Juraat:
2025-05-08@11:54:21 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

حمیداللہ بھٹی

ایشیا جیسا گنجان آباد خطہ چار جوہری طاقتوں کی وجہ سے بارودکے ڈھیرپر ہے۔ چاروں جوہری طاقتوں روس ،چین ،بھارت کو ہمسایہ ممالک کہہ سکتے ہیں۔دنیا میں اور کوئی ایسا براعظم نہیں جہاں اکٹھی چارجوہری طاقتیں ہوں ۔اِس حساسیت کاتقاضاہے کہ جو باہمی مسائل کاحل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیاجائے لیکن اِس میں بھارت کا جارحانہ رویہ رکاوٹ ہے ۔اُس نے پُرامن بقائے باہمی کے بجائے مسائل حل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ اسی وجہ سے تقسیم ہند سے لیکرہنوزمسائل برقرارہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پرصرف ہو جاتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بار بار تنائو کی کیفیت پیداہوتی رہتی ہے۔ افسوس عالمی طاقتوں نے بھی تنائو میں کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ جب سے چین کی معاشی ترقی نے طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا ہے تو چین سمیت اُس کے اتحادیوں کو خطرات میں دھکیلا جانے لگا ہے۔ بھارت جیساسازشی اور مکار ملک پیداشدہ حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی طاقتوںکاخطے میں نیامُہرہ ہے جس سے جنوبی ایشیاکی دوارب آبادی کے لیے خطرات میں اضافہ اورترقی کی راہیں مسدود ہورہی ہیں ۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا جیسے خطے کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ تمام شہریوں کے لیے ترقی کے مواقع یکساں نہیں دے پارہا ۔امیر امیر تراور غریب غریب ترہوتاجارہا ہے ۔اگر سارک ممالک اپنے اختلافات کو جنگوں کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں تو دفاعی تیاریوں پر اُٹھنے والے اربوں کے اخراجات عام آدمی کی بہتری پر صرف ہوں گے ۔اِس طرح شہریوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع پیداہوسکتے ہیں۔
22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس کی پاکستان نے فوری مذمت کی کیونکہ دہشت گردی انسانی ترقی کی دشمن ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی قیادت کو اگر کوئی شک تھا تو حکومتی سطح پررابطہ کرتی اورملوث لوگوں کوبے نقاب کرنے کے لیے مددطلب کرتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایسا تاثر دینا شروع کردیا کہ اِس میں پاکستان ملوث ہے ۔ذرائع ابلاغ کی دیکھادیکھی بھارتی حکومت بھی طفلانہ رویہ اخیتارکرتی گئی اور پاکستان کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کردیا جب کہ شواہد سے ظاہر تھا کہ پہلگام واقعہ میں بیرونی نہیں اندرونی ہاتھ ہے کیونکہ سرحد سے میلوں دورسیاحتی مقام پررا جیسی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی اور بھارتی سیکورٹی اِداروں کی سہولت کاری کے بغیرنشانہ بنانا تودرکنارپہنچنابھی ممکن نہ تھا۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ کہ دہشت گردی کے صرف دس منٹ بعد ہی مقدمہ درج کرناہے ۔حالانکہ اِتنے قلیل وقت میں جائے وقوعہ سے تھانہ پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ مگر یہاں دس منٹ میں مدعی تھانہ پہنچ کر درخواست لکھتاہے اور مقدمہ بھی درج ہوجاتاہے۔ اسی بناپر قیاس ہے کہ جو بھی ہوا سب طے شدہ منصوبے کے مطابق ہواہے ۔اب حقائق عیاں ہونے کے ڈر سے بھارت مذاکرات اور مشترکہ تحقیقات کی طرف نہیں آرہااور جنگ کا ماحول بنارہا ہے ۔لیکن اِس طرح دوارب آبادی کی خوشحالی کو دائوپر لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے ۔وہ تمام دستیاب وسائل سے اِس ناسور کی سرکوبی میں مصروف ہے مگر ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسندگروپوں کو بھارت کی طرف سے ملنے والی تربیت ،ہتھیاراور مالی معاونت سے ہنوز مکمل طورپر کامیاب نہیں ہورہا۔ بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی را کا سابق چیف اجیت ڈوول خود ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا اعتراف کرتاہے ۔اِس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دار،امن پسنداور باوقار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے تاکہ خطہ جنگ سے محفوظ رہے ۔حال ہی میں جعفر ایکسپریس جیسے خونی واقعے میں درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے جس کی تحقیقات میںسیکورٹی اِداروں کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے جن سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردوں نے بیرونی معاونت سے یہ کارروائی کی ۔شواہد کے باوجود پاکستان نے خطے کے امن کو ترجیح دی۔ حالانکہ پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر بھارت جس تصادم کاخواہشمند ہے اُس سے صرف پاکستان نہیں وہ خود بھی متاثر ہوگا۔
پہلگام دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان مشترکہ بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی غیر جانبدار ذریعے سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کر چکاہے لیکن بھارت نے ہنوز کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا اور جارحانہ موڈ میں ہے۔ اُس پر بری،بحری اور فضائی طاقت کابھوت سوار ہے۔ حالانکہ ماضی میں کئی بار ثابت ہو چکا کہ عددی قوت پر انحصار کرنے والی طاقتیں راہ فرار پر مجبورہوئیں۔ روس کاخیال تھا کہ یوکرینی افواج کو چند روز میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور اور ملک پر قبضہ کر لے گا۔ مگر تین برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بھارت تو روس جتنی فوجی طاقت بھی نہیں رکھتااور یوکرین و پاکستان کی دفاعی طاقت میں بھی زمین آسمان کافرق ہے، نیز پاکستان جوہری طاقت ہے جس طرح بالاکوٹ فضائی حملے میں بھارت کوہزیمت سے دوچار کیا۔29 اور30 اپریل کی شب امبالا سے اُڑنے والے چاروں رافیل طیاروں کابروقت سراغ لگاکر ریڈارجام اور بھاگنے پر مجبورکرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اسی بناپربھارتی عوام اورکئی فوجی عہدیدار بھی مودی طرزِ عمل کے ناقد اور جنگ کرنے سے بازرہنے کے مشورے دینے لگے ہیں جس کی پاداش میں اعلیٰ فوجی آفیسروں کے تبادلے ، تادیبی کارروائیاں اور گرفتاریاں بھی ہوئیںپھر بھی نہ سمجھنے سے ایسا لگتا ہے بڑے سیاسی عہدوں پر چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہیں۔ بھارت کوروس مذاکرات کی ہدایت کرچکا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری انتونیوگوتریس بات چیت میں مددکی پیشکش کرچکے۔ یورپی ممالک نے بھی بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جواب میں وزیرِ خارجہ جے شنکر کہتے ہیںہمیں نصیحت نہیں شراکت داروں کی تلاش ہے، جسے خطے کوجنگ میں جھونکنے کی دانستہ کوشش کہہ سکتے ہیں۔
ثبوت کے بغیر پاکستان نے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔کیونکہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں سے مودی کی ملاقاتوںسے ابہام نہیں رہا کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا سکتاہے مگر حملہ ہوتا ہے توروایتی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یقینی ہے ۔یوں ہونے والی تباہی دوممالک تک محدودنہیں رہے گی پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کی تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اِس بار دفاعی اقدامات تک محدود رہنے کی بجائے ہمیشہ کے لیے آبی جارحیت کے امکانات ختم کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کُن نتائج حاصل کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ اِس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت یکسونظر آتی ہیں لیکن پاک بھارت حکومتوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی ترقی امن کی بدولت ہے ۔جنگیں انسانی جان کی دشمن ہیں ۔یہ وسائل ہڑپ کرتی ہیں ۔تصفیہ طلب مسائل کاآبرومندانہ حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے ۔جنگ سے نہیں اور معاشی ترقی کے لیے امن ناگزیرہے۔
پس تحریر: عسکری بریفنگ میں تو میاں شہبازشریف،بلاول بھٹو،وزیرِ دفاع خواجہ آصف،مولانافضل الرحمٰن سمیت سب غائب تھے ، تحریکِ انصاف کی عدم شرکت ہی ہدفِ تنقید کیوں؟مودی نے تواپوزیشن لیڈرراہول گاندھی سے ملنے میں عارنہیں سمجھی تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟سرحدوں پر تنائو کے حالات میں وفاقی وزراکی تنخواہ دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ اُنیس ہزار کرنے کے فیصلے سے کیا حملہ رُک جائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان نے جوہری طاقت کرنے کے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

