کراچی میں ٹرک کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار نوجوان جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
جاں بحق بائیک سوار کو چھیپا ایمبولینس کے ذریعے سول اسپتال منتقل کر دیا گیا، بائیک سوار کی شناخت نہیں ہو سکی، اندازاً عمر 30 سال کے لگ بھگ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد کے علاقے چاکیواڑہ میں ٹرک کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں ہیوی گاڑیوں سے ہونے والے خونی حادثات کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ چاکیواڑہ نمبر دو میں سالار پیٹرول پمپ کے قریب ٹرک نے موٹرسائیکل سوار کو کچل دیا۔ جاں بحق بائیک سوار کو چھیپا ایمبولینس کے ذریعے سول اسپتال منتقل کر دیا گیا، بائیک سوار کی شناخت نہیں ہو سکی، اندازاً عمر 30 سال کے لگ بھگ ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بائیک سوار
پڑھیں:
بیروزگار بھارتی نوجوان کس طرح سائبر غلام بنے؟
یہ حالیہ نومبر کی بات ہے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے دسولی نامی گاؤں کے قریب 53 سالہ جنم راؤ اپنی پھلوں اور سبزیوں کی دکان پر بیٹھا اپنے موبائل کی سکرین کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ وہ میانمار (برما)میں واقع بھارتی سفارت خانے کی طرف سے آئی ایک ای میل پڑھ رہا تھا۔
6اگست کے دن راؤ نے سفارت خانے کو اپنے 22 سالہ بہنوئی، اجے کمار کے بارے میں لکھا تھا جو میانمار کے میواڈی نامی علاقے میں پانچ ماہ سے پھنسا ہوا تھا۔
سفارت خانے نے ایک دن بعد بھیجی گئی ای میل میں اسے بتایا "براہ کرم صبر کریں۔ یہ علاقہ ناقابل رسائی اور میانمار کے حکام کے کنٹرول سے باہر ہے لہذا سفارت خانے کو اجے کمار کی رہائی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔"
٭٭
قصّہ یہ ہے، مارچ 2024ء میں اجے کمار اور قریبی گاؤں میں رہتے اس کے دو دوستوں ، ساگر چوہان اور آروش گوتم کو کوالالمپور،ملائیشیا میں ایک کال سینٹر فرم میں ملازمت کی پیشکش کی گئی۔’’یہاں کوئی نوکریاں نہیں ہیں۔" جنم راؤ بتاتا ہے "میں خوش تھا کہ اجے کو ملازمت مل گئی۔ اور مجھے یقین محسوس ہوا کہ یہ حقیقی نوکری ہے کیونکہ وہ تینوں ایک ساتھ کام کرنے جا رہے تھے۔"یہ تو بعد میں پتا چلا کہ بدقسمتی سے نوکریاں جعلی نکلیں۔
ایک ماہ بعد تینوں بھارتی دوست تھائی لینڈ کے ساتھ مشرقی سرحد پر واقع میانمار کے قصبے، مایاودی( Myawaddy )میں ایک کمپاؤنڈ کے اندر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تھے۔ان کے اردگرد دنیا بھر سے اسمگل کیے گئے سینکڑوں دوسرے لوگ بھی براجمان تھے۔ انھیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ چینی خواتین کا بھیس بدل کر امیر مردوں کو اپنے جال میں پھانسیں اور ان سے رقم اینٹھیں۔ یہ دھوکہ دہی کرنے والے ایسے انسانوں کی کہانی ہے جو خود دھوکے کا شکار ہو گئے۔
بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایسے کئی نوجوان ملتے ہیں جنھیں اچھی ملازمت دینے کے بہانے جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ملک میں بلوایا گیا۔انھیں پھر سخت پہرے والے کمپاؤنڈ یا قلعے میں مقید کر مجبور کیا گیا کہ وہ دنیائے انٹرنیٹ پر اپنی نئی شناخت بنائیں تاکہ وہ معصوم لوگوں کو کسی بہانے لوٹ کر انھیں اپنی محنت سے کمائی گئی رقم سے محروم کر سکیں۔ 2023ء میں اقوام متحدہ کے دفتر انسانی حقوق نے بذریعہ تحقیق اندازہ لگایا تھا کہ کمبوڈیا اور میانمار میں جرائم پیشہ گروہوں نے تقریباً دو لاکھ بیس ہزار افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ان کے ذریعے سائبر کرائمز کیے جا رہے ہیں۔ان سائبر غلاموں میں کئی ہزار بھارتی اور پاکستانی شامل تھے۔
سفر کا آغاز: ملائیشیا جانے سے پہلے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے تینوں نوجوان کے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ انہیں دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ یقینی طور پر آروش گوتم تو بہت پُرجوش تھا۔وہ جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے سے واقف تھا۔ 2023ء میں اس نے کوالالمپور میں ایک کسٹمر سپورٹ سروس فرم میں چار ماہ کام کیا تھا۔
لیکن اسی سال دسمبر میں اپینڈیسائٹس نے اسے سرجری کے لیے گھر واپس آنے پر مجبور کیا تو اس نے نوکری چھوڑ دی ۔فروری 2024ء میں گوتم نے کوالالمپور میں اپنے ایک سابق ساتھی سے رابطہ کیا، جس کا نام جیتندر سنگھ، یا رونی تھا تاکہ وہ ملائیشیا میں دوسری ملازمت حاصل کرنے میں اس کی مدد کر جا سکے۔اس کے دوست، کمار اور چوہان، دونوں بے روزگار گریجویٹ بھی اس کے ساتھ جا نا چاہتے تھے۔ گوتم کہتا ہے کہ جیتندر سنگھ نے انہیں بتایا ، یونگ کیان گروپ نامی ایک فرم ماہانہ 65ہزار روپے کی پیشکش کر رہی ہے۔ تینوں افراد نے ویڈیو انٹرویوز کے ذریعے بیٹھ کر انگریزی زبان میں اپنی مہارت کا تجربہ دکھایا اور کامیابی حاصل کر لی۔
صرف تین ماہ بعد، میانمار میں بھارتی سفارت خانے کی ایک ایڈوائزری کو "چینی فراڈ کمپنی" کے طور پر لیبل کرنے اور جتیندر سنگھ کو "نوکری کے گھوٹالے" میں ملوث ایجنٹ کے طور پر درج کر لے گی۔ چونکہ سنگھ کا پتا نہیں چل سکا، اسی لیے کوئی نہیں جانتا کہ کیا وہ یونگ کیان گروپ کا ایجنٹ تھا یا نہیں۔
گوتم بتاتا ہے، اس نے یونگ کیان کی نوکری اسی لیے لی کہ بھارت میں اچھی تنخواہ دینے وال ادارہ ملنا مشکل ہے۔ اس کے دوستوںنے بھی ایسی ہی وجوہ کی بنا پر ملازمت قبول کر لی۔ گوتم کہتا ہے "ساگر خاص طور پر ملائیشیا جانے کا خواہشمند تھا کیونکہ وہ گھر میں مایوس اور اپنے والدین سے ناراض تھا، جنہوں نے کافی پیسے نہ بنانے پر اس کا مذاق اڑایا تھا۔" کمار اور گوتم دلت جب کہ چوہان ٹھاکر ہے۔
فرم کے طے کردہ شیڈول کے مطابق گوتم کو کوالالمپور جانے سے پہلے میانمار کے شہر ینگون جانا تھا۔ کمار اور چوہان دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔ینگون میں 26سالہ گوتم کا استقبال سفید یونیفارم میں ملبوس دو برمی مردوں نے کیا۔جب وہ ان کی ایس یو وی میں داخل ہوا تو اسے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ گوتم کہتا ہے "کار میں چار لوگ سوار تھے۔ ان میں سے دو کے پاس رائفلیں تھیں اور لگتا تھا کہ وہ کسی مسلح گروپ کا حصہ ہیں۔دو اور بھی میری طرح عام شہری تھے، لیکن چینی لگ رہے تھے۔"
