پانی پر ایک بڑی جنگ ہو سکتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
پانی ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے-یہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اس کو بچانا،اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری اور اہم فرائض میں سے ایک ہے۔زندگی کی بقا کے لیے آکسیجن کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت پانی ہےپانی کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین بھی ان دونوں شدید تنازع پیدا ہو گیا ہےجس نے خطے کی صورت حال بگاڑ دی ہے اور ٹینشن پیدا کر دی ہے۔دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل آ کھڑی ہوئی ہیں۔حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے وقوعہ کا سارا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے جبکہ وقوعہ کے فورا بعد پہلگام تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کسی تحقیق اور تفتیش کے بغیر واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کی بات کی گئی ہے۔وقوعہ کے اسی روز مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی بھی بات کی اور کہا کہ بھارت سے پاکستان کو جانے والے دریا کے پانی کو روک دیاجائے گا۔جس کے جواب میں پاکستان نے بھی وارننگ دی کہ ہمارے پانی کو روکاگیا تو اسے ہم اعلان جنگ تصور کریں گےکیونکہ پانی ہماری لائف لائن ہے پانی روکنے کے عمل کو ہم اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کریں گے۔بھارت کو اس کا سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ان دھمکیوں اور وارننگ کے بعد صورت حال اب کچھ اور بھی زیادہ کشیدہ ہو گئی ہے۔دونوں جانب کی فوجیں جنگ کے لیےمستعد اور تیار کھڑی ہیں۔ سرحدوں پر افواج کی بہت غیر معمولی نقل و حمل نوٹ کی گئی ہے۔فوجی مبصرین کا کہنا ہے کسی بھی فریق کی معمولی سی غلطی خطےکوجنگ میں دھکیل سکتی ہے۔جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے۔دنیا جو پہلے ہی معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔مزید اقتصادی و معاشی بحران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔پانی کسی بھی ملک اور وہاں کے باسیوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔اس کا اندازہ اسی بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ پانی کے مسئلے پر دو ایٹمی قوتیں جنگ کے لئے تیار ہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں سندھ طاس معاہدے کی،بھارت کی جانب سے جس کی معطلی کے بعد یہ سنگین صورت حال پیدا ہوئی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو دریائے سندھ اور دیگر دریائوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم اور حصہ داری کےحوالے سےایک معاہدہ طےپایاجسے سندھ طاس معاہدے کانام دیاگیا۔اس پس منظر میں یہ جاننابھی ضروری ہے کہ 1909 میں برطانوی حکام نے زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا جس کے مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا۔دریائے جہلم کو ایک نہر کے ذریعے چناب سے ملا دیا گیا جبکہ پنجند اور معاون دریائوں پر بہت سے بند اور بیراج بنائے گئے۔جس کا مقصد سیلاب کے دنوں میں پانی کا ذخیرہ کرنا تھا۔اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا وہاں ان ذخیروں میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔1932 میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور نیا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔برطانوی انجینئرز نے آبپاشی نظام کے جو فارمولے تشکیل دئیے۔وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔قریبا پچاس سال تک پانی کے مسئلے کو طاقتور دریائوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا مگر 1947 کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ پانی کا یہ نظام کامیابی سے چلتا رہے۔اس لیئے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریائوں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں یعنی پاکستان اور ہندوستان پر واضح کر دی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گےمگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے دونوں نے یہ تجویز رد کر دی۔پاکستان جانتا تھا اس طرح بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ بھی دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا۔شاید اندرون خانہ ان کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کےقبضے میں آ گئیں۔پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھےجس پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا۔