل ہیں کے مطابق ہیں اور
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملے اور پاکستان پر ممکنہ اثرات (پہلا حصہ)
قدرت کی بھی عجب ستم ظریفی ہے اور عالمی تاریخ کی حیرت انگیز ستمرانیاں بھی !1979کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیر اعظم ، زیڈ اے بھٹو، کا تختہ اُلٹ دیا ۔ پھر ایک مشتبہ سے مقدمے میں انھیں تختہ دار پر بھی لٹکا دیا۔توقعات تھیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت ، آئین شکنی اور بھٹو کی سزائے موت کے خلاف عالمی سطح سے سخت ردِ عمل آئے گا اور جنرل ضیاء الحق کو اپنی آمریت کا بوریا بستر لپیٹ کر ’’گھر‘‘ کی راہ لینا پڑے گی ، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہُوا۔
اس لیے کہ انھی ایام میں سوویت رُوس نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا ، اور مخالف قوتوں نے ایران پر شہنشاہِ ایران ، رضا شاہ پہلوی، کی حکومت ختم کر دی تھی۔ ایران سے امریکا کا اثرورسوخ یکلخت ختم ہو گیا تھا۔ یوں دُنیا پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی سیاسی زیادتیوں کے خلاف متوجہ ہونے کے بجائے افغانستان اور ایران کی طرف متوجہ ہو گئی۔افغانستان پر سوویت رُوس کا حملہ اور ایران میں پہلوی بادشاہ کی حکومت کا خاتمہ دراصل جنرل ضیاء الحق کے لیے Blessing in Disguiseثابت ہُوئے ۔
اب جب کہ جون 2025کے دوسرے ہفتے پاکستان میں 2025-26 کے نئے مالی سال کے بجٹ کے کئی ہلاکت خیز بم پاکستان کے غریب، متوسط اورزیریں متوسط طبقات پر گرا دیے گئے اور حکومت کے خلاف عوام کی ناراضی کا آغاز ہو چکا تھا، صہیونی اسرائیل نے ایک بار پھر ایران پر حملہ کر دیا ۔ اور یوں اچانک پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے تازہ تباہ کن بجٹ کے خلاف تنقیدات کا طوفان تھم گیا اور اِس کی جگہ ایران پر اسرائیلی حملے کے اذکار نے لے لی۔
شہباز حکومت اور وزیر خزانہ نے اِن تنقیدات کے طوفانوں کے تھمنے پر’’سُکھ کاسانس ‘‘ لیا ہوگا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملہ اِس حکومت کے لیے Blessing in Disguiseہی ثابت ہُوا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی شہباز حکومت نے،دیگرکئی اسلامی مملکتوں کی مانند، ایران پر اسرائیلی حملے کی مخالفت کرتے ہُوئے بجا طور پر مذمت بھی کی ہے ۔ صہیونی اسرائیل نے8 ماہ قبل بھی ایران پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے اپنے معروفِ عالم جنگی ڈرونز اور میزائلوں سے ترنت اِس حملے کا جواب بھی دیا تھا ، مگر اِس بار اسرائیلی حملے پہلے کی نسبت شدید تر، زیادہ تباہ کن اور متنوع ہیں ۔
ایران پر یہ تازہ اسرائیلی حملہ 12اور 13جون 2025کی درمیانی رات اُس وقت ہُوا جب ہمارے سبھی اخبارات پریسوں میں جا چکے تھے۔ اِسی لیے 13جون کے اخبارات مذکورہ اسرائیلی حملے کی رپورٹنگ سے خالی تھے۔ یہ مگر خبریں ضرور شایع کی گئی تھیں کہ ’’ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
اِس ضمن میں ہمارے بعض دانشوروں کے ’’تجزیئے ‘‘بھی عجب اسلوب کے دیکھے گئے ۔ مثال کے طور پر13جون کے اخبارات میں پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری خارجہ کا ایک بیان اِن الفاظ میں شایع ہُوا: ’’اسرائیل ، ایران پر حملے بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اور جس وقت یہ بیان شایع ہو کر قارئینِ کرام تک پہنچا ، اُس وقت اسرائیل پوری بربریت ، بہیمیت اور بے شرمی کے ساتھ ایران پر حملہ کر بھی چکا تھا ۔ اسرائیل نے بقولِ خود، 200 جنگی طیاروں کے ساتھ ایران کے 8شہروں پر 100اہداف پر حملہ کیا ۔ مبینہ طور پر کئی ایرانی شہری اِن حملوں کا لقمہ بن چکے ہیں ۔
اور یہ خبر ہم سب مسلمانوں ، مسلمان حکمرانوں اور عالمِ اسلام کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کہ اسرائیل نے اِس حملے میں ایرانی افواج کے سربراہ(جنرل باقری) ، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے چیف(حسین سلامی) ، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اور سینئر رہنما ( میجر جنرل غلام علی راشد)، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی ایئراسپیس فورس کے کمانڈر ، امیر علی حاجی زادہ ، اور ایرانی ایٹمی پروگرام کے4 سینئر ترین ایٹمی سائنسدانوں ( فریدون عباسی، محمد مہدی تہرانچی ، ڈاکٹر عبدالحمید ) کو بھی ، پہلے ہی ہلّے میں، شہید کر ڈالا ہے۔
