Express News:
2025-08-05@12:48:02 GMT

ہمیں تو یاد ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

ہم لوگ زیتون خرید رہے تھے لیکن اس مصری سیلز مین نے ہمیں چھوڑکر دوسرے گاہکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے شوہر نے جب دیکھا کہ وہ کب سے اس کا انتظارکررہے ہیں اور وہ ان  دوسرے گاہکوں کو سرو کر رہا ہے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ’’ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس پر اس مصری سیلز مین نے اپنے نزدیک پڑے کریم کو اٹھا کر ان پر دے مارا، جس سے ان کے سارے کپڑے گندے ہو گئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ ان کے منیجر کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’اس کے ملازم نے ایسی حرکت کی، جب کہ انھوں نے اپنے من کی بات کی تھی کہ ان کی پہلی باری ہے تو انھیں چھوڑ کر دوسرے گاہکوں کو کیوں سرو کیا جا رہا ہے؟

اس پر اس کا یہ ردعمل کیا جائز ہے؟‘‘ وہ تو پولیس میں کمپلین کرنے جا رہے تھے اس پر منیجر اور دوسرے لوگوں نے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرایا کہ آپ بھی یہاں کمانے آئے ہیں اور یہ بھی، اس کو یہیں ختم کردیں، یہ سوری کر رہا ہے۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپنے منہ سے انھیں سوری یا معذرت کا ایک لفظ نہیں کہا تھا، بلکہ لوگ ایسا کہہ رہے تھے۔

بہرحال میرے شوہر ویسے بھی ٹھنڈے دماغ کے ہیں، وہ انگلینڈ میں پلے بڑھے ہیں، وہیں تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی یہاں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جاتا تو یقینا وہ مصری سیلز مین جو ناجائز کرچکا تھا، میرے شوہر کے مقابلے میں بہت کم لیول کا انسان تھا، میرے شوہر تو انگلینڈ میں بچپن سے رہے ہیں یہی سیکھا کہ قانون کے خلاف کوئی کرے تو فوری پولیس میں کمپلین کرو، اور وہاں پولیس کا رویہ بھی عوام سے ایسا ہے کہ لوگ پولیس سے بات کرتے شکایت کرتے نہیں گھبراتے۔

آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے برس بیت گئے اس شخص نے کیا ہم سے ایسی حرکت اس لیے کی کہ اسے ہم پاکستانی یا ایشین نظر آ رہے تھے؟ پھر اس کا ناجائز کام پر بھی اتنا غصہ سمجھ نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل چل رہے ہیں جن کی ابتدا غصے اور جذبات سے شروع ہوتی ہے یا اختتام غصہ یا جذبات پر ہوتا ہے جس کا مظہر شاید وہ تمام تاخیر میں پڑے پروجیکٹس اور پلانز ہیں جنھیں کہیں نہ کہیں غصہ، جذباتی اور منفی رجحان کے باعث ردی کی ٹوکری کی نذر ہونا پڑا۔

غصہ اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ انسان کے دماغ کی ساری حسیات کو سلا دیتی ہے اور صرف بے شعوری اور جذباتیت کو ہوا دیتی ہے۔بزرگوں نے اسی لیے کہا ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ غصہ میں انسان عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جس میں وہ بعض اوقات شدیدنقصان بھی اٹھاتا ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کیا ہم نے ٹی وی اسکرینز پر ایسے معرکے نہیں دیکھے، جہاں کسی انتہائی سنجیدہ نوعیت کے پروگرام میں دو مخالف جماعتوں یا خیالوں کے حامل حضرات ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور بے چارہ اینکر اور اس کا پورا عملہ بیچ بچاؤ کرانے کی سعی میں اپنے پروگرام کو خراب کرا دیتا ہے۔

وہیں اس پروگرام کے چرچے اتنی دور دور تک پہنچ جاتے ہیں کہ ریٹنگ ٹھک کر کے اونچی ہو جاتی ہے۔ یہ اس ردعمل کا ایک اور تکلیف دہ نقطہ ہے کہ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کے جذبات اور حرکات کو دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کف نکلتے مغلظات بکتے ہوئے فلاں پارٹی کا بندہ کیسا لگ رہا تھا یا لگ رہی تھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ جس انداز، ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے وہاں منفی رخ والے عوامل زیادہ ہائی لائٹ ہوتے ہیں اور اچھے رخ کو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ اس طرح کہانی میں کوئی چارم نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک سیاسی رہنما نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک فرنگی کے چینل کو انٹرویو دیتے ایسا کہہ دیا کہ لوگ حیران رہ گئے، سر پیٹ لیے گئے کہ بھائی شاید انھیں انگریزی کی سمجھ نہیں آتی، وہ ہوسٹ کے سوال کو ہی نہیں سمجھ پائے، لیکن اگر انھوں نے سچ بول ہی دیا تو اس میں بھی کیا مضائقہ۔