گورنرسندھ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد کی ملاقات

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مئی2025ء)گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری سے ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں صوبائی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل وفد نے گورنرہائوس میں ملاقات کی ۔

(جاری ہے)

اراکین اسمبلی نے اپنے اپنے حلقوں کے عوامی مسائل اور مختلف تجاویز سے قیادت کو آگاہ کیا۔ گورنر سندھ نے مسائل کے حل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ ملاقات میں اراکینِ اسمبلی کی جانب سے دی گئی مؤثر تجاویز کو زیر غور لانے پر اتفاق کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا پاکستان کیخلاف اسرائیلی ساختہ ڈرون کا استعمال لیکن یہ کیا صلاحیت رکھتا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • بھارت میں فضائی حادثات میں اضافہ، ہیلی کاپٹر حادثےکے نتیجے میں 4 افراد ہلاک
  • حنا الطاف نے عوام سے تماشائی بننے والے بھارتی فنکاروں کو اَن فالو کرنے کی گزارش کردی
  • ’ہم نے اسٹار بنایا اور یہ انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں‘، نادیہ خان پاکستانی اسٹارز پر برس پڑیں
  • ’پاکستان نے جارحیت میں کبھی پہل نہیں کی لیکن اپنے دفاع کیلئے جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے‘
  • پی ٹی آئی مخصوص نشستیں؛ درخواستیں مسترد کرنے والے ججز بینچ میں نہیں بیٹھیں گے لیکن فیصلہ شمار ہوگا؛ آئینی ماہرین
  • ہم اسٹیبلشمنٹ کیخلاف ہیں نہ ہمارا کوئی جھگڑا ہے، علی امین گنڈاپور
  • یہ بیانیہ غلط ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں یا ہمارا کوئی جھگڑا ہے، علی امین گنڈا پور
  • گورنرسندھ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد کی ملاقات