ہم لوگ زیتون خرید رہے تھے لیکن اس مصری سیلز مین نے ہمیں چھوڑکر دوسرے گاہکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے شوہر نے جب دیکھا کہ وہ کب سے اس کا انتظارکررہے ہیں اور وہ ان دوسرے گاہکوں کو سرو کر رہا ہے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ’’ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس پر اس مصری سیلز مین نے اپنے نزدیک پڑے کریم کو اٹھا کر ان پر دے مارا، جس سے ان کے سارے کپڑے گندے ہو گئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ ان کے منیجر کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’اس کے ملازم نے ایسی حرکت کی، جب کہ انھوں نے اپنے من کی بات کی تھی کہ ان کی پہلی باری ہے تو انھیں چھوڑ کر دوسرے گاہکوں کو کیوں سرو کیا جا رہا ہے؟
اس پر اس کا یہ ردعمل کیا جائز ہے؟‘‘ وہ تو پولیس میں کمپلین کرنے جا رہے تھے اس پر منیجر اور دوسرے لوگوں نے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرایا کہ آپ بھی یہاں کمانے آئے ہیں اور یہ بھی، اس کو یہیں ختم کردیں، یہ سوری کر رہا ہے۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپنے منہ سے انھیں سوری یا معذرت کا ایک لفظ نہیں کہا تھا، بلکہ لوگ ایسا کہہ رہے تھے۔
بہرحال میرے شوہر ویسے بھی ٹھنڈے دماغ کے ہیں، وہ انگلینڈ میں پلے بڑھے ہیں، وہیں تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی یہاں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جاتا تو یقینا وہ مصری سیلز مین جو ناجائز کرچکا تھا، میرے شوہر کے مقابلے میں بہت کم لیول کا انسان تھا، میرے شوہر تو انگلینڈ میں بچپن سے رہے ہیں یہی سیکھا کہ قانون کے خلاف کوئی کرے تو فوری پولیس میں کمپلین کرو، اور وہاں پولیس کا رویہ بھی عوام سے ایسا ہے کہ لوگ پولیس سے بات کرتے شکایت کرتے نہیں گھبراتے۔
آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے برس بیت گئے اس شخص نے کیا ہم سے ایسی حرکت اس لیے کی کہ اسے ہم پاکستانی یا ایشین نظر آ رہے تھے؟ پھر اس کا ناجائز کام پر بھی اتنا غصہ سمجھ نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل چل رہے ہیں جن کی ابتدا غصے اور جذبات سے شروع ہوتی ہے یا اختتام غصہ یا جذبات پر ہوتا ہے جس کا مظہر شاید وہ تمام تاخیر میں پڑے پروجیکٹس اور پلانز ہیں جنھیں کہیں نہ کہیں غصہ، جذباتی اور منفی رجحان کے باعث ردی کی ٹوکری کی نذر ہونا پڑا۔
غصہ اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ انسان کے دماغ کی ساری حسیات کو سلا دیتی ہے اور صرف بے شعوری اور جذباتیت کو ہوا دیتی ہے۔بزرگوں نے اسی لیے کہا ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ غصہ میں انسان عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس میں وہ بعض اوقات شدیدنقصان بھی اٹھاتا ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کیا ہم نے ٹی وی اسکرینز پر ایسے معرکے نہیں دیکھے، جہاں کسی انتہائی سنجیدہ نوعیت کے پروگرام میں دو مخالف جماعتوں یا خیالوں کے حامل حضرات ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور بے چارہ اینکر اور اس کا پورا عملہ بیچ بچاؤ کرانے کی سعی میں اپنے پروگرام کو خراب کرا دیتا ہے۔
وہیں اس پروگرام کے چرچے اتنی دور دور تک پہنچ جاتے ہیں کہ ریٹنگ ٹھک کر کے اونچی ہو جاتی ہے۔ یہ اس ردعمل کا ایک اور تکلیف دہ نقطہ ہے کہ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کے جذبات اور حرکات کو دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کف نکلتے مغلظات بکتے ہوئے فلاں پارٹی کا بندہ کیسا لگ رہا تھا یا لگ رہی تھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ جس انداز، ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے وہاں منفی رخ والے عوامل زیادہ ہائی لائٹ ہوتے ہیں اور اچھے رخ کو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ اس طرح کہانی میں کوئی چارم نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک سیاسی رہنما نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک فرنگی کے چینل کو انٹرویو دیتے ایسا کہہ دیا کہ لوگ حیران رہ گئے، سر پیٹ لیے گئے کہ بھائی شاید انھیں انگریزی کی سمجھ نہیں آتی، وہ ہوسٹ کے سوال کو ہی نہیں سمجھ پائے، لیکن اگر انھوں نے سچ بول ہی دیا تو اس میں بھی کیا مضائقہ۔
آخر جھوٹ کو تو کھلنا ہوتا ہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے آؤ جنگ جنگ کھیلیں میں بھی تو کئی سچ اور کئی جھوٹ پنہاں ہیں، کبھی تو کسی بھی مقام پر تو سچ کا بگھار اگر وہ بھی بڑے صاحب کا حکم ہو تو بول دیا گیا تو بھی کیا برا کہ ہم ایشینز اس قسم کے کھیل میں انوالو تو رہے ہیں۔
اب دیکھیے کہ دنیا بھر میں بھارت کو جنگ کے حوالے سے اپنے فلمی آئٹم گانوں کی جو مار لگ رہی ہے کیا وہ عزت کا مقام ہے؟ گورے انگریزی زبان میں ہندوستانی ٹھمکوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی تمہیں اس سے کیا۔ اگر تم ایک بھی آئٹم سونگ اس طرح کا کر سکتے ہو تو تم جیتے، ویسے ہارے تو ہم بھی نہیں۔