 آخر جھوٹ کو تو کھلنا ہوتا ہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے آؤ جنگ جنگ کھیلیں میں بھی تو کئی سچ اور کئی جھوٹ پنہاں ہیں، کبھی تو کسی بھی مقام پر تو سچ کا بگھار اگر وہ بھی بڑے صاحب کا حکم ہو تو بول دیا گیا تو بھی کیا برا کہ ہم ایشینز اس قسم کے کھیل میں انوالو تو رہے ہیں۔

اب دیکھیے کہ دنیا بھر میں بھارت کو جنگ کے حوالے سے اپنے فلمی آئٹم گانوں کی جو مار لگ رہی ہے کیا وہ عزت کا مقام ہے؟ گورے انگریزی زبان میں ہندوستانی ٹھمکوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی تمہیں اس سے کیا۔ اگر تم ایک بھی آئٹم سونگ اس طرح کا کر سکتے ہو تو تم جیتے، ویسے ہارے تو ہم بھی نہیں۔

بات شروع ہوئی تھی پاکستانی بندے سے غصہ، وہ بھی ناجائز غصہ اور ردعمل کے حوالے سے جو جنگ تک آ پہنچی، تو اس کا حل کوئی نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آئٹم سونگز کے بانی ویسے بھی ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے شوبز سے بھی رہا ہے، ہمارے اور آپ کے نوری نتھ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ ان کو فلمی انداز کے ردعمل بہت اچھے لگتے ہیں کہ جان ریمبو کی طرح ہیرو کسی تار سے لٹکتا ہوا آیا اور سر پر میزائل داغ دے اور ساری فوج کی پلٹن تلپٹ۔ کہ یہ کام صرف ریمبو انکل ہی انجام دے سکتے تھے۔

بہت سی نفرتیں، عداوتیں جنھیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے سلگتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہو رہا ہے۔ غزہ کی سنسان سلگتی راہیں، بلکتے بچے، ترستے بزرگ اور بے چین مائیں کہ ان کی طرف کون دیکھ رہا ہے۔ دنیا شور مچا رہی تھی۔ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان، جو دل رکھتے ہیں، جن کی آنکھیں ناانصافی اور بربریت دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں، لب بول اٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

فلم تو آن ہے کہ بریک میں کچھ دیر کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی تو نقطہ ہو کہ جس پر بات کی جائے تو سلگتے ہوئے ایک نقطے کو اچھالا تو گیا تھا پر بات نہ بنی، تو پہلگام کا ایشو زور سے پھٹ ہی گیا۔ ہندو اور مسلمان سب اس کی زد میں آگئے اور بڑے بم کی آواز چھوٹے بم کی آواز میں کچھ مدھم تو ہوئی ہے پر ظلم اور خون چھپتا نہیں یہ یاد رکھنا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میرے شوہر حوالے سے رہے تھے ہیں اور رہے ہیں رہا ہے کہ لوگ ہیں کہ

پڑھیں:

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges) پڑھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر مورج ہے‘ فرنچ زبان میں آخری حرف ساقط ہوتا ہے اور جی کی آواز جی ہی نکلتی ہے لہٰذا یہ مورج ہے‘ ٹاؤن میں فرنچ زبان بولی جاتی ہے اور یہ جنیوا سے صرف 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ لیک جنیوا سوئٹزر لینڈ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔

 آپ اگر اس کے گرد چکر لگائیں تو آپ کو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا‘ اس کی ایک سائیڈ پر جنیوا اور دوسری سائیڈ پر مونترو (Montreux) کا ٹاؤن ہے جب کہ دائیں بائیں جھیل کی ایک سائیڈ پر سوئٹزر لینڈ کے خوب صورت اور مہنگے ٹاؤنز ہیں‘ جھیل کی دوسری سائیڈ پر فرانسیسی قصبے ہیں‘ ایویان (Evian) نام کا قصبہ بھی ان میں شامل ہے۔

 اس کا منرل واٹر پوری دنیا میں مشہور ہے شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ایویان منرل واٹر کا نام ایویان قصبے کے نام پر ہے‘ فرانسیسی قصبوں کے پیچھے ماؤنٹ بلینک کے پہاڑ ہیں‘ یہ یورپ کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے جس پر گرمیوں میں بھی برف جمی رہتی ہے‘ پہاڑ کے دامن میں شامنئی (Chamonix) کا قصبہ ہے‘ وہاں سے ماؤنٹ بلینک کے لیے دو کیبل کار چلتی ہیں۔