اسرائیل نے تو اپنی اِس ہلاکت خیز کامیابیوں کی تصدیق کی ہی ہے ، ایران نے بھی اپنے مذکورہ بھاری عسکری نقصان کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایران نے اپنی افواج کے سربراہوں کی شہادتوں کے فوراً بعد نئے عبوری سربراہوں( محمد پاکپور اور عبدالرحیم موسوی) کی تعیناتی بھی کر دی ہے۔ اسرائیل نے عالمی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا ثبوت دیتے ہُوئے ایران کے اُن شہروں کو ہدف بنایا ہے جو ایٹمی اور عسکری اعتبار سے خاصے حساس واقع ہُوئے تھے۔ اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات اور ایرانی ایٹمی تجربات کے مراکز شہروں ( مثال کے طور پر نطنز) کو نشانہ بنایا ہے ۔
اسرائیل نے اپنے حملوں میں جن سینئر ترین ایرانی فوجی اور جوہری قیادت کو شہید کیا ہے،عالمی سطح پر اِس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ بدنامِ زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) درحقیقت ایران میں دُور تک نفوذ کر چکی ہے۔ اِس سے قبل (جولائی 2024 میں) جب اسرائیل نے ٹھیک نشانہ باندھ کر ایرانی دارالحکومت ، تہران، کے مضافات میں قیام پذیر مشہور فلسطینی غزہ رہنما( اسماعیل ہنیہ) کو شہید کر ڈالا تھا تو یہ بھی اِس بات کا عملی ثبوت تھا کہ ’’موساد‘‘ ایران کے اندر اپنی سرنگیں کھود چکی ہے ۔ مہمان اسماعیل ہنیہ کا قتل ایرانی قیادت کے لیے شدید ندامت کا باعث بنا تھا۔
ایران نے دھڑلّے سے کہا تھا کہ وہ اسماعیل ہنیہ کا اسرائیل سے بدلہ لے گا ، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود آج تک ایران ، اسرائیل سے بدلہ نہیں لے سکا۔ اِس سانحہ سے ساڑھے چار سال قبل جب امریکا نے بغداد کے ہوائی اڈے پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، میجر جنرل قاسم سلیمانی، کو ڈرون حملے میں شہید کرکے ایران کو سخت عسکری نقصان پہنچایا تھا تو بھی ایرانی قیادت کی جانب سے برملا اعلان کیا گیا تھا کہ ہم قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ امریکا سے لیں گے۔
18 ماہ گزرنے کے باوجود مگرآج تک اِس قتل کا بدلہ بھی ایران نہیں لے سکا۔ اب ایران نے 12اور 13جون کی درمیانی شب اسرائیلی حملے کا جواب دینے اور اپنی سینئر ترین فوجی قیادت کی شہادتوں کا بدلہ لینے کا پھر اعلان کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ بدلہ اسرائیل سے کب لیا جائے گا؟عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے ہلاکت خیز اسرائیلی حملے کا بدلہ لینے کا سنہری موقع وہ تھا جب اسرائیل کے ایران پر حملے کو ابھی اوّلین 6گھنٹے گزرے تھے۔ایک دن کی تاخیر سے ایران نے بھرپور انداز میں اسرائیل پر جوابی حملہ کیا ہے اور تل ابیب میں جزوی تباہی مچا دی ہے ۔
ہماری محبتیں ، ہمدردیاں اور دعائیں تو بہرحال ایران کے ساتھ ہیں۔ صہیونی اسرائیل کی حمائت میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ بات مگر ماننا پڑے گی کہ پچھلے 20 مہینوں کے دوران (جب سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کا جنگی تصادم شروع ہُوا ہے) اسرائیل کو ہر لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ میں عسکری بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اسرائیل نے نہائت بہیمیت سے ممتاز ترین غزہ مجاہدین رہنما( یحییٰ سنوار اور محمد سنوار) شہید کر ڈالے ۔ یمن پر بھی کامیاب حملے کیے۔
اسرائیل نے شام میں اسد خاندان کی 55سالہ (ایران نواز) حکومت ختم کرکے اپنی من پسند( احمد الشراع کی) حکومت قائم کی ، جو ’’القاعدہ‘‘ کے سابق جنگجو لیڈر بھی رہے ہیں ۔ مگراب ٹرمپ ، احمد الشرع سے سعودیہ میں ملاقات بھی کر چکے ہیں اور اُن کی حکومت بھی تسلیم کرلی ہے ۔ شام کے کئی نئے علاقوں پر اسرائیل نے نیا قبضہ بھی جما لیا ہے۔
اسرائیل نے اِسی دوران لبنان میں اپنے سب سے بڑے جنگجو حریف ( حزب اللہ ) کی کمر یوں توڑ کر رکھ دی کہ اس کے مرکزی رہنما ( حسن نصراللہ،علی حرکی ، ہاشم صفی الدین ) شہید کر ڈالے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ لبنان کی ایران نواز ’’حزب اللہ‘‘ خود کو غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف پوری طاقت سے بروئے کار آنے کے قابل نہیں سمجھ رہی۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے اثرات پاکستان پر مرتب نہ ہوں؟اِن اثرات کو کمتر کرنے کے لیے ہمارے وزیر خارجہ، اسحاق ڈار، نے ایرانی وزیر خارجہ ، عباس عراقچی، سے براہِ راست فون پر گفتگو بھی کی ہے۔
( جاری ہے )