غزہ میں غذائی بحران شدید، 3 لاکھ بچے موت کے دہانے پر پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی محاصرے اور امداد کی بندش کے باعث غذائی بحران خطرناک حد تک شدید ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق تقریباً 3 لاکھ بچے فاقہ کشی کا شکار ہو کر موت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ساڑھے 3 ہزار سے زائد شیر خوار بچوں کی جانیں فارمولا دودھ اور ضروری غذائیت کی عدم دستیابی کے باعث خطرے میں ہیں۔
یہ بحران اُس وقت مزید گہرا ہوا جب اسرائیل نے 2 مارچ کو ہر قسم کی امداد کی غزہ میں رسائی پر پابندی لگا دی، جو اب تک برقرار ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "غزہ کے بچوں کی حالتِ زار پر عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ ہے، اور اس انسانی بحران کی ذمہ داری پوری دنیا پر عائد ہوتی ہے۔"
ادھر دوسری جانب اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے، اور صرف آج صبح سے اب تک 40 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
نارووال (نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نےکہا ہے کہ جس جذبے سے ہماری افواج دہشت گردی کےخلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ دے رہی ہیں، ملکی معاشی بہتری کے لیے کردار ادا نہ کیا تویہ فورسز کی قربانیوں کے صلے میں ان سے زیادتی ہوگی۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا نارووال میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے، ہمیں بھرپور جذبے سے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا ہے، حکومت کی کوشش ہےکہ ملک میں بجلی، گیس اور توانائی کے بحران پر قابو پائیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمیں حکومت ملی تھی تو اُس وقت معیشت سمیت تمام شعبہ جات تباہ حال تھے، رفتہ رفتہ ان سب میں بہتری آرہی ہے۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ معشیت بہتر ہوتے ہی بجلی کے شعبے میں نرخوں میں کمی کو ممکن بنائیں گے، گیس کی قیمتیں بھی کم کرنا ہوں گی۔ساتھ ہی وزیراعظم اور حکومت کی خواہش ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی لائیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس چوری کے خلاف ہم سب کو مل کر جہاد کرنا ہوگا۔
جو لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اُن کی زمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ٹیکس چوروں کی نشاندہی کریں، اگر ٹیکس چوری نہیں رکے گی تو تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ بڑھے گا۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے بغیر حکومت ترقیاتی کام نہیں کر سکتی، حکومت کے پاس پیسے چھاپنے کی کوئی مشین نہیں ہوتی، ٹیکس سے ہی ترقیاتی اور دیگر کام کرنے ہوتے ہیں، پاکستان میں اس وقت ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.5 ہے، ہمارے جیسے دیگر ممالک میں یہ شرح 16 سے 18 فیصد تک ہے۔