 ایک کیبل کار پہاڑ کی بلندی پر گلیشیئر پر لے جاتی ہے‘ وہاں گرمیوں میں بھی درجہ حرارت صفر سے کم ہوتا ہے جب کہ سردیوں میں وہاں شدید سردی ہوتی ہے‘ مجھے ایک بار جنوری میں منفی 22 سینٹی گریڈ پر ماؤنٹ بلینک پر جانے کا اتفاق ہوا‘ میں آج تک اس ٹھنڈ کو نہیں بھلا سکا جب کہ دوسری کیبل کار وادی کی دوسری سائیڈ پر ہے‘ اس کے انتہائی بلند مقام سے پوری وادی اور ماؤنٹ بلینک دونوں نظر آتے ہیں‘ ہم 21 جولائی کو شامنئی گئے لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے پہاڑ پر نہیں جا سکے‘ ایویان گاؤں ماؤنٹ بلینک کے قدموں میں ہے اور اس کے منرل واٹر کا سورس گلیشیئر ہیں۔

 ایویان کمپنی نے ٹاؤن میں واٹر میوزیم بنا رکھا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے ہمارا منرل واٹر چار سال میں تیار ہو تا ہے‘ آج پہاڑ پر جو برف گرے گی وہ چار سال بعد پانی بن کر منہ تک پہنچے گی‘ فرنچ سائیڈ پر انیسی (Annecy) کا قصبہ بھی ہے‘ یہ خوب صورت پرانا قصبہ ہے جس کے درمیان سے نہریں گزرتی ہیں اور ان پر انتہائی خوب صورت پل ہیں‘ یہ یورپ کی خوب صورت ترین جھیل ہے اور یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج میں شامل ہے‘ یہ سب ٹاؤنز دیکھنے لائق ہیں لیکن ہم مورج میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

مورج جنیوا سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے‘ اس کی سائیڈ جھیل کی طرف کھلتی ہے جب کہ دوسری پہاڑ کی اترائیوں پر واقع ہے اور اس پر دور دور تک انگور کے باغ ہیں‘ مورج امراء کا علاقہ ہونے کی وجہ سے بہت مہنگا ہے‘ ہم جھیل کے کنارے چار بیڈ رومز کے فلیٹ میں مقیم رہے‘ فلیٹ بھارت کے ایک سکھ تاجر کی ملکیت تھا‘ ان کا نامن موہن سنگھ ہے لیکن یہ سردار مکھنی کے نام سے مشہور ہیں‘ انٹیریئر ڈیکوریشن کا کام کرتے ہیں‘ مہنگا فرنیچر بھارت اور سری لنکا میں بیچتے ہیں‘ خود مورج سے دس کلو میٹر دور رول (Rulle) کے گاؤں میں رہتے ہیں۔

 انگور کے وسیع باغ اور وائینری کے مالک ہیں‘ مکھنی کے نام سے وائین بناتے ہیں اور دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ خوش حال شخص اور بلا کے شراب نوش ہیں‘دوسرے لوگوں کو شراب نوشی کی باقاعدہ ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں‘ ان کے بقول دنیا میں شراب سے بڑ ی کوئی نعمت نہیں‘ مجھے ان کے فلیٹ میں رہنے اور ان کا گھر دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ دونوں بے انتہا خوب صورت تھے‘ فلیٹ کی بالکونی سے پوری جھیل جنیوا نظر آتی تھی‘ ساتھ ہی ٹریک تھا جو جھیل کے ساتھ ساتھ 150 کلومیٹر تک چلا جاتا تھا‘ لوگ سارا دن اس پر دوڑ لگاتے رہتے تھے یا سائیکل چلاتے تھے۔

 جھیل میں دن بھر موٹر بوٹس تیرتی رہتی تھیں‘ وہ جگہ بہت پرسکون اور روحانی تھی‘ میرا زیادہ تر وقت بالکونی اور جھیل کے کنارے گزرتا رہا‘ قصبے کا بازار دس منٹ کی واک پر تھا‘ اس میں گنی چنی کافی شاپس‘ بیکریاں اور ریستوران تھے اور وہ بھی بہت جلد بند ہو جاتے تھے‘ جھیل دن میں چارمرتبہ رنگ بدلتی تھی‘ صبح کے وقت اس کا پانی سرخ ہوتا تھا‘ دوپہر کے وقت یہ دودھیا ہو جاتی تھی‘ شام کے وقت سرمئی ہو جاتی تھی جب کہ غروب آفتاب کے وقت اس میں آگ سی لگ جاتی تھی‘ میں نے ایک شام جھیل میں ایک عجیب منظر دیکھا‘ ہر طرف سرمئی کہرا بکھرا ہوا تھا لیکن جھیل کے درمیان میں برف کے مختلف سائز کے بلاک تیر رہے تھے۔

