Juraat:
2025-08-07@20:01:00 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

حمیداللہ بھٹی

ایشیا جیسا گنجان آباد خطہ چار جوہری طاقتوں کی وجہ سے بارودکے ڈھیرپر ہے۔ چاروں جوہری طاقتوں روس ،چین ،بھارت کو ہمسایہ ممالک کہہ سکتے ہیں۔دنیا میں اور کوئی ایسا براعظم نہیں جہاں اکٹھی چارجوہری طاقتیں ہوں ۔اِس حساسیت کاتقاضاہے کہ جو باہمی مسائل کاحل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیاجائے لیکن اِس میں بھارت کا جارحانہ رویہ رکاوٹ ہے ۔اُس نے پُرامن بقائے باہمی کے بجائے مسائل حل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ اسی وجہ سے تقسیم ہند سے لیکرہنوزمسائل برقرارہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پرصرف ہو جاتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بار بار تنائو کی کیفیت پیداہوتی رہتی ہے۔ افسوس عالمی طاقتوں نے بھی تنائو میں کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ جب سے چین کی معاشی ترقی نے طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا ہے تو چین سمیت اُس کے اتحادیوں کو خطرات میں دھکیلا جانے لگا ہے۔ بھارت جیساسازشی اور مکار ملک پیداشدہ حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی طاقتوںکاخطے میں نیامُہرہ ہے جس سے جنوبی ایشیاکی دوارب آبادی کے لیے خطرات میں اضافہ اورترقی کی راہیں مسدود ہورہی ہیں ۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا جیسے خطے کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ تمام شہریوں کے لیے ترقی کے مواقع یکساں نہیں دے پارہا ۔امیر امیر تراور غریب غریب ترہوتاجارہا ہے ۔اگر سارک ممالک اپنے اختلافات کو جنگوں کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں تو دفاعی تیاریوں پر اُٹھنے والے اربوں کے اخراجات عام آدمی کی بہتری پر صرف ہوں گے ۔اِس طرح شہریوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع پیداہوسکتے ہیں۔
22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس کی پاکستان نے فوری مذمت کی کیونکہ دہشت گردی انسانی ترقی کی دشمن ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی قیادت کو اگر کوئی شک تھا تو حکومتی سطح پررابطہ کرتی اورملوث لوگوں کوبے نقاب کرنے کے لیے مددطلب کرتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایسا تاثر دینا شروع کردیا کہ اِس میں پاکستان ملوث ہے ۔ذرائع ابلاغ کی دیکھادیکھی بھارتی حکومت بھی طفلانہ رویہ اخیتارکرتی گئی اور پاکستان کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کردیا جب کہ شواہد سے ظاہر تھا کہ پہلگام واقعہ میں بیرونی نہیں اندرونی ہاتھ ہے کیونکہ سرحد سے میلوں دورسیاحتی مقام پررا جیسی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی اور بھارتی سیکورٹی اِداروں کی سہولت کاری کے بغیرنشانہ بنانا تودرکنارپہنچنابھی ممکن نہ تھا۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ کہ دہشت گردی کے صرف دس منٹ بعد ہی مقدمہ درج کرناہے ۔حالانکہ اِتنے قلیل وقت میں جائے وقوعہ سے تھانہ پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ مگر یہاں دس منٹ میں مدعی تھانہ پہنچ کر درخواست لکھتاہے اور مقدمہ بھی درج ہوجاتاہے۔ اسی بناپر قیاس ہے کہ جو بھی ہوا سب طے شدہ منصوبے کے مطابق ہواہے ۔اب حقائق عیاں ہونے کے ڈر سے بھارت مذاکرات اور مشترکہ تحقیقات کی طرف نہیں آرہااور جنگ کا ماحول بنارہا ہے ۔لیکن اِس طرح دوارب آبادی کی خوشحالی کو دائوپر لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے ۔وہ تمام دستیاب وسائل سے اِس ناسور کی سرکوبی میں مصروف ہے مگر ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسندگروپوں کو بھارت کی طرف سے ملنے والی تربیت ،ہتھیاراور مالی معاونت سے ہنوز مکمل طورپر کامیاب نہیں ہورہا۔ بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی را کا سابق چیف اجیت ڈوول خود ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا اعتراف کرتاہے ۔اِس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دار،امن پسنداور باوقار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے تاکہ خطہ جنگ سے محفوظ رہے ۔حال ہی میں جعفر ایکسپریس جیسے خونی واقعے میں درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے جس کی تحقیقات میںسیکورٹی اِداروں کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے جن سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردوں نے بیرونی معاونت سے یہ کارروائی کی ۔شواہد کے باوجود پاکستان نے خطے کے امن کو ترجیح دی۔ حالانکہ پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر بھارت جس تصادم کاخواہشمند ہے اُس سے صرف پاکستان نہیں وہ خود بھی متاثر ہوگا۔
پہلگام دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان مشترکہ بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی غیر جانبدار ذریعے سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کر چکاہے لیکن بھارت نے ہنوز کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا اور جارحانہ موڈ میں ہے۔ اُس پر بری،بحری اور فضائی طاقت کابھوت سوار ہے۔ حالانکہ ماضی میں کئی بار ثابت ہو چکا کہ عددی قوت پر انحصار کرنے والی طاقتیں راہ فرار پر مجبورہوئیں۔ روس کاخیال تھا کہ یوکرینی افواج کو چند روز میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور اور ملک پر قبضہ کر لے گا۔ مگر تین برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بھارت تو روس جتنی فوجی طاقت بھی نہیں رکھتااور یوکرین و پاکستان کی دفاعی طاقت میں بھی زمین آسمان کافرق ہے، نیز پاکستان جوہری طاقت ہے جس طرح بالاکوٹ فضائی حملے میں بھارت کوہزیمت سے دوچار کیا۔29 اور30 اپریل کی شب امبالا سے اُڑنے والے چاروں رافیل طیاروں کابروقت سراغ لگاکر ریڈارجام اور بھاگنے پر مجبورکرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اسی بناپربھارتی عوام اورکئی فوجی عہدیدار بھی مودی طرزِ عمل کے ناقد اور جنگ کرنے سے بازرہنے کے مشورے دینے لگے ہیں جس کی پاداش میں اعلیٰ فوجی آفیسروں کے تبادلے ، تادیبی کارروائیاں اور گرفتاریاں بھی ہوئیںپھر بھی نہ سمجھنے سے ایسا لگتا ہے بڑے سیاسی عہدوں پر چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہیں۔ بھارت کوروس مذاکرات کی ہدایت کرچکا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری انتونیوگوتریس بات چیت میں مددکی پیشکش کرچکے۔ یورپی ممالک نے بھی بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جواب میں وزیرِ خارجہ جے شنکر کہتے ہیںہمیں نصیحت نہیں شراکت داروں کی تلاش ہے، جسے خطے کوجنگ میں جھونکنے کی دانستہ کوشش کہہ سکتے ہیں۔
ثبوت کے بغیر پاکستان نے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔کیونکہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں سے مودی کی ملاقاتوںسے ابہام نہیں رہا کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا سکتاہے مگر حملہ ہوتا ہے توروایتی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یقینی ہے ۔یوں ہونے والی تباہی دوممالک تک محدودنہیں رہے گی پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کی تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اِس بار دفاعی اقدامات تک محدود رہنے کی بجائے ہمیشہ کے لیے آبی جارحیت کے امکانات ختم کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کُن نتائج حاصل کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ اِس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت یکسونظر آتی ہیں لیکن پاک بھارت حکومتوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی ترقی امن کی بدولت ہے ۔جنگیں انسانی جان کی دشمن ہیں ۔یہ وسائل ہڑپ کرتی ہیں ۔تصفیہ طلب مسائل کاآبرومندانہ حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے ۔جنگ سے نہیں اور معاشی ترقی کے لیے امن ناگزیرہے۔
پس تحریر: عسکری بریفنگ میں تو میاں شہبازشریف،بلاول بھٹو،وزیرِ دفاع خواجہ آصف،مولانافضل الرحمٰن سمیت سب غائب تھے ، تحریکِ انصاف کی عدم شرکت ہی ہدفِ تنقید کیوں؟مودی نے تواپوزیشن لیڈرراہول گاندھی سے ملنے میں عارنہیں سمجھی تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟سرحدوں پر تنائو کے حالات میں وفاقی وزراکی تنخواہ دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ اُنیس ہزار کرنے کے فیصلے سے کیا حملہ رُک جائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان نے جوہری طاقت کرنے کے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