ان کا سفر24 گھنٹے جاری رہا۔ آخری منزل میانمار-تھائی لینڈ کی سرحد پر واقع قصبہ ، مایاودی میں بنا ایک کمپاؤنڈ تھا جس میں اونچی دیواریں تھیں اور جس پر مسلح محافظ گشت کر رہے تھے۔اس کے دوست کچھ دن بعد بنکاک کے راستے وہاں پہنچے۔گوتم بتاتا ہے ’’ہمیں ایک مترجم کے ساتھ ایک چینی شخص کے پاس لے جایا گیا جس نے ہمیں ہمارے کام کے بارے میں بتایا۔ ہمیں خواتین ہونے کا بھیس بدلنا اور واٹس ایپ پر پوری دنیا کے مردوں کو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا تھا۔"جب گوتم نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو چینی باشندے نے جسے اس کے ماتحتوں نے 'باس' کہا تھا، اسے تھپڑ مار دیا۔ ’’اس نے کہا کہ اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو 8ہزار ڈالر ادا کریں یا یہاں ڈیڑھ سال کام کریں۔‘‘
کمبوڈیا کی طرف : مایاودی سے ہزارہا میل دور بھارتی ریاست کیرالہ کے کوزی کوڈ ضلع میں بھی پانچ نوجوانوں کے ایک گروپ کو تھائی لینڈ میں ملازمت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے بجائے انہیں کمبوڈیا لے جا کر سائبر غلام کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔اتر پردیش کے نوجوانوں کی طرح اِنھیں بھی اُن کے جاننے والے لوگوں نے بھرتی کیا تھا۔اگست 2024ء میں پچیس سالہ سیمل دیو نے جو ماروتی سوزوکی کے ساتھ بطور ریلیشن شپ منیجر منسلک تھا، اپنے پڑوسی، ادھیراتھ سے سنا کہ انفینٹی فائنانس انٹرنیشنل نامی تھائی لینڈ کی ایک فرم 89ہزار روپے ماہانہ میں سیلز اور اشتہارات کی نوکریاں پیش کر رہی ہے۔
دیو، جو اس وقت 20ہزار روپے ماہانہ کماتا تھا، لالچ میں آگیا۔ "میرے علاقے میں ترقی کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ پھر میں اپنے والد کی مدد کرنا چاہتا تھا، جو ایک بیماری کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ۔" اس نے صحافیوں کو بتایا۔ادھیرتھ اور دو دیگر بھرتی کرنے والے لوگوں، انوراگ اور نصیر الدین شاہ نے سیمل کے دوست ارون سے بھی رابطہ کیا، جسے وہ اسکول کے وقت سے جانتے تھے اور جو دیو کی طرح تھوڈنور گاؤں سے تھا۔ یہ پیشکش گاؤں کے دوسرے دوستوں کے لیے بھی کھلی تھی جنہیں نوکریوں کی ضرورت تھی۔ ان میں سے تین ، اشونتھ، ابھینو اور ابھینند نے اسے قبول کر لیا۔
ستمبر اور اکتوبر میں پانچوں نوجوان کالج کی ا پنی ڈگریوں کے ساتھ، بنکاک چلے گئے۔ راستے میں وہ دو دیگر ملیالیم مردوں سے ملے جو اسی فرم میں ملازمت کرنے والے تھے۔بنکاک میں ایک ’’سرپرائز‘‘ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ ہوائی اڈے پر بھرتی کرنے والے انوراگ نے سیمل اور ابھینند کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ انہیں نوم پنہ نامی شہر کے لیے ایک اور فلائٹ لے کر جانا پڑے گا اور پھر پوپیٹ جانا پڑے گا جہاں یہ فرم قائم تھی۔’’میں نہیں جانتا تھا کہ پوپیٹ اور نوم پینہ تھائی لینڈ میں واقع نہیں ہیں،" دیو بتاتا ہے ۔ "اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ ملازمت کمبوڈیا میں ہے تو میں کبھی اسے قبول نہیں کرتا۔" ایک ٹیکسی نے دیو اور ابھینند کو کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنہ سے اٹھایا۔