 میں حیران ہوگیا‘ غور کیا تو پتا چلا جھیل میں دودھیا رنگ کی کشتیاں ہیں‘ سورج نے ڈوبنے سے قبل بادلوں کی چادر سرکا کر جھیل میں تانک جھانک شروع کر دی تھی‘ سورج کی روشنی جھیل میں تیرتی سفید موٹر بوٹس پر پڑی تو اس نے انھیں سفید برف کے ٹکڑے بنا دیا‘ وہ منظر بہت قیمتی تھا‘ صبح کے وقت بے شمار لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھیل کے کنارے پہنچ جاتے تھے‘ بچے سائیکل چلاتے تھے‘ نوجوان جاگنگ کرتے تھے جب کہ خواتین اور بزرگ واک کرتے تھے‘ میں واک کرتا ہوا آخر تک چلا جاتا تھا‘ کافی شاپ سے کافی لیتا تھا اور جھیل کے کنارے بیٹھ جاتا تھا‘ سوئٹزر لینڈ میں’’ لاتے میکاتو‘‘ نام کی انتہائی لذیذ کافی ملتی ہے‘ کافی کا یہ اسٹائل صرف سوئٹزر لینڈ میں ملتا ہے‘ اس میں دو قسم کا دودھ استعمال ہوتا ہے۔

 نیچے دودھ کی تہہ ہوتی ہے‘ اس کے اوپر کافی اور آخر میں جھاگ کی بھاری تہہ‘ یہ بہت مزے دار ہوتی ہے اور اس کا اثر دیر تک رہتا ہے‘ میں کافی چھوڑ چکا ہوں لیکن اس کے باوجود دن میں دو بار اسے انجوائے کرتا تھا‘ کافی لاتے میکاتو‘ جھیل کا کنارہ اور شام کا وقت یہ تمام عناصر مل کر جنت بن جاتے تھے‘ میں ایک دن سردار صاحب کے گھر بھی گیا‘ ان کا گاؤں پہاڑ کی اترائیوں پر انگوروں کے باغات کے درمیان تھا‘ ان کے ٹیرس سے جھیل جنیوا بھی نظر آتی تھی اور ماؤنٹ بلینک بھی‘ دنیا کا سب سے مہنگا اسکول بھی سردار جی کے ٹاؤن میں ہے‘ یہ انسٹی ٹیوٹ آف لاروزے کہلاتا ہے‘ 1833میں چودھویں صدی کے تعلیمی ادارے کا نام بدل کر بنایا گیا‘ بورڈنگ اسکول ہے جس کی کم از کم سالانہ فیس چار کروڑ روپے ہے‘ یہ اسکول گرمیوں میں رول میں چلتا ہے اور سردیوں میں جی اسٹاڈ میں شفٹ ہو جاتا ہے۔

 اسکول کا کیمپس سردار صاحب کے ٹیرس سے نظر آتا تھا‘ سردار صاحب دل چسپ انسان ہیں‘ یہ شہزاد صاحب کی دریافت ہیں‘ شہزاد صاحب جنیوا کے ساتھ فرنے والٹیئر میں راجپوت کے نام سے شان دار ریستوران چلا رہے ہیں‘ جنیوا کے نوے فیصد لوگ راجپوت سے واقف ہیں‘ میں چھ برس قبل شہزاد صاحب سے حادثاتی طور پر متعارف ہوا اور ہم دوست بن گئے‘ سردار صاحب اور ان کی بیگم رعنا ان کے دوست ہیں‘ ان کے توسط سے ان لوگوں سے ملاقات ہوئی اور میں دیر تک سردار فیملی کی کمپنی انجوائے کرتا رہا‘ ہم ایک دن کے لیے انیسی اور شامنئی چلے گئے‘ یہ دونوں ٹاؤنز خوب صورت اور قابل دید ہیں‘ انیسی کی پرانی پتھریلی گلیوں میں ہزار سال کی تاریخ رکی ہوئی تھی‘ شہر کے قدیم حصے میں نہریں ہیں اور ان میں کشتیاں چلتی ہیں‘ فرنچ لوگ اسے منی وینس کہتے ہیں‘ اس کا کورڈ بازار اور قدیم کھانے دونوں ناقابل فراموش ہیں‘ انیسی کا چرچ بلندی پر ہے اور وہاں سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے‘ ہم منگل کے دن وہاں گئے تھے۔

