پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیرکی زیرصدارت خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں خطے کی موجودہ صورت حال کا جامع جائزہ لیاگیا بالخصوص پاک بھارت کشیدگی اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر غور کیاگیا۔
کانفرنس نے پاکستان کی مسلح افواج کے کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کے خلاف ملک کی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کو برقرار رکھنے کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف نے ملک کے دفاع کے لیے آپریشنل تیاریوں اور مورال پر تمام فارمیشنز اور اسٹرٹیجک فورسز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج دفاع وطن کے لیے اپنی عوام کے ساتھ متحد ہو کر کھڑی ہیں ۔
انھوں نے تمام محاذوں پر چوکنا رہنے اور فعال تیاریوں کی اہمیت پر زور دیا۔ کانفرنس کے شرکا نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی افواج لائن آف کنٹرول کے معصوم شہریوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا مسلسل برقرار ہے۔ اس تناظر میں کورکمانڈر کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت جس طرح پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا وار چلا رہا ہے، اس سے بھارتی عزائم واضح ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھی بھارتی اشتعال انگیزی کی وجہ یہی ہے کہ بھارتی حکومت جارحیت کا جواز تلاش کر رہی ہے۔
کور کمانڈر کانفرنس کا یہ کہنا کہ ان کارروائیوں کا موثر اور مناسب جواب دیا جائے گا، بروقت اور مناسب اقدام ہے۔ کانفرنس کے شرکا نے بھارت کی جانب سے سیاسی اور فوجی مقاصد کے حصول کے لیے مستقل طور پر گھڑے جانے والے خود ساختہ بحرانوں پر تشویش کا اظہار کیا اورکہاکہ بھارت اپنی انتظامی ناکامی کو چھپانے کے لیے اندرونی مسائل کو ہمیشہ سے بیرونی رنگ دیتا رہا ہے۔
وہ یکطرفہ چالوں سے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے دوہزار انیس میں پلوامہ ڈرامہ رچا کرمقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370کی منسوخی کے ذریعے اسٹیٹس کوکو یکطرفہ طور پر تبدیل کیا۔ پہلگام واقعہ کا مقصد پاکستان کی توجہ مغربی سرحدوں اور اقتصادی بحالی کے لیے جاری کوششوں سے ہٹانا ہے کیونکہ ان دو عوامل میں پاکستان فیصلہ کن اور پائیدار ترقی کی جانب گامزن ہے۔ بھارت کو ان مذموم ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی دہشت گرد پراکسیوں کو فعال کرنے میں ناکامی ہو گی۔
پہلگام میں جو کچھ ہوا ہے، غور کرنے والا پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ کون سی قوتیں ہیں جن کو فائدہ پہنچا رہے یا پہنچ رہا ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں واضح طور پر کہا ہے کہ پہلگام واقعے کا مقصد پاکستان کی توجہ مغربی سرحدوں اور اقتصادی بحالی کے لیے جاری کوششوں سے ہٹانا ہے۔
یہ انتہائی قابل غور پہلو ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز شمال اور مغرب میں دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بھارت کشمیر اور مشرقی سرحد میں سرحدوں کو گرم کرتا ہے تو پاکستان کو اپنے مغربی باڈرز سے توجہ ہٹا کر ساری توجہ مشرقی سرحد کی جانب مبذول کرنی پڑے گی۔
جنوبی ایشیا میں موجود نان اسٹیٹ ایکٹرز، دہشت گردوں کے سرپرست، ہینڈلرز اور فنانسرز کے ساتھ ساتھ بلیک منی مافیا اور جرائم پیشہ گینگز بھی یہی چاہتے ہیں۔ یہ گروہ آرگنائزڈ اور مضبوط ریاستوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ آرگنائزڈ اور مضبوط ریاستوں کے سسٹمز میں داخل ہو کر انھیں کمزور کیا جائے اور دہشت گرد گروہوں کو استعمال کر کے ان کے درمیان جنگ کرائی جائے تاکہ ان کے غیرقانونی کاروبار اور دھندے چلتے رہیں۔
پاکستان اور بھارت کی قیادت کو ان پہلوؤں پر لازمی غور کرنا چاہیے۔ بھارت پہلگام واقعہ کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا فاش غلطی ہے۔ بھارتی پالیسی سازوں اور دیگر تھنک ٹینکس اگر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو نقصان پہنچا کر بھارت زیادہ ترقی کر لے گا یا بھارت میں امن ہو جائے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور ان کا تجزیہ غلط شواہد پر مبنی ہے۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہیں۔ درحقیقت یہ جنگ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنوبی ایشیا کے کسی اور ملک نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی طویل جنگ نہیں لڑی ہے، پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والا واحد فرنٹ لائن کنٹری ہے۔
اس لیے پاکستان کو کمزور کرنے کا مطلب دہشت گردوں کی حمایت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ پورا جنوبی ایشیا عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے میں براہ راست بھارتی فوج اور انٹیلی جنس کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد پر بھی گہری تشویش کا اظہارکیا گیا ہے اورکہاکہ ریاستی سرپرستی میں ایسے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ناقابلِ قبول ہیں۔
امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کانفرنس نے واضح کیا کہ جنگ مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کا یقینی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام کی امنگوں کا ہر قیمت پر احترام کیا جائے گا۔ شرکا کانفرنس نے کہاکہ پاکستان کے امن اور ترقی کا راستہ کسی بھی بلاواسطہ یا پراکسیز کے ذریعے پھیلائی جانے والی دہشت گردی، جبر یا جارحیت سے نہیں روکا جاسکتا۔ بھارت کی جانب سے جان بوجھ کر عدم استحکام کی کوششوں کو قومی عزم اور واضح اقدامات سے شکست دی جائے گی۔
پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں عالمی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے گزشتہ روزامریکی ٹی وی فاکس نیوزکو انٹرویو کے دوران پہلگام واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان اس معاملے پر تحقیقات میں تعاون کو تیار ہے، امید ہے کہ بھارت بھی اس واقعے پر ایسا ردعمل نہیں دے گا جو پورے خطے کو کشیدگی کی لپیٹ میں لے آئے۔
انھوں نے مزید کہا واشنگٹن چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رہے،پہلگام واقعے کا جواب احتیاط اور دانشمندی سے دیا جائے۔امریکی نائب صدر نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ دہشت گرد جو کبھی کبھار سرحد پار سے کارروائی کرتے ہیں ان سے مل کر نمٹا جائے گا۔ امریکی نائب صدر نے بھارت کو جو کچھ کہا ہے، بھارت کی قیادت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہیں اور نہ ہی دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہے اور نہ ہی وہ کسی سرحد کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے بھارتی قیادت کو بلاوجہ کی مہم جوئی سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔ ادھر پاکستانی قیادت مختلف ممالک کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے جمعہ کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے سفیروں نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں خطے کی حالیہ صورتحال، خاص طور پر پہلگام واقعے کے بعد کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم نے واضح طور پر بھارت کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتا ہے ،بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کی توجہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے ہٹائی جائے، انھوں نے برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھارت پردباؤڈالیں۔