خیمر کے دیہی علاقوں میں آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ پوئپیٹ پہنچے، ایک کچی اور دھول سے بھری کمبوڈیائی چوکی جو بنکاک جیسی نظر نہیں آتی تھی۔ غیر ملکی سرزمین میں غیر متوقع سفر نے دیو کو بے چین کر دیا، لیکن ادھیرتھ کو ہوٹل میں دیکھ کر اسے سکون محسوس ہوا۔انٹرویوز کے ایک دور کے بعد سات نئے آنے والے بھارتی نوجوانوں کو قصبے کے وسط میں "بنی کمپنی کی رہائش" میں لے جایا گیا۔یہ ایک وسیع و عریض کمپاؤنڈ تھا جسے بیس اور تیس سالہ چینی مرد چلا رہے تھے۔ قلعے کے اردگرد کئی گارڈ موجود تھے۔ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے اور انھیں کمپاؤنڈ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں اپنے موبائل فون صرف مقررہ اوقات میں استعمال کرنے کی اجازت تھی۔
'ڈیجیٹل گرفتاری' کی تربیت: پوپیٹ میں اپنے کام کے پہلے دن کیرالہ سے تعلق رکھنے والے بھارتی نوجوانوں کو اسکرپٹس دی گئیں جس میں انہیں یہ سکھایا گیا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے صارفین پر "ڈیجیٹل گرفتاری" کا جھوٹا جال کیسے ڈالنا ہے۔دیو کہتا ہے "یہ تین روزہ تربیت تھی جس میں اسکرپٹ کا مطالعہ اور ہمارے سینئرز کے ساتھ 'اسکرپٹ فائٹنگ' شامل تھی۔ "وہ گاہک ہونے کا بہانہ کرتے جبکہ ہم اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے اہلکار تھے۔ ہمیں ایک قائل کرنے والا عمل انجام دینا پڑا۔ اگر ہم یہ عمل کامیابی سے انجام دے ڈالتے تو ہم ملازمت پر جا سکتے تھے۔‘‘
"ڈیجیٹل گرفتاری" کا یہ فراڈ تین مراحل پر مشتمل تھا۔ بھارتی نوجوانوں کو پہلا مرحلہ انجام دینے کی تربیت دی گئی۔ سب سے پہلے ایک جعل ساز بینک اہلکار ہونے کا بہانہ کر کے کال کرتا اور ٹارگٹ شدہ صارف کو بتاتا ہے کہ اس کے ایس بی آئی کریڈٹ کارڈ پر 1لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔ گاہک پریشان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے اتنی رقم خرچ نہیں کی۔ کال کرنے والا اسے بتاتا ہے کہ شاید کسی اور شخص نے کریڈٹ کارڈ جاری کرنے کے لیے اس کی شناخت کا غلط استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد وہ اسے پولیس میں شکایت درج کرانے کا مشورہ دیتا اور اسے واٹس ایپ یا اسکائپ پر کسی پولیس اہلکار سے رابطہ کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔
خاکی وردی میں ملبوس جعلی پولیس اہلکار دوسرے مرحلے پر نمودار ہوتا ہے۔ شکایت درج کراتے وقت وہ یہ دریافت کرنے کا بہانہ کرتا کہ گاہک کے بینک اکاؤنٹ کو کروڑوں روپے کے گھوٹالے میں استعمال کیا گیا جس میں جیٹ ایئرویز اور اس کے مالک نریش گوئل ملوث ہیں۔پولیس والے کا رویّہ پھر خوفناک ہو جاتا ہے۔ متاثرہ مرد یا خاتون کسی بھی غلط کام سے انکار کرتی ہے۔پریشانی میں مبتلا ہو کر وہ اپنے بینک اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ اور آدھار کارڈ کی تفصیلات بتا دیتی ہے۔ اس کے بعد کال ایک سینئر پولیس اہلکار کے پاس جاتی ہے جو اس فراڈ کا تیسرا مرحلہ ہے۔ وہ متاثرہ کو بتاتا ہے کہ وہ اس اسکینڈل میں مشتبہ ہے اور اس کی"ڈیجیٹل گرفتاری" کر لی گئی ہے ۔ وہ پھر شرائط بتاتا ہے: کیس کے بارے میں کسی دوسرے شخص سے بات نہ کریں، کمرے میں اکیلے رہیں، اور پولیس کی مسلسل نگرانی کے لیے آڈیو اور کیمرہ آن کر لیں۔گھنٹوں یہاں تک کہ دنوں کے بعد تیسرے مرحلے والا فرضی پولیس اہلکار ضمانت کے عوض متاثرہ کو رہا کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔اس دوران اسکیمرز بینک اسٹیٹمنٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد متاثرہ شخص سے مانگی گئی رقم کا فیصلہ کرتے ہیں۔