 اس دن چرچ بند ہوتا ہے لہٰذا ہم چرچ نہیں دیکھ سکے‘ جھیل میں فیری چلتی ہے‘ یہ گھنٹہ بھر میں پوری جھیل دکھاتی ہے جب کہ نہروں میں چھ چھ مسافروں کی چھوٹی کشتیاں چلتی ہیں‘ شہر کی فضا میں رومان کے ساتھ ساتھ کھلا پن تھا‘ ہم سہ پہر تک اسے انجوائے کرتے رہے‘ ہماری اگلی منزل شامنئی تھا‘ انیسی سے شامنئی 40 منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ راستہ بہت خوب صورت ہے‘ دونوں طرف سرسبز پہاڑ ہیں‘ ہم شامنئی پہنچے تو چیئرلفٹ بند ہو چکی تھی‘ آخری لفٹ پانچ بجے واپس آتی ہے لہٰذا ساڑھے تین بجے لفٹس بند کر دی جاتی ہیں‘ ہم بدقسمتی سے لفٹ نہیں لے سکے‘ اس دن ماؤنٹ بلینک کا درجہ حرارت صفر ڈگری تھا اور لوگ بھاری جیکٹس پہن کر اوپر جا رہے تھے۔

 ہم وہاں سے ٹاؤن میں چلے گئے‘ ٹاؤن بہت خوب صورت اور صاف ستھرا ہے‘ چاروں سائیڈز پر سبز پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے درمیان فیری ٹیل جیسا ٹاؤن ہے‘ بے شمار ہوٹل‘ ریستوران‘ کافی شاپس اور بارز ہیں‘ درمیان میں شوریدہ سردریا بہتا ہے‘ لوگ پلوں پرکھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں‘ شامنئی کا میکڈونلڈ بالکل منفرد ہے‘ اس کا انٹیریئر لکڑی کا ہے اور قدیم محسوس ہوتا ہے‘ میں نے یہ انٹیریئر پہلی مرتبہ دیکھا‘ سوئٹزر لینڈ بہت مہنگا ہے‘ شامنئی کیوں کہ سوئس بارڈر کے ساتھ ہے لہٰذا یہ بھی بہت مہنگا ہے‘ بالخصوص کھانا‘ کافی اور جوس بہت مہنگے ہیں‘ لفٹ کے ٹکٹ بھی مہنگے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شہر دیکھنے لائق ہے۔

ہم اس شام تھکے ہارے واپس آئے‘ اگلا دن ہم نے لیک جنیوا کے ساتھ واک کر کے اور گھاس پر لیٹ کر گزار دیا‘ میں کام کا عادی ہوں‘ پچھلے 40برسوں سے روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کررہا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے توانائی سے نواز رکھا ہے‘ میں کام سے تھکتا نہیں ہوں‘ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس سفر کے دوران کام نہیں کیا‘ کالم بھی نہیں لکھے اور دفتر سے بھی رابطہ نہیں رکھا‘ میرے پرسنل سیشنز بھی تھے‘ وہ بھی نہیں کیے۔

 وی لاگ بھی نہ ہونے کے برابر تھے چناں چہ زندگی میں پہلی مرتبہ مکمل ہڈحرامی انجوائے کی‘ آپ یقین کریں بہت مزہ آیا اور اس سے یہ آگہی بھی ہوئی وہ لوگ جو پوری زندگی ہڈ حرامی میں گزار دیتے ہیں وہ کتنے مزے میں رہتے ہیں‘ لیک جنیوا کے ساتھ لیٹے لیٹے میں نے خواہش کی اگر اللہ تعالیٰ مجھے نئی زندگی دے تو میں وہ تنکا توڑے بغیر گزار دوں گا ‘ مکمل ہڈ حرام ثابت ہوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • واہ کیا بات ہے!
  • ”امریکہ خود روس سے خریداری کرتا ہے، ہمیں طعنے کیوں؟“ ٹرمپ کی دھمکی پر بھارت کا رد عمل
  • مورج میں چھ دن
  • امریکا کی نظر التفات کوئی پہلی بار نہیں
  • بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت
  • یومِ آزادی معرکۂ حق: پاکستان کا قیام کئی نسلوں کے خوابوں کی تعبیر
  • یومِ آزادی معرکۂ حق: پاکستان کا قیام کئی نسلوں کے خوابوں کی تعبیر
  • منا ڈے
  • سات سچائیاں
  • جس روز قضا آئے گی