سعودی، اماراتی اور کویتی سفیروں نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں امن و سلامتی کے لیے تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی جمعہ کو ڈنمارک، پاناماکے وزرائے خارجہ اوریورپی یونین کی نمایندہ خارجہ امور سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
انھوں نے بھارت کے اشتعال انگیز بیانیے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔وزیر خارجہ نے پہلگام واقعہ کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے لیے پاکستان کی تجویز کو دہرایا۔ نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط لکھ کراس کی فوری توجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کی طرف مبذول کرائی ہے جس سے عالمی امن اور جنوبی ایشیا کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
سلامتی کونسل کے صدرجیروم بونافونٹ کو لکھے گئے دوصفحات پر مشتمل اپنے خط میں اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے گزشتہ چند دنوں سے یکطرفہ ،سیاسی مقاصد پرمبنی کچھ ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو عالمی قانون،طے شدہ سفارتی اقدار اور دوطرفہ معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
پاکستان کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی خاصی بہتر جا رہی ہے۔ بھارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بھارتی قیادت کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ جذباتی ہونے کے بجائے ریشنلزم کا مظاہرہ کرے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ دونوں ملک مل کر دہشت گردی اور ان کے سرپرستوں کے عزائم ناکام بنائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے خلاف پہلگام واقعے جنوبی ایشیا پاکستان کی کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان ا کرتے ہوئے کہ بھارت انھوں نے بھارت کے بھارت کی کی جانب کی کوشش جائے گا کہا کہ نے کہا رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
دوحہ کانفرنس اور فیصلے
حمیداللہ بھٹی
دوحہ پرہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اِس کا واحد مقصدمشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کوسبوتاژکرناہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جوازحاصل رہیں۔ حملے کے اثرات ومضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیاکی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وجہ فیصلوں کافقدان رہا۔حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لے کر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگرایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پارہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزیدتباہ کُن ہے ۔فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتناکمزور اور بے بس ہو گا حیرت ہے۔ اسی لیے واقفانِ حال کاکہناہے قطر جوابی کارروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتاہے ۔امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک وشبہات برقرار ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدیدترین ہتھیاروں کے باوجودقطری آزادی وخود مختاری کی پامالی ہو گئی مگرامریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہرہوتی ہے ۔اسی بنا پر قطر مزید اعتمادکرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پراسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غوروخوض میں مصروف تھے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کررہے تھے ۔یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپرست امریکہ ہے اور وہ جانتاہے کہ سرپرستی سے دستکش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپناوجود کھو بیٹھیں گی ۔اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے ۔ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوںکو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی وخود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
اگر آزادی وخود مختاری کاتحفظ کرناہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کاہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبورہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روزگزرچکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کوبدستور گیس کی فراہمی جاری ہے ۔یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند وناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی ۔دنیا کے ذرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کاکنٹرول ضرور ہے۔ قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم ذریعہ موجودہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے ۔اِس کے باوجود وہ کیوں اپناموقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے ؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں ۔غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے ۔بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگرمسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اورغیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ توکیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کوکٹہرے میں لانے نیز اُسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو ۔
عربوں کی دُرگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ساراوزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہویا فضائیہ ،سب امریکی ومغربی ساختہ ہے ۔اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت ،اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یامغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متبادل کاآپشن بھی رکھیں تو حالات یکسرمختلف ہوں ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجودروسی ہتھیاربھی خریدتا ہے ۔خوش قسمتی سے چین و روس کونئے اتحادیوں کی تلاش ہے۔ اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں ذریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کوخود استعمال کرسکیںگے ۔پاکستان اورترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں ۔
قطر حملے پر پاکستان ،ترکیہ ،ملائشیااور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے توساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آذربائیجان ،پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھربھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کویواین اومیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطرپر حملے کی مذمت کرتی ہے ۔امیرترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہورہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خودکفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی
حوالے سے خود مختار ہو ں وگرنہ یادرکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