قاہرہ تل ابیب تعلقات میں بڑھتی کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی غزہ جنگ نے علاقائی حالات کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ یہ جنگ مصر کی مشرقی سرحدوں پر ایک بار پھر ناامنی اور عدم استحکام کا باعث بنی ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 1 ہزار فلسطینی رفح کراسنگ کے ذریعے مصر میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض نے تو ایجنٹس کو 8 سے 10 ہزار ڈالر دے کر وہاں سے نجات حاصل کی ہے۔ مصر شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ غیر ملکی مہاجرین کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہذا غزہ جنگ کے آغاز سے ہی مصر حکومت نے سرکاری طور پر اعلان کر دیا تھا کہ وہ کسی فلسطینی کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ عام طور پر قاہرہ 45 روزہ ویزا جاری کرتا ہے اور یہ مدت ختم ہو جانے کے بعد آنے والے فلسطینیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ تحریر: علی حریت
مصر اور اسرائیل نے 17 ستمبر 1978ء کے دن کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان موجود سرحدی تنازعات حل ہو گئے۔ اس معاہدے میں دونوں نے ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا عہد بھی کیا تھا۔ اسی طرح اس معاہدے میں سویز کینال میں کشتی رانی جاری رہنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی اور دونوں کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعلقات بھی بحال ہو گئے تھے۔ مصر اور صیہونی رژیم کے درمیان چار جنگوں کے بعد اس معاہدے نے اچانک تمام اختلافات کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے فوراً بعد مصر کو سازباز کرنے والا ملک قرار دے دیا گیا اور وہ عرب دنیا میں گوشہ نشینی کا شکار ہو گیا۔ لیکن امریکہ نے مصر کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور سالانہ تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالی امداد فراہم کرنے کے علاوہ فوجی امداد بھی مہیا کی۔ اسی طرح واشنگٹن نے قاہرہ کے قرضے بھی معاف کر دیے۔
مصر اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان 245 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد پائی جاتی ہے جو صحرائے سینا کے شمال میں واقع سرحدی شہر رفح سے لے کر اس کے جنوب میں طابا نامی شہر تک پھیلی ہوئی ہے۔ قاہرہ نے نہ چاہتے ہوئے تل ابیب سے دوستی برداشت کی ہے اور اپنے پرانی خونی دشمن سے ہمسائیگی کے قوانین کی پابندی کی ہے۔ صدر انور سادات کے زمانے میں مصر نے حتی صحرائے سینا کے مقبوضہ علاقے کو آزاد کروانے کے لیے غیر متوقع فوجی کاروائی بھی انجام دی تھی جو "جنگ رمضان" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ انور سادات 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں ذلت آمیز شکست کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔ اس جنگ میں پہلے دن ہی مصری فوج نے صیہونی فورسز کو پیچھے دھکیل دیا۔ لیکن قسمت نے قاہرہ کا ساتھ نہ دیا اور اس جنگ میں اسے شکست ہو گئی۔ ایسی شکست جس نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا راستہ ہموار کر دیا۔
اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی غزہ جنگ نے علاقائی حالات کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ یہ جنگ مصر کی مشرقی سرحدوں پر ایک بار پھر ناامنی اور عدم استحکام کا باعث بنی ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 1 ہزار فلسطینی رفح کراسنگ کے ذریعے مصر میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض نے تو ایجنٹس کو 8 سے 10 ہزار ڈالر دے کر وہاں سے نجات حاصل کی ہے۔ مصر شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ غیر ملکی مہاجرین کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہذا غزہ جنگ کے آغاز سے ہی مصر حکومت نے سرکاری طور پر اعلان کر دیا تھا کہ وہ کسی فلسطینی کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ عام طور پر قاہرہ 45 روزہ ویزا جاری کرتا ہے اور یہ مدت ختم ہو جانے کے بعد آنے والے فلسطینیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس سال کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تاکہ غزہ پر امریکہ کا کنٹرول قائم ہو سکے۔ اسرائیل نے بھی یہ پیشکش قبول کر لی تھی۔ لیکن مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینی تحریک آزادی کے قانونی ہونے اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ قاہرہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کے خلاف ہے اور اسے ایک "غیر منصفانہ اقدام" سمجھتا ہے جو مصر کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نامعقول اور تسلط پسندانہ اقدامات نیز فلسطینی شہریوں کی جان کی پرواہ نہ کرنے پر اسرائیل کی سرزنش بھی کی۔ فروری میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں بھی مصر نے ایک بار پھر غزہ میں مقیم فلسطینیوں کی دیگر عرب ممالک منتقلی کی شدید مخالفت کا اظہار کیا۔