آن لائن فراڈ کرنے والے مختلف جرائم پیشہ گروہ اپنے متاثرین کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف سطحوں کی مہارت رکھتے ہیں۔ کچھ تو اپنے جعلی پولیس والوں کو اچھی وردی بھی نہیں پہنا پاتے۔ دوسرے بہت بہتر ہیں۔ دیو نے صحافیوں کو بتایا کہ پوپیٹ میں اس کے کمپاؤنڈ میں ایسے کمرے بنائے گئے تھے جو ایک سینئر پولیس اہلکار کے دفتر کی طرح نظر آتے تھے اور جن میں فائلیں، فولڈرز موجود تھے اور مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کی تصویریں لگی تھیں۔بعض جرائم پیشہ نہایت مکار ہوتے ہیں۔ایک ایسے ہی گروہ نے اگست 2024ء میں بھارتی صنعتی ادارے، وردھمان گروپ کے تجربے کار چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ایس پی اوسوال کو آن لائن دھوکہ دے کر سات کروڑ روپے کا زرکثیر لوٹ لیا تھا۔ اس فراڈ میں ایک کردار کو بطور چیف جسٹس آف انڈیا، ڈی وائی چندرچوڑ پیش کیا گیا تھا۔
دیو کہتا ہے کہ آن لائن فراڈ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں میں چینی گروہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ دکھاتے اور اپنے ملازمین کو زیادہ رقم بھی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی نوجوان اگر کسی شکار کو کامیابی سے پھانس لیتے تو ملی گئی رقم میں سے ایک فیصد حصہ ان کو بھی ملتا تھا۔ اگر وہ ایک دن میں چار سے پانچ گھوٹالے نکالنے میں کامیاب رہتے تو کمیشن بڑھ کر 2فیصد ہو جاتا۔ اگر ایک فراڈ میں ملی گئی رقم ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہوتی تو کمیشن بڑھ کر 4 فیصد تک پہنچ جاتا۔
اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے مراعات بھی زیادہ تھیں۔ وہ اپنے فون استعمال کر سکتے تھے۔ کچھ دنوں میں کمپاؤنڈ سے باہر نکل سکتے تھے، یہاں تک کہ مالکان کے ساتھ شراب پینے کے لیے بھی جا سکتے تھے۔ بریانی کھانے دینا جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کے لیے ایک عام ترغیب تھی۔ مگر ناقص کارکردگی دکھانے والوں کو دھرنے اور لمبی دوڑ جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا اور یہاں تک کہ انھیں سائبر اسکیم کے دوسرے کمپاؤنڈز کو فروخت بھی کیا جا سکتا ہے۔جعلی پولیس اہلکار کا کردار ادا کرنے میں ماہر ایک دھوکے باز نے دیو اور اس کے دوستوں کو بتایا کہ اگر وہ سخت محنت کریں تو وہ "دوسری لائن" میں جا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک، ارون نے آخر ’’دوسری لائن" میں جگہ بنا لی جہاں اس نے ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک آڈیٹر کے طور پر پولیس کو مشورہ فراہم کیا۔
"ہمارا شکار کیرالہ کے تھریسور ضلع سے تعلق رکھنے والا ایک ڈاکٹر تھا۔ وہ تناؤ کا شکار اور ذہنی خرابی کے دہانے پر تھا۔" ارون یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے۔ "وہ انگریزی میں بات چیت کی بخوبی پیروی نہیں کر سکتا تھا اور اس لیے مجھے بھی فراڈ میں شامل کیا گیا۔ مجھے اسے ملیالم زبان میں کچھ تکنیکی بینکنگ قانونی باتیں بتانے کے لیے کہا گیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی تمام رقم منتقل کر دے۔"تاہم ڈاکٹر نے محسوس کر لیا کہ کچھ غلط ہے اور اپنے وکیل کو بل لیا۔پھر اس نے کال کاٹ دی۔