خشکی میں گھرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہیں، یو این

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اگست 2025ء) اقوام متحدہ نے خشکی میں گھرے ممالک کی تیسری کانفرنس (ایل ایل ڈی سی 3) میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ممالک کے 60 کروڑ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔

ترکمانستان کے شہر آوازا میں کل شروع ہونے والی کانفرنس کے پارلیمانی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی حکام کا کہنا تھا کہ ایک دہائی پر محیط ترقیاتی منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی عزم کے ساتھ قومی سطح پر قانون سازی بھی ازحد ضروری ہے۔

Tweet URL

دنیا میں 32 ممالک مکمل طور پر خشکی سے گھرے ہیں جن کی مجموعی آبادی 50 کروڑ سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

ان میں متعدد کا شمار کم ترین ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے جنہیں نقل و حمل کے بھاری اخراجات، منڈیوں تک محدود رسائی اور موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے مضبوط بنیادی ڈھانچہ اور بہتر ربط کی خاص اہمیت ہے جس سے تجارت اور ان ممالک کو عالمی منڈیوں سے جڑنے میں سہولت ملے گی۔ 'ایل ایل ڈی سی 3' کا مقصد مشمولہ اور پائیدار ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے عالمگیر شراکتوں کو فروغ دینا ہے۔