مصر نے گذشتہ چند ہفتوں سے تیسری فوج مضبوط بنا کر صحرائے سینا میں فوج تعینات کر رکھی ہے اور ہائی ریڈ الرٹ دے کر فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ سے فلسطینیوں کی ہر قسم کی مصر منتقلی کی روک تھام کریں۔ مصر کے وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید صقر نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ مصر آرمی مقبوضہ فلسطین سے درپیش ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ پہلے مصر کے سابق اعلی سطحی فوجی کمانڈر سمیر فرج نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مصر نے HQ9B نامی ایئر ڈیفنس سسٹم بھی چین سے خرید کر فوج کو فراہم کر دیا ہے۔ یہ سسٹم روس کے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کے برابر جانا جاتا ہے اور 300 کلومیٹر کے اندر اندر ہر فوجی پرندے کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض خبروں کے مطابق مصر نے چین سے 20 جی جنگی طیارے بھی خریدے ہیں۔
تقریباً دو ہفتے سے مصر اور چین نے وادی ابوالریش ایئربیس پر "2025 تہذیبی عقاب" نامی جنگی مشقیں شروع کر رکھی ہیں جن کا مقصد فضائی جنگ کے لیے تیاری کرنا ہے۔ ان مشقوں میں 10 جی جنگی طیارے بھی مصر کے آسمان پر دکھائی دیے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے فاش کیا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو مصر کی زمینی فوج کی سرگرمیوں سے شدید پریشان ہے اور قاہرہ کے اہداف پر تشویش پائی جاتی ہے۔ تل ابیب اس سے پہلے صحرائے سینا میں اپنے بقول غیر قانونی فوجی ڈھانچوں پر اعتراض بھی کر چکا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روشنی میں صحرائے سینا کا علاقہ فوجی سرگرمیوں سے عاری ہونا چاہیے۔ چند ہفتے پہلے نیتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات میں بھی صحرائے سینا میں مصر کی فوجی سرگرمیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ جنگ کے آغاز سے کے درمیان مصر اور کیا تھا ہے اور کر دیا دیا ہے مصر کی کے لیے مصر کے
پڑھیں:
سعودی عرب میں وزیراعظم شہباز شریف کا والہانہ استقبال، دنیا میں پاکستان کی بڑھتی اہمیت کا عکاس
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا نام بھی ان اہم عالمی رہنماؤں میں شامل ہوگیا ہے جنہیں سعودی عرب میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب میں پرتپاک استقبال، 21 توپوں کی سلامی، سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے
وزیراعظم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سرکاری دورے پر بدھ کو جب سعودی فضائی حدود میں داخل ہوئے تو جیٹ طیاروں نے ان کے جہاز کا استقبال کیا۔
کنگ خالد ایئرپورٹ پر ان کے اعزاز میں سعودی مسلح افواج کے دستے نے سلامی دی وزیراعظم کی ریاض آمد پر پورے شہر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔
#PICTURES: Crown Prince Mohammed bin Salman receives Pakistan’s Prime Minister Shehbaz Sharif at Al-Yamamah Palace in Riyadh and holds an official reception ceremony in his honor pic.twitter.com/LfaGlKMTvc
— Saudi Gazette (@Saudi_Gazette) September 17, 2025
اس موقعے پر وزیراعظم کو 21 توپوں کی سلامی اور سعودی عرب کی افواج کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔
اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، امریکی صدری ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو سعودی سرزمین پر 21 توپوں کی سلامی دی جا چکی ہے۔
مزید پڑھیے: وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب پہنچ گئے، جنگی طیاروں کی جانب سے وزیراعظم کا شاندار استقبال
اسرائیلی جارحیت اور پاک بھارت جنگ کے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر اعظم کے اس طرح کا استقبال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ استقبال نہ صرف مستقبل کا نقشہ کھینچ رہا ہے بلکہ دنیا میں پاکستان کی اہمیت بھی اجاگر کر رہا ہے۔