لیکن زیادہ تر لوگ فراڈیوں کے پھیلائے جال میں پھنس جاتے اور اپنی بے وقوفی کی بھاری قیمت چکاتے ہیں۔ دیو کہتا ہے ’’ہم نے اپنے سینئرز سے ’ڈیجیٹل گرفتاری‘ کے دوران خودکشی کی کوشش کرنے والے متاثرین کے بارے میں کہانیاں سنیں۔جیسے بنگلور کی ایک عورت جس کے ساتھ تین ماہ کا بچہ تھا اور جس نے کال کے دوران اپنی رگیں کاٹ دیں۔"پوپیٹ کمپاؤنڈ میں مقید تمام بھارتی انسانی اسمگلنگ کا شکار نہیں تھے۔ "حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے دو دھوکے بازوں نے ہمیں بتایا کہ وہ پہلے اپنے شہر میں ایمیزون گھوٹالے میں ملوث تھے اور پروموشن کے طور پر انھیں کمبوڈیا میں کام کرنے کے لیے لایا گیا۔ " دیو نے بتایا۔دیو اور ارون نے بھارت کے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ انوراگ، ادھیرتھ اور شاہ نے انہیں پوپیٹ لانے کے لیے فی شخص تین ہزار ڈالر کمائے۔ جبکہ ایک بھارتی خاتون کو بھرتی کرنے کا انعام پانچ ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ تک جا سکتا ہے۔
میانمار میں دھوکہ دہی: پوپیٹ سے سات سو کلومیٹر دور تھائی لینڈ میانمار کی سرحد پر واقع مایاودی میں آروش گوتم اور اس کے دوست اجے کمار اور ساگر چوہان کے کے پارک نامی سائبر کرائم کے مرکز یا کمپاؤنڈ میں قید رہے۔درجنوں ایکڑ پر پھیلے کے کے پارک کا مرکز دراصل چار کمپاؤنڈز کا ایک مجموعہ تھا۔ یاد رہے، مایاودی کا علاقہ میانمار کی فوج کے ماتحت نہیں بلکہ اسے نیم خودمختار مسلح گروپ چلاتے ہیں، جیسے کیرن بارڈر گارڈ فورس اور ڈیموکریٹک کیرن بینوولنٹ آرمی۔بھارتی سفارت خانے کی ایک ایڈوائزری کے مطابق میانمار میں سمگل کیے جانے والے زیادہ تر بھارتی متاثرین اسی خطے میں مقید کیے جاتے ہیں جسے سفارت خانے نے کمار کے بہنوئی، راؤ کو ایک ای میل میں "غیرقانونی" قرار دیا۔
چینی مالکان نے گوتم اور اس کے دوستوں کو ایک کلاسک "پگ بچرنگ سکیم"(pig-butchering scam ) کا کام سونپا۔اس فراڈ میں سائبر سکیمسٹر یا فراڈئیے جعلی شناختوں کا استعمال کرتے ہوئے متاثرین کو بظاہر منافع بخش اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کرتے اور بالآخر ان کی رقم چوری کر لیتے ہیں۔ چونکہ جنوب مشرقی ایشیا کے کسان ذبح کرنے کے لیے سوروں کو موٹا کرتے ہیں، اسی لیے اس فراڈ کو پگ بچرنگ سکیم کا نام ملا۔
تین سو دیگر سکیمرز کے ساتھ ایک فلور پر کام کرتے ہوئے گوتم کو ایلا نامی ایک چینی خاتون ہونے کا بہانہ اور واٹس ایپ گفتگو پر اپنے مرد متاثرین کا اعتماد حاصل کرنا پڑا۔ اس کا نشانہ نیدرلینڈ، روس، رومانیہ، سوئٹزرلینڈ اور دبئی جیسے امیر ممالک کے مرد تھے جن کے نمبر ٹک ٹاک سے حاصل کیے گئے تھے۔ایک عام گفتگو چار دن تک جاری رہتی۔ پہلا دن چٹ چیٹ کے لیے مخصوص تھا۔ دوسرے دن ایلا اپنی دولت ظاہر کر دیتی۔ اکثر وہ اپنے شاہانہ کھانوں یا خریداری کی تصاویر شیئر کرتی تھی۔ تیسرے دن وہ ایک مشکل بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے متاثرہ کے ساتھ ایک جذباتی تعلق قائم کر لیتی۔
