Express News:
2025-05-04@07:20:02 GMT

ہمیں تو یاد ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

ہم لوگ زیتون خرید رہے تھے لیکن اس مصری سیلز مین نے ہمیں چھوڑکر دوسرے گاہکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے شوہر نے جب دیکھا کہ وہ کب سے اس کا انتظارکررہے ہیں اور وہ ان  دوسرے گاہکوں کو سرو کر رہا ہے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ’’ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس پر اس مصری سیلز مین نے اپنے نزدیک پڑے کریم کو اٹھا کر ان پر دے مارا، جس سے ان کے سارے کپڑے گندے ہو گئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ ان کے منیجر کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’اس کے ملازم نے ایسی حرکت کی، جب کہ انھوں نے اپنے من کی بات کی تھی کہ ان کی پہلی باری ہے تو انھیں چھوڑ کر دوسرے گاہکوں کو کیوں سرو کیا جا رہا ہے؟

اس پر اس کا یہ ردعمل کیا جائز ہے؟‘‘ وہ تو پولیس میں کمپلین کرنے جا رہے تھے اس پر منیجر اور دوسرے لوگوں نے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرایا کہ آپ بھی یہاں کمانے آئے ہیں اور یہ بھی، اس کو یہیں ختم کردیں، یہ سوری کر رہا ہے۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپنے منہ سے انھیں سوری یا معذرت کا ایک لفظ نہیں کہا تھا، بلکہ لوگ ایسا کہہ رہے تھے۔

بہرحال میرے شوہر ویسے بھی ٹھنڈے دماغ کے ہیں، وہ انگلینڈ میں پلے بڑھے ہیں، وہیں تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی یہاں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جاتا تو یقینا وہ مصری سیلز مین جو ناجائز کرچکا تھا، میرے شوہر کے مقابلے میں بہت کم لیول کا انسان تھا، میرے شوہر تو انگلینڈ میں بچپن سے رہے ہیں یہی سیکھا کہ قانون کے خلاف کوئی کرے تو فوری پولیس میں کمپلین کرو، اور وہاں پولیس کا رویہ بھی عوام سے ایسا ہے کہ لوگ پولیس سے بات کرتے شکایت کرتے نہیں گھبراتے۔

آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے برس بیت گئے اس شخص نے کیا ہم سے ایسی حرکت اس لیے کی کہ اسے ہم پاکستانی یا ایشین نظر آ رہے تھے؟ پھر اس کا ناجائز کام پر بھی اتنا غصہ سمجھ نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل چل رہے ہیں جن کی ابتدا غصے اور جذبات سے شروع ہوتی ہے یا اختتام غصہ یا جذبات پر ہوتا ہے جس کا مظہر شاید وہ تمام تاخیر میں پڑے پروجیکٹس اور پلانز ہیں جنھیں کہیں نہ کہیں غصہ، جذباتی اور منفی رجحان کے باعث ردی کی ٹوکری کی نذر ہونا پڑا۔

غصہ اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ انسان کے دماغ کی ساری حسیات کو سلا دیتی ہے اور صرف بے شعوری اور جذباتیت کو ہوا دیتی ہے۔بزرگوں نے اسی لیے کہا ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ غصہ میں انسان عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جس میں وہ بعض اوقات شدیدنقصان بھی اٹھاتا ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کیا ہم نے ٹی وی اسکرینز پر ایسے معرکے نہیں دیکھے، جہاں کسی انتہائی سنجیدہ نوعیت کے پروگرام میں دو مخالف جماعتوں یا خیالوں کے حامل حضرات ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور بے چارہ اینکر اور اس کا پورا عملہ بیچ بچاؤ کرانے کی سعی میں اپنے پروگرام کو خراب کرا دیتا ہے۔

وہیں اس پروگرام کے چرچے اتنی دور دور تک پہنچ جاتے ہیں کہ ریٹنگ ٹھک کر کے اونچی ہو جاتی ہے۔ یہ اس ردعمل کا ایک اور تکلیف دہ نقطہ ہے کہ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کے جذبات اور حرکات کو دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کف نکلتے مغلظات بکتے ہوئے فلاں پارٹی کا بندہ کیسا لگ رہا تھا یا لگ رہی تھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ جس انداز، ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے وہاں منفی رخ والے عوامل زیادہ ہائی لائٹ ہوتے ہیں اور اچھے رخ کو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ اس طرح کہانی میں کوئی چارم نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک سیاسی رہنما نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک فرنگی کے چینل کو انٹرویو دیتے ایسا کہہ دیا کہ لوگ حیران رہ گئے، سر پیٹ لیے گئے کہ بھائی شاید انھیں انگریزی کی سمجھ نہیں آتی، وہ ہوسٹ کے سوال کو ہی نہیں سمجھ پائے، لیکن اگر انھوں نے سچ بول ہی دیا تو اس میں بھی کیا مضائقہ۔

 آخر جھوٹ کو تو کھلنا ہوتا ہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے آؤ جنگ جنگ کھیلیں میں بھی تو کئی سچ اور کئی جھوٹ پنہاں ہیں، کبھی تو کسی بھی مقام پر تو سچ کا بگھار اگر وہ بھی بڑے صاحب کا حکم ہو تو بول دیا گیا تو بھی کیا برا کہ ہم ایشینز اس قسم کے کھیل میں انوالو تو رہے ہیں۔

