بیٹے کو ایک صوبائی ادار ے میں سات سال تک دیہاڑی دار ملازمت پر رکھ کر… اورآج کل کے مستقل کرنے کے لارے دے کر بیک بینی ودوگوش نکال دیاگیا تو گھر میں منہ لٹکائے آگیا ، دیہاڑی دار ہونے کی وجہ سے خالی ہاتھ ، جیسے سکندر دنیا سے گیا تھا ، شاید نئے منتخب شہنشاہوںکو نوازنے اوردسترخوان خالی کرنے کے لیے۔
ماتم کے دن گزرگئے تو ہم نے اس سے کہا کہ کہیں اورکسی اور محکمے میں ڈھونڈو، شاید کہیں اپنا یہ منحوس چہرا اورسڑا بھسا نام کام دے جائے ۔ہمیں ابھی تک یہ غلط فہمی یاخوش فہمی لاحق تھی کہ کچھ ’’بڑے لوگ‘‘ ہمیں جانتے ہیں اورقدرکرتے ہیں حالانکہ بارہا یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ہم تو ان کو جانتے ہیں لیکن وہ ہمیں ذرہ بھر بھی نہیں جانتے … لیکن خوش فہیوں کاکیا کریں کہ یہی تو ہماری زندگی کے سہارے ہیں ، انسان شاید دوسروں کو اتنی کامیابی سے دھوکہ نہیں دے پاتا جتنا خود کو دھوکہ دیتا ہے۔
ایک دومحکموں میں جگہیں نکل آنے کا سنا تو میں نے اسے ہدایت کی کہ جاکر معلومات اور طریقہ کار وغیرہ معلوم کر آؤ۔ خاص طور پر بڑوں یا بااختیاروں کے بارے میں پتہ لگاؤ کہ کس ذریعے سے رام کیے جاسکتے ہیں ۔چند روز بعد آکر بولا ، سب کچھ معلوم کرآیا ہوں۔لیکن وہ جانکاریاں الفاظ کی بجائے ہندسوں میں تھیں ، ایک جاب کی ساری شرائط ،طریقہ کار اورویئر اباوٹ تھا’’اسی لاکھ‘‘ اوردوسری پوسٹ کا تھا پچاس لاکھ۔
افسروں کے بارے میں پوچھا تو بولا کہ صرف ایک ہستی کی مانتے ہیں اوروہ ہستی ہے، حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ۔
اب آپ ہی بتائیں کہ ہم ’’صفر صفر صفر‘‘ لوگ ہندسے کیسے بن سکتے ہیں ہم تو جدی پشتی صفر تھے صفر ہیں اورہمیشہ ہمیشہ صفر رہنے کا پکایقین ہے۔ صفر دوسرے ہندسوں کی قیمت تو بڑھا سکتے ہیں لیکن خود اپنی قیمت پیدا نہیں کرسکتے ۔صفر کو آپ کچھ بھی کریں کسی بھی جگہ کسی بھی رنگ میں یا سائز میں لکھیں صفر ہی رہے گا، اسے بڑا بڑا لکھیں، چھوٹا چھوٹا لکھیں، اوپرنیچے، آگے پیچھے، دائیں بائیں کسی بھی طرف سے دیکھیں اسے اٹھائیں گرائیں بٹھائیں لٹائیں لڑ ھکائیں اوپر اچھالیں یا نیچے گراکر اس کے اوپر کو دیں۔ ہمیشہ صفر صفر ہی رہے گا اورصفر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا یا بنے گا۔
صفر کی ایجاد کے مدعی بے شمار ہیں لیکن ہند والے زیادہ بڑے مدعی ہیں اور ہندوؤں کا یہ دعویٰ سچا بھی لگتا ہے کہ ایسی اسٹوپڈ چیزوں کی توقع ایسے ہی اسٹوپڈ لوگوں سے کی جا سکتی ہے۔دنیا جہاں سے رنگ برنگے سکے ہندسے اورسکے بلکہ ’’سقے‘‘ بھی آتے ہیں اوریہ ان سب کے ساتھ ہوکر انھیں راجہ مہاراجہ شاہ و شہنشاہ بنا دیتے ہیں اوراس کے گرد ناچ ناچ کر اس کی قیمت بڑھاتے ہیں، خود کبھی کہیں نہیں گئے ہیں کہ صفر کہیں بھی جائے، چاہے آسمان کا آفتاب مہتاب اورستارہ ہی کیوں نہ بن جائے ،اپنی چمک سے دوسروں کو چمکاتے ہیں اورخود وہ اپنا سا…کالاسا منہ لے کر رہتے ہیں ،صفر اینڈ صفر اینڈ صفر۔
ہندسوں کی بے مثال لازوال اور باکمال ’’صفریت‘‘اصفریت، صفوریت اورصفاریت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جہاں کہیں کوئی ’’ہندسہ‘‘ پاتے ہیں، اسے ہند میں لاکر چمکاتے بڑھاتے اورہندیاتے رہتے ہیں ، باقی دیوی دیوتاؤں ہیرؤں اوریودھاؤں کو تو چھوڑئیے کہ گوتم بدھ وغیرہ کو بھی نہ جانے کہاں سے لاکر ’’ہندیایا‘‘ بلکہ ہندسیایا کرچکے ہیں ۔