چوتھے دن ایلا اپنی دولت کا راز افشا کرے گی … ای بے پر پروڈکٹ کے جائزے لکھنا جس سے ہر ایک میں 25 ڈالر تک کمایا گیا ہے۔ اس کے بعد متاثرہ کو خود اسکیم آزمانے کی ترغیب دی جاتی۔ عام طور پر شکار بھی ایک جائزہ اپ لوڈ کر دیتا جس کے بعد ایلا اسے کرپٹو کرنسی میں 25 ڈالر جتنی رقم منتقل کر دیتی۔اسکیم پھر "قتل کے مرحلے" میں چلی جاتی۔ اس موقع پر گوتم کو گفتگو ایک زیادہ تجربہ کار چینی سکیمر کے حوالے کرنا پڑتی۔ اس کے تحت کام کرتے ہوئے ایلا دوسرے شخص کو ان فرموں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دے گی جو ای بے پروڈکٹ کا جائزہ لینے کا کاروبار چلاتی اور اچھا منافع کماتی ہیں۔ ایک بار جب شکار ہزاروں ڈالر کی سرمایہ کاری کر لیتا تو پھر وہ کبھی ایلا سے دوبارہ رابطہ نہیں کر پاتا۔ گوتم بتاتا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک ہدف ان کا شکار بن جاتا تھا۔
وہ نہ صرف دن میں 18گھنٹے تک کام کرتے تھے بلکہ خراب کارکردگی کا مطلب صبح سویرے سخت جسمانی مشقیں کرنا یا جسمانی حملہ ہو جانا تھا۔ گوتم کو دو مواقع پر "باس" نے پیٹھ اور ٹانگوں پر مارا جب وہ متاثرین کو راغب کرنے میں ناکام رہا۔ گوتم کی رانوں پر چینی باس کے حملے سے زخم پیدا ہو گئے۔
فرار کا منصوبہ: سب سے بُرا سلوک ان لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو باہر نکلنا چاہتے تھے۔کمبوڈیا میں اپنی ملازمت کے تین دن بعد کیرالہ کے نوجوانوں نے اپنے بھرتی کرنے والوں سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ ملازمت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بھرتی کرنے والوں نے انہیں کہا کہ وہ ان کا پیغام چینی مالکان تک پہنچا دیں گے۔ اگلے دن ساتوں بھارتیوں کو کمپاؤنڈ کے ایک خالی ہال میں لے جایا گیا۔ "ہمیں صبح سے شام تک ایک دوسرے کے پیچھے کھڑا کیا جاتا تھا۔" دیو یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے "جب ابھینو نے اپنے گھٹنے کا درد کم کرنے کے لیے جھکنے کی کوشش کی تو کمبوڈیا کے ایک گارڈ نے اسے ایک لاٹھی سے بجلی کا کرنٹ لگا دیا۔ ہمارے ساتھ سڑک کے کتوں جیسا سلوک کیا گیا اور بے رحمی سے مارا گیا۔"
ان ساتوں بھارتیوں کو ہال میں بند کر کے ایک ہفتے تک بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ مالکان نے انہیں بتایا کہ ان کی آزادی کی قیمت فی کس 2800 ڈالر ہے۔ جب انہیں شک ہوا کہ ارون بیرون دنیا ایس او ایس پیغامات بھیج رہا ہے تو اسے کمپاؤنڈ سے13 کلومیٹر دور دیہی پوپیٹ کی ایک عمارت میں لے جایا گیا۔ ارون بتاتا ہے ’’وہاں مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنے والدین کو فون کروں اور انہیں بتاؤں کہ میں محفوظ اور خوش ہوں۔‘‘
25 اکتوبر کو دیو اور اس کے دوستوں کو کمبوڈیا-ویت نام کی سرحد پر واقع سرحدی قصبے باویٹ میں آن لائن فراڈ کرنے والے ایک اور کمپاؤنڈ کو فروخت کر دیا گیا۔ باویٹ سائبر کرائم کی ایک اور بدنام پناہ گاہ ہے۔ دیو کو یقین تھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے گا۔ "جب ہم جا رہے تھے،تو چینی باس نے کہا، 'آپ ہمیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔‘‘راستے میں بھارتی نوجوانوں نے اپنے کمبوڈین ڈرائیور کے ضمیر سے اپیل کی۔ انہوں نے اسے اپنی چوٹیں دکھائیں اور 250 ڈالر دینے کی پیشکش کی اگر وہ انہیں نوم پنہ میں بھارتی سفارت خانے میں چھوڑ دیں۔ ڈرائیور مان گیا۔ کمبوڈین دارالحکومت میں سفارت خانے کے اہلکاروں نے کئی گھنٹوں تک ان افراد کا انٹرویو کیا اور پھر انہیں سرکاری رہائش میں رکھا۔
