Express News:
2025-11-05@01:23:21 GMT

ہمیں تو یاد ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

ہم لوگ زیتون خرید رہے تھے لیکن اس مصری سیلز مین نے ہمیں چھوڑکر دوسرے گاہکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے شوہر نے جب دیکھا کہ وہ کب سے اس کا انتظارکررہے ہیں اور وہ ان  دوسرے گاہکوں کو سرو کر رہا ہے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ’’ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس پر اس مصری سیلز مین نے اپنے نزدیک پڑے کریم کو اٹھا کر ان پر دے مارا، جس سے ان کے سارے کپڑے گندے ہو گئے، انھیں بہت غصہ آیا، وہ ان کے منیجر کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’اس کے ملازم نے ایسی حرکت کی، جب کہ انھوں نے اپنے من کی بات کی تھی کہ ان کی پہلی باری ہے تو انھیں چھوڑ کر دوسرے گاہکوں کو کیوں سرو کیا جا رہا ہے؟

اس پر اس کا یہ ردعمل کیا جائز ہے؟‘‘ وہ تو پولیس میں کمپلین کرنے جا رہے تھے اس پر منیجر اور دوسرے لوگوں نے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرایا کہ آپ بھی یہاں کمانے آئے ہیں اور یہ بھی، اس کو یہیں ختم کردیں، یہ سوری کر رہا ہے۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپنے منہ سے انھیں سوری یا معذرت کا ایک لفظ نہیں کہا تھا، بلکہ لوگ ایسا کہہ رہے تھے۔

بہرحال میرے شوہر ویسے بھی ٹھنڈے دماغ کے ہیں، وہ انگلینڈ میں پلے بڑھے ہیں، وہیں تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی یہاں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جاتا تو یقینا وہ مصری سیلز مین جو ناجائز کرچکا تھا، میرے شوہر کے مقابلے میں بہت کم لیول کا انسان تھا، میرے شوہر تو انگلینڈ میں بچپن سے رہے ہیں یہی سیکھا کہ قانون کے خلاف کوئی کرے تو فوری پولیس میں کمپلین کرو، اور وہاں پولیس کا رویہ بھی عوام سے ایسا ہے کہ لوگ پولیس سے بات کرتے شکایت کرتے نہیں گھبراتے۔

آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے برس بیت گئے اس شخص نے کیا ہم سے ایسی حرکت اس لیے کی کہ اسے ہم پاکستانی یا ایشین نظر آ رہے تھے؟ پھر اس کا ناجائز کام پر بھی اتنا غصہ سمجھ نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مسائل چل رہے ہیں جن کی ابتدا غصے اور جذبات سے شروع ہوتی ہے یا اختتام غصہ یا جذبات پر ہوتا ہے جس کا مظہر شاید وہ تمام تاخیر میں پڑے پروجیکٹس اور پلانز ہیں جنھیں کہیں نہ کہیں غصہ، جذباتی اور منفی رجحان کے باعث ردی کی ٹوکری کی نذر ہونا پڑا۔

غصہ اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ انسان کے دماغ کی ساری حسیات کو سلا دیتی ہے اور صرف بے شعوری اور جذباتیت کو ہوا دیتی ہے۔بزرگوں نے اسی لیے کہا ہے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ غصہ میں انسان عقل سے کام لینے کے بجائے جذبات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جس میں وہ بعض اوقات شدیدنقصان بھی اٹھاتا ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کیا ہم نے ٹی وی اسکرینز پر ایسے معرکے نہیں دیکھے، جہاں کسی انتہائی سنجیدہ نوعیت کے پروگرام میں دو مخالف جماعتوں یا خیالوں کے حامل حضرات ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور بے چارہ اینکر اور اس کا پورا عملہ بیچ بچاؤ کرانے کی سعی میں اپنے پروگرام کو خراب کرا دیتا ہے۔

وہیں اس پروگرام کے چرچے اتنی دور دور تک پہنچ جاتے ہیں کہ ریٹنگ ٹھک کر کے اونچی ہو جاتی ہے۔ یہ اس ردعمل کا ایک اور تکلیف دہ نقطہ ہے کہ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کے جذبات اور حرکات کو دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کف نکلتے مغلظات بکتے ہوئے فلاں پارٹی کا بندہ کیسا لگ رہا تھا یا لگ رہی تھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ جس انداز، ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے وہاں منفی رخ والے عوامل زیادہ ہائی لائٹ ہوتے ہیں اور اچھے رخ کو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ اس طرح کہانی میں کوئی چارم نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک سیاسی رہنما نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک فرنگی کے چینل کو انٹرویو دیتے ایسا کہہ دیا کہ لوگ حیران رہ گئے، سر پیٹ لیے گئے کہ بھائی شاید انھیں انگریزی کی سمجھ نہیں آتی، وہ ہوسٹ کے سوال کو ہی نہیں سمجھ پائے، لیکن اگر انھوں نے سچ بول ہی دیا تو اس میں بھی کیا مضائقہ۔