دنیا میں جتنی کہاوتیں اوراقوال ہیں وہ کبیر میں اورآج کل گاندھی میں بھرتے ہیں ۔گاندھی کا چرخا، گاندھی کی لاٹھی ، گاندھی کے تین بندر ، گاندھی کے دو ہاتھی گاندھی کے چار کتے اورگاندھی کی یہ اور وہ وہ ۔
پچھلے دنوں آج کل کے مشہور’’صفر‘‘ مودی نے کہا تھا کہ سرجری کی ابتدابھارت سے ہوئی ہے کہ شیوجی مہاراج نے پہلے اپنے بیٹے کا سرکاٹ لیا اورپھر اسے ہاتھی کا سرلگایا۔ ایک اورمورخ اور محقق نے لکھا ہے کہ ہوائی جہاز کو ’’کوبیر‘‘ نامی سائنس دان نے پہلی بار ایجاد کیاتھا جس پر اضافہ کرکے ہنومان نے سہیلی کا پیڑ ایجاد کیا تھا جس پر لکشمن کے علاج کے لیے وہ ایک پورے پہاڑ کو لاد کر لے آیا تھا جس پر سنجیونی بوٹی تھی ۔
مجھے ایک مرتبہ جب میں بھارت گیا تو ایک ہندی نے بتایا کہ گاندھی جی کاقول ہے کہ جب ’’بلی‘‘ بھی گھر جاتی ہے تو پنجہ مار کر بھیڑئیے کی آنکھ لیتی ہے۔میں نے اسے کہاکہ کمال ہے ٹھیک یہی بات شیخ سعدی نے بھی کہی ہے کہ
ندیدی کہ چوں گر بہ عاجز شود
برآرد بہ جنگال چشم پلنگ
لگتا ہے شیخ سعدی نے یہ بات گاندھی سے چرائی ہے ۔
بات کہاں اورکس جانب لڑھک گئی ، یہی تو ہم صفر صفر لوگوں کاالمیہ ہے کہ کسی بھی طرف لڑھک کر کسی ہندسے کے ساتھ ہوجاتے ہیں ،اصل بات تو میں نے اپنے بیٹے صفر ابن صفر ابن صفر کی شروع میں کی تھی جس کی نوکری سات سال ایک بلیک بورڈ پر ہندسوں اورہند سوالوں کی صحبت میں ان کے آگے پیچھے ہوکر ہندسہ نہیں بن پائی اورصفر ہوکر اپنے صفرستان میں واپس آگئی تھی اورہم ہزاربار منہ کی کھا کر بھی ہندسوں کے اس بے پناہ ہجوم میں ان کے آگے پیچھے ہورہے کہ شاید شاید شاید … جب کہ ہمیں بھی اچھی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ اس شاید کے آگے بھی ہمارا نصیب صرف ’’صفر‘‘ ہی ہے
جس نے سو باردل کو لوٹا ہے
ہم ابھی تک ہیں اس کے دیوانے
ان کو کوئی بھی کچھ نہیں کہتا
لوگ آتے ہیں مجھ کو سمجھانے
ایک انصاف دار سے ہم نے پوچھا یہ کہاں کاانصاف ہے کہ ایک شخص کو سات وعدوں پر لٹکائے رکھو اورپھر اسے کہو معاف کروبابا
تو اس نے کہا یہ وہاں کا انصاف ہے جہاں ہرطرف انصاف ہی انصاف ہے ٹھیک صفر کی طرح۔
ترے وعدے پر کہاں تک میرادل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تاریخ گواہ ہے افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا ہے.افغان وزارت خارجہ
کابل/لندن/بیجنگ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر ۔2025 )افغانستان کی طالبان حکومت نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کی بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا ہے.(جاری ہے)
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان نے بریفنگ کے دوران ٹرمپ کے بیان پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چین افغانستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے لی جیان نے کہا کہ افغانستان کا مستقبل افغان عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے ہمارا موقف ہے کہ علاقائی کشیدگی کو بڑھاوا دینے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا انہوں نے کہاکہ متعلقہ فریق علاقائی استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس کی اہلیت رکھتے ہیں.