خشکی میں گھرے ممالک کے مسائل

'ایل ایل ڈی سی' کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی نمائندہ رباب فاطمہ نے کہا ہے کہ ان ممالک کے مسائل نے محض بندرگاہوں سے دوری کے باعث جنم نہیں لیا بلکہ محدود بنیادی ڈھانچہ اور درآمدی بنیاد کے ساتھ مالی وسائل تک رسائی کا فقدان بھی اس کا بڑا سبب ہے۔

دنیا کی 7 فیصد آبادی کا تعلق انہی ممالک سے ہے لیکن عالمی جی ڈی پی میں ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہوتا ہے۔

ساحلی ممالک کے مقابلے میں انہیں تجارت پر 30 فیصد زیادہ اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ ان ممالک کی صرف 61 فیصد آبادی کو بجلی تک رسائی ہے جبکہ اس حوالے سے عالمگیر اوسط 92 فیصد ہے۔ اسی طرح، خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک کی صرف 40 فیصد آبادی کو ہی انٹرنیٹ میسر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ محض اعدادوشمار ہی نہیں بلکہ ان سے حقیقی انسانی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔

قانون ساز اداروں کا کردار

رباب فاطمہ نے 'آوازا پروگرام آف ایکشن' کو ایک سنگ میل اور بنیادی محرومیوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کا واضح لائحہ عمل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات درکار ہیں۔

اس ضمن میں ان ممالک کے قانون ساز اداروں کا فیصلہ کن کردار ہو گا۔ ارکان پارلیمنٹ کو اپنی قومی حکمت عملی اس پروگرام سے ہم آہنگ کرنا ہو گی۔

انہیں مالی وسائل کا حصول ممکن بنانا اور تجارت و باہمی جڑت کو فروغ دینا ہو گا۔ علاوہ ازیں، اس مقصد کے لیے بہتر انتظام اور پروگرام پر عملدرآمد کے لیے پارلیمانی گروہ بھی تشکیل دینا ہوں گے۔

انہوں نے 'ایل ایل ڈی سی' کے ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آوازا پروگرام سے 60 کروڑ لوگوں کی خاطر ٹھوس اور پائیدار نتائج حاصل کرنے کے لیے ان کا قائدانہ کردار بہت ضروری ہے۔

UN Photo/Eskinder Debebe کانفرنس کے استقبالیہ کا ایک منظر۔

بین الپارلیمانی تعاون

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے ان کے پیغام کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ عالمگیر وعدوں کو ملکی سطح پر قابل پیمائش ترقی میں تبدیل کرنے کے لیے قانون ساز اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ ادارے بنیادی ڈھانچے، اختراع اور تجارت جیسے شعبوں میں ترقی کے لیے قانونی طریقہ کار مہیا کرتے ہیں اور تعلیم، صحت اور موسمیاتی اقدامات جیسے اہم شعبوں میں اقدامات کے لیے مالی وسائل انہی کے ذریعے مہیا ہوتے ہیں۔

فائلیمن یانگ نے ماحولیاتی ذمہ داری کی ہنگامی اہمیت پر بات کرتے ہوئے گزشتہ مہینے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی مشاورتی رائے کا حوالہ دیا جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ موسمیاتی اقدامات تمام ممالک کی قانونی ذمہ داری ہیں۔

فائلیمن یانگ نے کہا کہ قانون ساز ادارے حکومتوں کی کارکردگی پر نظر رکھتے اور سرکاری وسائل کا موثر استعمال یقینی بناتے ہیں۔

ان کا کام پالیسی اور بجٹ تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ ریاست اور شہریوں کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے ایل ایل ڈی سی کو درپیش مخصوص اور مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر بین پارلیمان مضبوط تعاون پر زور دیا اور کہا کہ دنیا بھر کے لوگوں کی پارلیمنٹ کی حیثیت سے جنرل اسمبلی ایل ایل ڈی سی کے مسائل عالمی ترقیاتی ایجنڈے پر برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کو پیشکش ہوتی رہی ہے لیکن وہ شرائط پر تیار نہیں: سہیل وڑائچ 
  • آئی جی کل احتجاج کا انتظار کرتے رہے لیکن کوئی آیا ہی نہیں‘ لگتا ہے لوگوں کو عقل آگئی، مریم نواز
  • حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے
  • ملک ریاض کا بحریہ ٹان کی بندش کا عندیہ، مسائل حل کیلئے مذاکرات کی پیشکش
  • ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن بند کرنے کا اشارہ، مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی پیشکش
  • ملک ریاض کا بحریہ ٹاون کی بندش کا عندیہ، مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی پیشکش
  • سیاسی رہنمائوں کی سزائوں کے خلاف ہیں،مذاکرات سے ہی مسائل کا حل نکل سکتا ہے، وزیر قانون
  • خشکی میں گھرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہیں، یو این
  • کوئی ڈیل نہیں ہوگی اب ہم عمران خان کی رہائی یقینی بنا کر دم لیں گے، بیرسٹر گوہر
  • بزنس کمیونٹی اور حکومت