 آخر جھوٹ کو تو کھلنا ہوتا ہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے آؤ جنگ جنگ کھیلیں میں بھی تو کئی سچ اور کئی جھوٹ پنہاں ہیں، کبھی تو کسی بھی مقام پر تو سچ کا بگھار اگر وہ بھی بڑے صاحب کا حکم ہو تو بول دیا گیا تو بھی کیا برا کہ ہم ایشینز اس قسم کے کھیل میں انوالو تو رہے ہیں۔

اب دیکھیے کہ دنیا بھر میں بھارت کو جنگ کے حوالے سے اپنے فلمی آئٹم گانوں کی جو مار لگ رہی ہے کیا وہ عزت کا مقام ہے؟ گورے انگریزی زبان میں ہندوستانی ٹھمکوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی تمہیں اس سے کیا۔ اگر تم ایک بھی آئٹم سونگ اس طرح کا کر سکتے ہو تو تم جیتے، ویسے ہارے تو ہم بھی نہیں۔

بات شروع ہوئی تھی پاکستانی بندے سے غصہ، وہ بھی ناجائز غصہ اور ردعمل کے حوالے سے جو جنگ تک آ پہنچی، تو اس کا حل کوئی نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آئٹم سونگز کے بانی ویسے بھی ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے شوبز سے بھی رہا ہے، ہمارے اور آپ کے نوری نتھ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ ان کو فلمی انداز کے ردعمل بہت اچھے لگتے ہیں کہ جان ریمبو کی طرح ہیرو کسی تار سے لٹکتا ہوا آیا اور سر پر میزائل داغ دے اور ساری فوج کی پلٹن تلپٹ۔ کہ یہ کام صرف ریمبو انکل ہی انجام دے سکتے تھے۔

بہت سی نفرتیں، عداوتیں جنھیں سنبھال کر رکھا جاتا ہے سلگتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہو رہا ہے۔ غزہ کی سنسان سلگتی راہیں، بلکتے بچے، ترستے بزرگ اور بے چین مائیں کہ ان کی طرف کون دیکھ رہا ہے۔ دنیا شور مچا رہی تھی۔ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان، جو دل رکھتے ہیں، جن کی آنکھیں ناانصافی اور بربریت دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں، لب بول اٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

فلم تو آن ہے کہ بریک میں کچھ دیر کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی تو نقطہ ہو کہ جس پر بات کی جائے تو سلگتے ہوئے ایک نقطے کو اچھالا تو گیا تھا پر بات نہ بنی، تو پہلگام کا ایشو زور سے پھٹ ہی گیا۔ ہندو اور مسلمان سب اس کی زد میں آگئے اور بڑے بم کی آواز چھوٹے بم کی آواز میں کچھ مدھم تو ہوئی ہے پر ظلم اور خون چھپتا نہیں یہ یاد رکھنا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میرے شوہر حوالے سے رہے تھے ہیں اور رہے ہیں رہا ہے کہ لوگ ہیں کہ

پڑھیں:

حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استنبول: ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پُرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔

رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے۔یہ بات انہوں نے استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران کہی؛

اپنے خطاب میں ان انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرِ نو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس موقع پر ہمیں غزہ کے عوام تک مزید انسانی امداد پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی حکومت اس سب کو روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔

اجلاس سے ایک روز قبل ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے حماس کے وفد سے ملاقات کی تھی، جس کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے تھے۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں قتلِ عام کو ختم کرنا ضروری ہے، صرف جنگ بندی کافی نہیں ہے، انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے۔

مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غزہ پر حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے احتیاط کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • اُمید ہے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہتک عزت کے کیس میں ہمیں انصاف ملے گا: عطا تارڑ
  • ہمارا 70 فیصد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے: مصدق ملک
  • ’سب جھوٹ تھا اور ہمیں دھوکا دیا گیا‘، مادھوری ڈکشت کے شو نے لوگوں کو مایوس کیوں کردیا؟
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
  • پاکستان کے علماء کا ضمیر خریدنا آسان کام نہیں: طاہر اشرفی
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • ہمیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی دھمکی، مدارس کا کردار ختم کیا جا رہا: فضل الرحمن