Daily Ausaf:
2025-08-02@18:23:10 GMT

پانی پر ایک بڑی جنگ ہو سکتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

پانی ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے-یہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اس کو بچانا،اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری اور اہم فرائض میں سے ایک ہے۔زندگی کی بقا کے لیے آکسیجن کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت پانی ہےپانی کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین بھی ان دونوں شدید تنازع پیدا ہو گیا ہےجس نے خطے کی صورت حال بگاڑ دی ہے اور ٹینشن پیدا کر دی ہے۔دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل آ کھڑی ہوئی ہیں۔حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے وقوعہ کا سارا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے جبکہ وقوعہ کے فورا بعد پہلگام تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کسی تحقیق اور تفتیش کے بغیر واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کی بات کی گئی ہے۔وقوعہ کے اسی روز مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی بھی بات کی اور کہا کہ بھارت سے پاکستان کو جانے والے دریا کے پانی کو روک دیاجائے گا۔جس کے جواب میں پاکستان نے بھی وارننگ دی کہ ہمارے پانی کو روکاگیا تو اسے ہم اعلان جنگ تصور کریں گےکیونکہ پانی ہماری لائف لائن ہے پانی روکنے کے عمل کو ہم اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کریں گے۔بھارت کو اس کا سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ان دھمکیوں اور وارننگ کے بعد صورت حال اب کچھ اور بھی زیادہ کشیدہ ہو گئی ہے۔دونوں جانب کی فوجیں جنگ کے لیےمستعد اور تیار کھڑی ہیں۔ سرحدوں پر افواج کی بہت غیر معمولی نقل و حمل نوٹ کی گئی ہے۔فوجی مبصرین کا کہنا ہے کسی بھی فریق کی معمولی سی غلطی خطےکوجنگ میں دھکیل سکتی ہے۔جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے۔دنیا جو پہلے ہی معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔مزید اقتصادی و معاشی بحران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔پانی کسی بھی ملک اور وہاں کے باسیوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔اس کا اندازہ اسی بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ پانی کے مسئلے پر دو ایٹمی قوتیں جنگ کے لئے تیار ہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں سندھ طاس معاہدے کی،بھارت کی جانب سے جس کی معطلی کے بعد یہ سنگین صورت حال پیدا ہوئی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو دریائے سندھ اور دیگر دریائوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم اور حصہ داری کےحوالے سےایک معاہدہ طےپایاجسے سندھ طاس معاہدے کانام دیاگیا۔اس پس منظر میں یہ جاننابھی ضروری ہے کہ 1909 میں برطانوی حکام نے زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا جس کے مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا۔دریائے جہلم کو ایک نہر کے ذریعے چناب سے ملا دیا گیا جبکہ پنجند اور معاون دریائوں پر بہت سے بند اور بیراج بنائے گئے۔جس کا مقصد سیلاب کے دنوں میں پانی کا ذخیرہ کرنا تھا۔اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا وہاں ان ذخیروں میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔1932 میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور نیا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔برطانوی انجینئرز نے آبپاشی نظام کے جو فارمولے تشکیل دئیے۔وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔قریبا پچاس سال تک پانی کے مسئلے کو طاقتور دریائوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا مگر 1947 کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ پانی کا یہ نظام کامیابی سے چلتا رہے۔اس لیئے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریائوں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں یعنی پاکستان اور ہندوستان پر واضح کر دی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گےمگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے دونوں نے یہ تجویز رد کر دی۔پاکستان جانتا تھا اس طرح بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ بھی دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا۔شاید اندرون خانہ ان کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کےقبضے میں آ گئیں۔پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھےجس پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا۔پانیوں کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔بھارت چاہتا ہے پاکستان کا پانی بند کر کیاسے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرے۔ہم کبھی سنتے تھے کہ دنیا میں اب جنگیں پانی پر ہوا کریں گی اور یہ وقت ہماری زندگی میں آ گیا ہے۔پاکستان کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اپنے آبی وسائل پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرے گا۔سچ ہے بھارت باز نہ آیا تو پانی پر ایک بڑی اور ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بھارت کے پانی کو سکتی ہے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اسحاق ڈار کی ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات، دوطرفہ روابط کو مزید فروغ دینے پرگفتگو

سٹی 42 : نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے آج اسلام آباد میں ایران کے وزیر خارجہ، سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ 

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں راہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ملاقات میں علاقائی استحکام، تجارت، اور معاشی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اسکے علاوہ دونوں فریقین نے باہمی دلچسپی کے اہم شعبوں میں دوطرفہ روابط کو مزید فروغ دینے پر بھی گفتگو کی۔ 

محدود مدت تک عجائب گھروں میں داخلہ مفت؛ حکومت نے بڑا اعلان کردیا

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ، ڈاکٹر مسعود پژشکیان کے سرکاری دورۂ پاکستان کے وفد کا حصہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کی ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات، دوطرفہ روابط کو مزید فروغ دینے پرگفتگو
  • روزمرہ کے استعمال کی متعدد اشیاء کینسر کا سبب سن سکتی ہیں: تحقیق
  • ایرانی صدر کی لاہور آمد، پاکستان کے راستے چین سے تجارت کی خواہش
  • ایران کے صدر مسعود پزشکیان سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے
  • جمہوریت کا احترام کریں، عمران خان کو منصفانہ ٹرائل دیں: قاسم خان
  • عمران خان کے دونوں بیٹے کب پاکستان آئیں گے؟ علیمہ خان نے بتا دیا
  • کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ اور ترقی یافتہ ممالک کی حکمتِ عملیاں
  • ایاز صادق کی برطانوی، ایرانی منصب سے ملاقات، مضبوط تعلقات پر اتفاق
  • پاک امریکا تجارتی معاہدہ  اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز ہوگا، وزارت خزانہ
  • بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے: عطا تارڑ