بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب کرنے کیلئے حکومت کا اہم اقدام
اسلام آباد:وفاقی وزارت اطلاعات بھارت کا بے بنیاد پراپیگنڈا بے نقاب کرنے کے لیے اہم قدم کرتے ہوئے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا خصوصی دورہ کرانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

ترجمان وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق آج اور کل ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کرانے کے اعلان کا مقصد بھارت کے من گھڑت اور جھوٹے پروپیگنڈے کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف خیالی اور فرضی دہشت گرد کیمپس کا واویلا کرتا رہا ہے تاہم اب ان تمام الزامات کی حقیقت زمینی سطح پر سامنے لائی گئی ہے۔

وزارت اطلاعات کے مطابق میڈیا نمائندوں کو ان مخصوص مقامات پر لے جایا گیا جنہیں بھارت کی جانب سے دہشت گرد کیمپس قرار دیا گیا تھا اور ذرائع نے بتایا کہ میڈیا کو زمینی حقائق سے آگاہ کر کے بھارتی دعووں کی قلعی کھول دی جائے گی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی امن کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی پر قائم ہے اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا دہشت گردی سے جڑی سرگرمیوں کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔

وزارتِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

انسانی حقوق کا خون آلود طنز

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
جس وقت آسمان سے پیراشوٹس کے ذریعے غزہ میں انسانی امداد فراہم کی جا رہی تھی تو بھوکے فلسطینی تیزی سے گرتے ہوئے پیکٹس کی جانب بھاگتے تھے۔ افراد کی بھیڑ اور امدادی سامان کی قلت کے باعث میڈیا کے کیمرے آخرالزمان والے مناظر ریکارڈ کر رہے تھے۔ اخبار گارجین کے رپورٹر نے امداد کی فراہمی مکمل ہو جانے کے بعد کچھ فلسطینی شہریوں سے انٹرویو لیا۔ محمد المساری ایک کمزور لیکن پختہ عزم کا مالک فلسطینی شہری تھا۔ اس نے کہا: "اس قسم کی امداد رسانی بہت ہی خطرناک ہے اور اپنے عزیزواقارب کی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوں۔" اس نے مزید کہا: "جب میرے بھانجے مجھ سے کہتے ہیں کہ ماموں ہمیں بھوک لگی ہے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔" اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے غزہ میں امداد رسانی سرگرمیاں ختم کر دینے کے بعد فلسطینیوں کی بڑی تعداد اپنی جان گنوا بیٹھی ہے۔
 
عالمی دباو پر پسپائی
غاصب صیہونی رژیم اپنی فوجی ڈاکٹرائن کے تناظر میں حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز کے مکمل خاتمے کے بغیر غزہ سے نکلنے کو اپنی شکست تصور کرتی ہے۔ دوحہ میں کئی دور مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد حماس کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ جنگ بندی نہیں چاہتی اور حتی اس کے لیے اپنے یرغمالیوں کی جان کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں نیتن یاہو بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حماس کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ لہذا تل ابیب نے غزہ میں امداد کی فراہمی روک کر بھوک اور قحط کے ذریعے فلسطینی عوام پر دباو ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ شاید اس طرح حماس کو اس کے انقلابی اہداف سے دستبردار ہونے پر مجبور کر سکے۔ لیکن جب غزہ میں بھوکے بچوں کی ابتر صورتحال عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بننے لگی تو صیہونی رژیم اور اس کے حامی عالمی دباو کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں فضا سے امداد رسانی کے ذریعے فیس سیونگ کی کوشش شروع ہو گئی۔
 
سمندر میں ایک قطرہ
اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔
 
غزہ میں اعلانیہ نسل کشی
غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی دو بڑی تنظیموں "یتسلیم" اور "ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس" نے اپنی سرکاری رپورٹس میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کے حامی مغربی ممالک قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ان مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کے ذمہ دار ہیں۔ انسانی حقوق کی ان دو تنظیموں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران صیہونی فوج نے صرف فلسطینی ہونے کی خاطر غزہ میں عام شہریوں کو براہ راست حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور وسیع پیمانے پر انفرااسٹرکچر تباہ کر کے شہری علاقوں کو ناقابل ازالہ نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی انسانی حقوق کی دسیوں عالمی تنظیمیں غزہ میں صیہونی فوج کے جنگی جرائم کی تصدیق کر چکی ہیں۔
 
فلسطینی بچے، صیہونی محاصرے کا اصل نشانہ
ایسے وقت جب بین الاقوامی تنظیمیں یکے پس از دیگرے فلسطینی بچوں کی بھوک اور غذائی قلت کے بارے میں وارننگ جاری کر رہے ہیں، لیکن غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف مجرمانہ محاصرہ بدستور جاری ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والا بحران شدید حد تک خطرناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی آسمان کے ذریعے انتہائی محدود پیمانے پر امدادی سامان کی فراہمی شروع کی گئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بقول صرف گذشتہ ماہ میں غزہ میں بھوک کے باعث 63 اموات واقع ہوئی ہیں جن میں 24 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ اس ادارے نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پانچ بچوں میں سے یک شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
 
ڈبلیو ایچ او کے سرکاری بیانیے میں آیا ہے: "یہ بحران پوری طرح متوقع تھا کیونکہ گذشتہ چند سالوں سے غزہ کا محاصرہ جاری تھا اور عمدی طور پر غذائی اشیاء اور ادویہ جات کی ترسیل روکی گئی تھی۔ اس وجہ سے بڑی تعداد میں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔" اس رپورٹ کی روشنی میں غزہ میں خاموش موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم ہر قسم کی انسانی امداد غزہ پہنچنے سے روک رہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی غزہ میں شدید بحران کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 90 ہزار بچے اور خواتین غذائی قلت کے باعث خطرے میں ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت ہوا ہے جب اکثر مغربی ذرائع ابلاغ غزہ میں بحرانی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یوں عالمی رائے عامہ کی نظروں سے غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ محاصرے اور جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حریت کانفرنس نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی کال دے دی
  • آزاد کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟
  • زائرین کو سفر سے روک کر وزیر داخلہ نے اپنی ناکامی کا اعلان کیا ہے، لشکری رئیسانی
  • کشمیری عوام کی آواز دنیا تک پہنچائی جائے گی، انجینئر امیر مقام
  • کشمیری عوام کی آواز پوری دنیا تک پہنچائی جائے گی، امیر مقام
  • بھارت نے کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی کا حق مکمل طورپر سلب کر رکھا ہے، مقررین
  • مقبوضہ کشمیر, حریت کانفرنس نے 5 اگست کو ہڑتال کی کال دیدی
  • انسانی حقوق کا خون آلود طنز
  • پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بیرونی پشت پناہی حاصل ہے: عطااللہ تارڑ
  • سعودی عرب میں پاکستان کے یوم آزادی شایانِ شان انداز میں منانے کی تیاریاں مکمل