بھارتی سفارت خانے نے نوم پنہ میں ایک ملیالی تاجر سے ہندوستان واپسی کے سفر کو سپانسر کرنے میں مدد کرنے کو کہا۔ 27 اکتوبر کو ساتوں نوجوان واپس وطن پہنچ گئے۔دسمبر میں ان کو بھرتی کرنے والے مبینہ ملزم ادھیرتھ، انوراگ اور نصیرالدین شاہ کمبوڈیا سے واپس کیرالہ پہنچے، اس بات سے بے خبر کہ وہ پولیس کے ریڈار پر ہیں۔ تینوں کو کیرالہ پولیس نے گرفتار کر لیا۔
اعدادوشمار کے مطابق2022ء اور 2024ء کے درمیان بھارتی حکومت نے 2358بھارتی باشندوں کو جنوب مشرقی ایشیا میں سرگرم آن لائن فراڈ کرتے گروہوں سے بچایا۔ نومبر 2024ء میں راجیہ سبھا میں وزارت خارجہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 1091کو کمبوڈیا اور 497کو میانمار سے بچایا گیا۔جرم اور بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی ایک ریسرچ کنسلٹنسی، آئی وٹنس پراجیکٹ کے نوم پنہ میں واقع ڈائریکٹر آف آپریشنز، ناتھن پال سدرن کہتے ہیں کہ کمبوڈیا یا لاؤس کے مقابلے میں میانمار میںفراڈ اور انسانی اسمگلنگ کی کارروائیوں کو روکنا مشکل ہے۔ سدرن کا کہنا ہے "آپ نہیں جانتے کہ کون سا مسلح گروپ ان علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے جن سے آپ کو گزرنا ہے۔"
اتر پردیش کے گوتم اور اس کے دوستوں نے بڑی مشکل سے خود کو فراڈی گروہ کے چنگل سے باہر نکالا۔اپریل2024ء میں ساگر چوہان کے خاندان نے اس کی رہائی کے لیے چینی سکیمرز کو 8 لاکھ روپے تاوان ادا کیا۔ بھارتی سفارت خانے نے اس کی بھارت واپسی میں سہولت فراہم کی۔گوتم اور کمار تاہم پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان کے خاندانوں کے پاس ان کی ضمانت کے لیے پیسے نہیں تھے۔ جولائی میں انہیں پانچ دیگر بھارتیوں کے ساتھ 30کلومیٹر دور کام کرتے ایک اور اسکام کمپاؤنڈ کو فروخت کر دیا گیا، جسے کیوکھٹ کمپاؤنڈ کہا جاتا ہے۔ گوتم کا ماننا ہے "کیونکہ اسمگل کیے گئے بھارتیوں کو میانمار سے بچایا جا رہا تھا لہذا اب بھارتی باشندے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے بوجھ بن گئے تھے۔‘‘
اس سے پہلے کہ انہیں جانے دیا جائے، چینی مالکان نے ساتوں افراد کو 10بائی 10فٹ کے کمرے میں قید کر دیا۔ گوتم بتاتا ہے ’’انہوں نے ہمیں اس کمرے کے اندر ایک گھنٹے تک بھاگنے پر مجبور کیا۔ ہم میں سے ایک کی عمر 55سال تھی۔ وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو اسے مارا پیٹا گیا۔"اگست کے آخر میں گوتم اور چند دیگر افراد کو ان کے ہاسٹل سے باہر لے جا کر کاروں میں ڈال دیا گیا جو انہیں ینگون میں بھارتی سفارت خانے لے گئی۔
گوتم کہتا ہے ’’ہمیں آزاد کر دیا گیا تھا۔میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا۔"اجے کمار مگر اب بھی میانمار میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ اپنے والدین کو ہفتے میں ایک بار خفیہ فون کے ذریعے ڈائل کرتا ہے۔ نومبر میں، بھارتی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے رام جنم راؤ کو ای میل پر بتایا کہ میانمار کے حکام اس کے بہنوئی کو بچانے کے لیے کام کر رہے ہیں جو سفارت خانے سے رابطے میں ہے۔راؤ کا کہنا ہے "جب بھی وہ فون کرتا ہے، تو وہ صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ بھگوان کے لیے مجھے کسی طرح اس جگہ سے نکال لو۔