اب دیکھیے کہ دنیا بھر میں بھارت کو جنگ کے حوالے سے اپنے فلمی آئٹم گانوں کی جو مار لگ رہی ہے کیا وہ عزت کا مقام ہے؟ گورے انگریزی زبان میں ہندوستانی ٹھمکوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی تمہیں اس سے کیا۔ اگر تم ایک بھی آئٹم سونگ اس طرح کا کر سکتے ہو تو تم جیتے، ویسے ہارے تو ہم بھی نہیں۔

بات شروع ہوئی تھی پاکستانی بندے سے غصہ، وہ بھی ناجائز غصہ اور ردعمل کے حوالے سے جو جنگ تک آ پہنچی، تو اس کا حل کوئی نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آئٹم سونگز کے بانی ویسے بھی ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے شوبز سے بھی رہا ہے، ہمارے اور آپ کے نوری نتھ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ ان کو فلمی انداز کے ردعمل بہت اچھے لگتے ہیں کہ جان ریمبو کی طرح ہیرو کسی تار سے لٹکتا ہوا آیا اور سر پر میزائل داغ دے اور ساری فوج کی پلٹن تلپٹ۔ کہ یہ کام صرف ریمبو انکل ہی انجام دے سکتے تھے۔

بہت سی نفرتیں، عداوتیں جنھیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے سلگتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہو رہا ہے۔ غزہ کی سنسان سلگتی راہیں، بلکتے بچے، ترستے بزرگ اور بے چین مائیں کہ ان کی طرف کون دیکھ رہا ہے۔ دنیا شور مچا رہی تھی۔ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان، جو دل رکھتے ہیں، جن کی آنکھیں ناانصافی اور بربریت دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں، لب بول اٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

فلم تو آن ہے کہ بریک میں کچھ دیر کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی تو نقطہ ہو کہ جس پر بات کی جائے تو سلگتے ہوئے ایک نقطے کو اچھالا تو گیا تھا پر بات نہ بنی، تو پہلگام کا ایشو زور سے پھٹ ہی گیا۔ ہندو اور مسلمان سب اس کی زد میں آگئے اور بڑے بم کی آواز چھوٹے بم کی آواز میں کچھ مدھم تو ہوئی ہے پر ظلم اور خون چھپتا نہیں یہ یاد رکھنا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میرے شوہر حوالے سے رہے تھے ہیں اور رہے ہیں رہا ہے کہ لوگ ہیں کہ

پڑھیں:

برکس ممالک طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑے ہوں، چینی وزیر خارجہ

برا زیلیا :چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برازیلیا میں قومی سلامتی کے امور کے   اعلیٰ سطحی  نمائندوں کے 15 ویں برکس اجلاس میں شرکت کی۔ برکس کے  قومی سلامتی کے امور کے لئے  اعلیٰ سطحی نمائندوں اور   سربراہوں نے اجلاس میں شرکت کی اور بین الاقوامی سلامتی، ثالثی اور تنازعات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی اور سائبر سیکورٹی کو برقرار رکھنے میں برکس ممالک کے کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔جمعرات کے روز وانگ ای نے کہا کہ بین الاقوامی سیاست کو  لین دین   بنانے اور بین الاقوامی تجارت کو ہتھیار بنانے اوربلیک میلنگ چپس کی تخلیق سے صرف ممالک کے درمیان اعتماد کا بحران مزید بڑھے گا اور عالمی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ بن جائے گا۔

رعایتوں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اور اتحاد ہی واحد امید ہے.سب سے پہلے، ہمیں ترقی کے حقوق کا محافظ بننا ہوگا۔ برکس ممالک خاموش بیٹھ کر اپنے جائز حقوق اور مفادات سے خود کو محروم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، انہیں طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑا ہونا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ترقیاتی حقوق اور  دفاع کے لیے واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔

دوسرا، ہمیں اتحاد اور تعاون میں رہنما بننا ہوگا۔ برکس ممالک کو ایک مثال قائم کرنی چاہیے، برابری اور احترام کی صداقت کے ساتھ دباؤ اور محاذ آرائی کو روکنا چاہیے اور یکجہتی اور تعاون کے وژن سے منافع کی لالچ کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔تیسر۱،  ہمیں کثیرالجہتی کا محافظ بننا چاہیے۔ برکس ممالک کو کثیرالجہتی کے جھنڈے کو بلند رکھنا چاہئے، اقوام متحدہ کی مرکز  حیثیت پر مبنی  بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنا چاہئے  اور ڈبلیو ٹی او  کی مرکزی حیثیت   میں کثیر الجہتی تجارتی نظام کو تحفظ کرنا چاہیئے ، اور بین الاقوامی نظام کی ترقی کو زیادہ منصفانہ اور معقول سمت میں فروغ دینا چاہئے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اب کی بار چائے نہیں، انڈیا کو سبق ملے گا، جو ہمیشہ یاد رہے گا، رانا سکندر
  • بی این پی کے سربراہ ا خترمینگل نے عوامی مزاحمت کا اعلان کردیا
  • استحصال کی کوکھ سے جنم لیتی ہوئی امید
  • ہمیں ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جہاں بلاخوف و خطر صحافت کی جاسکے: صدر مملکت
  • ہمیں نیوکلیئر فیول سائیکل حاصل کرنیکا پورا حق حاصل ہے، ایران
  • ہمیں کوئی خطرہ یا خوف نہیں، یقین ہے بھارت غلطی نہیں کرے گا، رانا ثنا اللہ
  • ہمیں مسلمانوں یا کشمیریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیئے، پہلگام حملے کی متاثرہ
  • کشمیر کے مسئلے سے پہلے ہمیں افغانستان کا سوچنا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • برکس ممالک طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑے ہوں، چینی وزیر خارجہ