سابق سفیر نغمانہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ہمارا براد اسلامی ملک ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کا استقبال ایک برادر اسلامی ملک کے وزیراعظم کے شایان شان ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے طیارے کے سعودی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی سعودی فضائیہ کے جہازوں نے اُسے حفاظتی حصار میں لے لیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے طیارے سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ pic.twitter.com/lskbBqkTaH
— WE News (@WENewsPk) September 17, 2025
نغمانہ ہاشمی کا کہنا ہے کا مئی میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگ میں پاکستان نے جس طرح سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کا مظاہرہ کیا اس سے مسلم دنیا کے سر فخر سے بلند ہو گیا اور اس نے پاکستان کی اسلامی دنیا میں اہمیت بڑھا دی ہے جس کا اندازہ ہمیں اس استقبال کو دیکھ کر ہو رہا ہے۔
نغمانہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سمجھا جاتا تھا کہ بھارت کو جنگ میں اسٹریٹیجکلی اور کنوینشنل برتری حاصل ہے لیکن پاکستان نے یہ تاثر ختم کردیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بنیادی طور پر اس وقت ٹیک آف اسٹیج پر ہے اور خطے کے علاوہ بھی بڑے پیمانے پر اپنی برتری ثابت کرچکا ہے۔
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سعودی ولی عہد و وزیرِ اعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کیلئے سعودی شاہی دیوان، قصر یمامہ پہنچے. شاہی دیوان پہنچنے پر وزیرِ اعظم کا سعودی شاہی پروٹوکول کے ساتھ گھڑ سواروں نے استقبال کیا.
شاہی دیوان پہنچنے پر سعودی ولی عہد و وزیرِ اعظم شہزادہ محمد بن… pic.twitter.com/wlx40wV0lm
— PTV News (@PTVNewsOfficial) September 17, 2025
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں معاشی ڈیویلپمنٹ کا آغاز ہو رہا ہے، اس کی مارکیٹ دنیا کے لیے کھلنے جا رہی ہے اور سی پیک کا دوسرا فیز شروع ہونے جا رہا ہے جس سے افغانستان بھی کھل جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان سعودی عرب کا ہر فورم پر بھرپور ساتھ دے گا: وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد کو یقین دہانی
نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے کھل رہے ہیں اور خاص طور پر آئل اور گیس کے ساتھ منرلز اور ایگریکلچر سیکٹرز میں سعودی حکومت نے کافی حد تک دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی طاقت ہیں اور ہماری اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہوں وہاں پاکستان اپنا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے خواہ وہ ایران پر اسرائیل کا حملہ ہو، اسرائیل کی فلسطین میں جارحیت ہو یا اسرائیل کا قطر پر حملہ ہو پاکستان سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سیاسی اور عسکری طور پر اسلامی دنیا میں ایک طاقت ور ملک ہے اور سعودی عرب کے ساتھ تو ہمارا دفاعی معاہدہ بھی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کی رو سے حرمین شرفین کی حفاظت کے حوالے سے ضرورت پڑنے پر پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: قطر پر اسرائیلی حملہ: پاکستان، سعودی عرب اور ایران کی شدید مذمت
اوور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ باک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
سعودی ائر فورس کے جہازوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے جہاز کے سعودی ائر سپیس میں داخل ھوتے ھی اپنی جلو اور حفاظت میں لے لیا۔ سعودی عرب حکومت کیطرف سے برادرانہ محبت اور احترام کا مظاہرہ۔ عالم اسلام میں یہ مقام اللہ کی مہربانی، شہباز شریف کی سفارتی مہارت اور ھماری افواج کی بے مثال… pic.twitter.com/mFyWzVhdJL
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) September 17, 2025
عدنان پراچہ نے کہا کہ پاک فوج نے پاکستان کے ایشین ٹائگر ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے اس دورے سے ہمارے دفاعی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے ساتھ ہی سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھنے کے امکانات ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے اظہارِ اخوت، امدادی سامان کے 5 ٹرک پہنچ گئے
عدنان پراچہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی نئے مواقع کھلنے کے امکانات ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی دنیا میں پاکستان کی اہمیت پاکستان کی دنیا میں بڑھتی اہمیت سعودی عرب وزیراعظم پاکستان کا سعودیہ میں استقبال