برطانوی‘چینی اور امریکی اداروں نے رپورٹس میں بتایا ہے کہ افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار ذاکر جلالی نے ”ایکس“ پر ایک بیان میں کہا کہ دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا ذاکر جلالی نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان کے کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی برقرار رکھے بغیرافغانستان اور امریکہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں. افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو چین کے نزدیک واقع اس فوجی اڈے کی ضرورت ہے یہ بات برطانیہ کے اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ہمرار مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کی تھی. پریس کانفرنس کے دوران”دی اکانومسٹ“ نے صدر ٹرمپ سے روس اور یوکرین کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کی بابت سوال پوچھا جس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بلواسطہ طور پر سابق بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روس کی نظر میں اگر امریکی قیادت کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ یوکرین پر حملہ کبھی نہ کرتا. پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ انہیں بریکنگ نیوز دے رہے ہیں کہ ہم افغانستان کے بگرام ایئر بیس کو واپس لینے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں یہ آپ کے لیے بریکنگ نیوز ہو سکتی ہے ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس فوجی اڈے کو واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بگرام چین کے جوہری ہتھیار بنانے کے مقام سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے. افغانستان میں موجود بگرام فوجی اڈے کا شمار امریکہ کے دنیا بھر میں قائم بڑے فوجی اڈوں میں ہوتا تھا جسے 2021 میں امریکا نے خالی کر دیا تھا یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب ٹرمپ نے بگرام اییر بیس کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے اسے دوبارہ حاصل کرنا کی بات کی ہے اس سے قبل صدارت سنھبالنے کے اپنی کابینہ کے ساتھ پہلی میٹنگ کے پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے بگرام کا اڈہ خالی کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں بگرام فوجی اڈہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا. بگرام میں یہ فوجی اڈا سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں قائم کیا تھا بگرام 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران سوویت افواج کا انتہائی اہم اڈہ سمجھا جاتا تھا امریکی افواج دسمبر 2001 میں اس اڈے میں داخل ہوئیں اور یہاں قابض ہو گئیں یہ فوجی مرکز 77 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس میں موجود بیرکس اور رہائش گاہیں ایک وقت میں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لیے رہائشی سہولیات موجو د ہیں بگرام کے دو رن ویز میں سے ایک اڑھائی کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے ‘بگرام کے رن ویزکو دنیا کے مضبوط ترین رن ویزمیں شمار کیا جاتا ہے.