بات شروع ہوئی تھی پاکستانی بندے سے غصہ، وہ بھی ناجائز غصہ اور ردعمل کے حوالے سے جو جنگ تک آ پہنچی، تو اس کا حل کوئی نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آئٹم سونگز کے بانی ویسے بھی ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے شوبز سے بھی رہا ہے، ہمارے اور آپ کے نوری نتھ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ ان کو فلمی انداز کے ردعمل بہت اچھے لگتے ہیں کہ جان ریمبو کی طرح ہیرو کسی تار سے لٹکتا ہوا آیا اور سر پر میزائل داغ دے اور ساری فوج کی پلٹن تلپٹ۔ کہ یہ کام صرف ریمبو انکل ہی انجام دے سکتے تھے۔
بہت سی نفرتیں، عداوتیں جنھیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے سلگتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہو رہا ہے۔ غزہ کی سنسان سلگتی راہیں، بلکتے بچے، ترستے بزرگ اور بے چین مائیں کہ ان کی طرف کون دیکھ رہا ہے۔ دنیا شور مچا رہی تھی۔ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان، جو دل رکھتے ہیں، جن کی آنکھیں ناانصافی اور بربریت دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں، لب بول اٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
فلم تو آن ہے کہ بریک میں کچھ دیر کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی تو نقطہ ہو کہ جس پر بات کی جائے تو سلگتے ہوئے ایک نقطے کو اچھالا تو گیا تھا پر بات نہ بنی، تو پہلگام کا ایشو زور سے پھٹ ہی گیا۔ ہندو اور مسلمان سب اس کی زد میں آگئے اور بڑے بم کی آواز چھوٹے بم کی آواز میں کچھ مدھم تو ہوئی ہے پر ظلم اور خون چھپتا نہیں یہ یاد رکھنا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میرے شوہر حوالے سے رہے تھے ہیں اور رہے ہیں رہا ہے کہ لوگ ہیں کہ
پڑھیں:
چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر پر مزید گہرائی سے عمل درآمد کیا ہے، چینی صدر
آستانہ : دوسری چین وسطی ایشیا سمٹ آستانہ کے آزادی محل میں منعقد ہوئی۔
منگل کے روز چینی صدر شی جن پھنگ نے “علاقائی تعاون کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے “چین۔وسطی ایشیا روح کو آگے بڑھانا” کے عنوان سے کلیدی تقریر کی۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے “بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر پر مزید گہرائی سے عمل درآمد کیا ہے، تجارتی حجم میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور صنعتی سرمایہ کاری، سبز معدنیات، سائنسی اور تکنیکی اختراعات وغیرہ میں تعاون کو فعال طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں، چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے منصوبے کو باضابطہ طور پر شروع کیا گیا ہے، تیسری چین۔قازقستان ریلوے کی منصوبہ بندی کو بتدریج آگے بڑھایا گیا ہے، چین۔تاجکستان ہائی وے کا دوسرا مرحلہ ہموار انداز سے آگے بڑھایا گیاہے، اور چین۔ترکمانستان توانائی تعاون کو مستقل طور پر فروغ دیا گیا ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے ثقافتی مراکز کے قیام، چینی یونیورسٹیوں کی شاخیں اور لوبان ورکشاپس کھولنے میں پیش رفت کی ہے اور چین اور قازقستان اور چین اور ازبکستان کے درمیان باہمی ویزا استثنیٰ پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔محض گزشتہ سال چین اور قازقستان کے درمیان سفر کرنے والوں کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ پہلی چین۔وسطی ایشیا سمٹ کے اتفاق رائے پر مکمل عمل درآمد کیا گیا ہے، تعاون کی راہ وسیع سے وسیع تر ہو گئی ہے، اور دوستی کا پھول زیادہ سے زیادہ شاندار طور پر کھلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طویل مدتی عرصے میں، ہم نے “باہمی احترام، باہمی اعتماد، باہمی فائدے، باہمی تعاون اور اعلیٰ معیار کی ترقی کے ساتھ مشترکہ جدیدیت کو فروغ دینے” کی “چین۔وسطی ایشیا روح” کی جستجو کی ہے اور اسے تشکیل دیا ہے۔ ہمیں “چین-وسطی ایشیا روح” کو رہنما کے طور پر لینا چاہیے، مزید کاروباری رویے اور زیادہ عملی اقدامات کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، “بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر کے اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینا چاہیے، اور مشترکہ طور پر ہم نصیب سماج کے ہدف کی جانب بڑھنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں باہمی اعتماد اور باہمی تعاون پر مبنی اتحاد کے حقیقی عزم پر قائم رہنا چاہیے۔ دوسرا، ہمیں عملی، موثر اور گہرائی سے مربوط تعاون کی ساخت کو بہتر بنانا چاہیے۔ تیسرا، ہمیں امن و استحکام کا ایک سلامتی نمونہ تشکیل دینا چاہیے اور دکھ و سکھ کو بانٹنا چاہیے۔ چوتھا، ہمیں اتحاد، باہمی افہام و تفہیم اور محبت کے ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ پانچواں، ہمیں ایک منصفانہ، معقول، مساوی اور منظم بین الاقوامی نظم برقرار رکھنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ اس وقت چین ایک مضبوط ملک کی تعمیر اور قومی نشاۃ الثانیہ کے عظیم مقصد کو چینی طرز کی جدید کاری کے ساتھ جامع طور پر فروغ دے رہا ہے۔ چاہے بین الاقوامی حالات کیسے بھی تبدیل ہوں، چین ہمیشہ بیرونی دنیا کے لیے کھلے پن پر کاربند رہے گا اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اعلیٰ معیار کے تعاون، مفادات کے انضمام کو گہرا کرنے اور مشترکہ ترقی کے حصول کا خواہاں ہے۔