پانیوں کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔بھارت چاہتا ہے پاکستان کا پانی بند کر کیاسے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرے۔ہم کبھی سنتے تھے کہ دنیا میں اب جنگیں پانی پر ہوا کریں گی اور یہ وقت ہماری زندگی میں آ گیا ہے۔پاکستان کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اپنے آبی وسائل پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرے گا۔سچ ہے بھارت باز نہ آیا تو پانی پر ایک بڑی اور ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بھارت کے پانی کو سکتی ہے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
جنگ کی صورتحال میں انٹرنیٹ کس طرح متاثر ہو سکتا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہلاکت خیز حملہ ہوا۔ جس کا الزام انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لگایا گیا۔
یہ کشیدگی جنگ ہو جانے جیسی باتوں تک آ پہنچی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر دونوں ممالک کے عوام جنگ کے حوالے سے بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔ صرف سنجیدہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر میمز کے ذریعے بھی نوک جھوک جاری ہے۔
نوجوانوں کے درمیان اس وقت سوشل میڈیا پر طنزو مزاح کی جنگ تو جاری ہے۔ لیکن اگر واقعی دونوں ممالک کے درمیان جنگ شروع ہو جائے تو سب سے پہلے نقصان انٹرنیٹ کو ہی ہوگا۔ جو اس وقت دونوں ممالک کے نوجوانوں کے لیے تفریح کا سبب بن رہا ہے۔
جنگ کی صورتحال میں انٹرنیٹ کیسے اور کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے؟جنگ کی صورتحال میں انٹرنیٹ کی دستیابی اور کارکردگی پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تنازعات کے دوران مواصلاتی نظام، خاص طور پر انٹرنیٹ، کئی طریقوں سے متاثر ہوسکتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو نقصان:جنگ کے دوران مواصلاتی ڈھانچے جیسے کہ فائبر آپٹک کیبلز، سیل ٹاورز، اور ڈیٹا سینٹرز کو براہ راست حملوں یا بمباری سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ نقصان انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کر سکتا ہے یا مکمل طور پر سروس کو معطل کر سکتا ہے۔
حکومتی پابندیاں:جنگ کے دوران حکومتیں اکثر انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کرتی ہیں تاکہ معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ پابندیاں انٹرنیٹ کی مکمل بندش، مخصوص ویب سائٹس یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی کو محدود کرنے کی شکل میں ہو سکتی ہیں۔ اس کا مقصد افواہوں کو روکنا یا مخالف گروہوں کی مواصلات کو کمزور کرنا ہوتا ہے، لیکن اس سے عام شہریوں کی معلومات تک رسائی بھی محدود ہو جاتی ہے۔
سائبر حملے:جنگ کے دوران سائبر حملوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہیکرز، جن میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر شامل ہو سکتے ہیں، انٹرنیٹ سروسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ ڈسٹری بیوٹڈ ڈینائل آف سروس (DDoS) حملے، مالویئر، اور ڈیٹا چوری جیسے واقعات سے ویب سائٹس بند ہو سکتی ہیں اور انٹرنیٹ سروسز کی حفاظت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
بجلی کی بندش:جنگ کے دوران بجلی کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے، جو انٹرنیٹ سروسز کے لیے ضروری ہے۔ ڈیٹا سینٹرز اور نیٹ ورک آپریشنز کے لیے مسلسل بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی بندش سے انٹرنیٹ سروسز منقطع ہو سکتی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بیک اپ جنریٹرز یا متبادل توانائی کے ذرائع محدود ہوں۔
متبادل مواصلاتی نظاموں پر انحصار:جنگ کی صورتحال میں جب انٹرنیٹ سروسز متاثر ہوتی ہیں، لوگ متبادل مواصلاتی ذرائع جیسے کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ، ریڈیو، یا آف لائن میسجنگ ایپس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تاہم، یہ متبادل نظام ہر ایک کے لیے قابل رسائی نہیں ہوتے اور ان کی رفتار یا صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔
سماجی و معاشی اثرات:انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے معاشی سرگرمیاں، جیسے کہ آن لائن کاروبار، ای کامرس، اور ریموٹ ورک، بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اداروں کی آن لائن کلاسز اور صحت سے متعلق ٹیلی میڈیسن سروسز بھی معطل ہو سکتی ہیں، جو شہریوں کے معیار زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرنیٹ پاک بھارت زنیرہ رفیع نیٹ ورک