Juraat:
2025-09-22@02:30:43 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

مسائل کاحل جنگ نہیں مذاکرات سے !

حمیداللہ بھٹی

ایشیا جیسا گنجان آباد خطہ چار جوہری طاقتوں کی وجہ سے بارودکے ڈھیرپر ہے۔ چاروں جوہری طاقتوں روس ،چین ،بھارت کو ہمسایہ ممالک کہہ سکتے ہیں۔دنیا میں اور کوئی ایسا براعظم نہیں جہاں اکٹھی چارجوہری طاقتیں ہوں ۔اِس حساسیت کاتقاضاہے کہ جو باہمی مسائل کاحل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیاجائے لیکن اِس میں بھارت کا جارحانہ رویہ رکاوٹ ہے ۔اُس نے پُرامن بقائے باہمی کے بجائے مسائل حل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ اسی وجہ سے تقسیم ہند سے لیکرہنوزمسائل برقرارہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پرصرف ہو جاتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بار بار تنائو کی کیفیت پیداہوتی رہتی ہے۔ افسوس عالمی طاقتوں نے بھی تنائو میں کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ جب سے چین کی معاشی ترقی نے طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا ہے تو چین سمیت اُس کے اتحادیوں کو خطرات میں دھکیلا جانے لگا ہے۔ بھارت جیساسازشی اور مکار ملک پیداشدہ حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی طاقتوںکاخطے میں نیامُہرہ ہے جس سے جنوبی ایشیاکی دوارب آبادی کے لیے خطرات میں اضافہ اورترقی کی راہیں مسدود ہورہی ہیں ۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا جیسے خطے کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ تمام شہریوں کے لیے ترقی کے مواقع یکساں نہیں دے پارہا ۔امیر امیر تراور غریب غریب ترہوتاجارہا ہے ۔اگر سارک ممالک اپنے اختلافات کو جنگوں کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں تو دفاعی تیاریوں پر اُٹھنے والے اربوں کے اخراجات عام آدمی کی بہتری پر صرف ہوں گے ۔اِس طرح شہریوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع پیداہوسکتے ہیں۔
22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس کی پاکستان نے فوری مذمت کی کیونکہ دہشت گردی انسانی ترقی کی دشمن ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی قیادت کو اگر کوئی شک تھا تو حکومتی سطح پررابطہ کرتی اورملوث لوگوں کوبے نقاب کرنے کے لیے مددطلب کرتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایسا تاثر دینا شروع کردیا کہ اِس میں پاکستان ملوث ہے ۔ذرائع ابلاغ کی دیکھادیکھی بھارتی حکومت بھی طفلانہ رویہ اخیتارکرتی گئی اور پاکستان کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کردیا جب کہ شواہد سے ظاہر تھا کہ پہلگام واقعہ میں بیرونی نہیں اندرونی ہاتھ ہے کیونکہ سرحد سے میلوں دورسیاحتی مقام پررا جیسی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی اور بھارتی سیکورٹی اِداروں کی سہولت کاری کے بغیرنشانہ بنانا تودرکنارپہنچنابھی ممکن نہ تھا۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ کہ دہشت گردی کے صرف دس منٹ بعد ہی مقدمہ درج کرناہے ۔حالانکہ اِتنے قلیل وقت میں جائے وقوعہ سے تھانہ پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ مگر یہاں دس منٹ میں مدعی تھانہ پہنچ کر درخواست لکھتاہے اور مقدمہ بھی درج ہوجاتاہے۔ اسی بناپر قیاس ہے کہ جو بھی ہوا سب طے شدہ منصوبے کے مطابق ہواہے ۔اب حقائق عیاں ہونے کے ڈر سے بھارت مذاکرات اور مشترکہ تحقیقات کی طرف نہیں آرہااور جنگ کا ماحول بنارہا ہے ۔لیکن اِس طرح دوارب آبادی کی خوشحالی کو دائوپر لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کا سامنا ہے ۔وہ تمام دستیاب وسائل سے اِس ناسور کی سرکوبی میں مصروف ہے مگر ٹی ٹی پی سمیت علیحدگی پسندگروپوں کو بھارت کی طرف سے ملنے والی تربیت ،ہتھیاراور مالی معاونت سے ہنوز مکمل طورپر کامیاب نہیں ہورہا۔ بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی را کا سابق چیف اجیت ڈوول خود ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا اعتراف کرتاہے ۔اِس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دار،امن پسنداور باوقار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے تاکہ خطہ جنگ سے محفوظ رہے ۔حال ہی میں جعفر ایکسپریس جیسے خونی واقعے میں درجنوں بے گناہ شہری مارے گئے جس کی تحقیقات میںسیکورٹی اِداروں کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے جن سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردوں نے بیرونی معاونت سے یہ کارروائی کی ۔شواہد کے باوجود پاکستان نے خطے کے امن کو ترجیح دی۔ حالانکہ پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر بھارت جس تصادم کاخواہشمند ہے اُس سے صرف پاکستان نہیں وہ خود بھی متاثر ہوگا۔
پہلگام دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان مشترکہ بلکہ اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی غیر جانبدار ذریعے سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کر چکاہے لیکن بھارت نے ہنوز کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا اور جارحانہ موڈ میں ہے۔ اُس پر بری،بحری اور فضائی طاقت کابھوت سوار ہے۔ حالانکہ ماضی میں کئی بار ثابت ہو چکا کہ عددی قوت پر انحصار کرنے والی طاقتیں راہ فرار پر مجبورہوئیں۔ روس کاخیال تھا کہ یوکرینی افواج کو چند روز میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور اور ملک پر قبضہ کر لے گا۔ مگر تین برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ بھارت تو روس جتنی فوجی طاقت بھی نہیں رکھتااور یوکرین و پاکستان کی دفاعی طاقت میں بھی زمین آسمان کافرق ہے، نیز پاکستان جوہری طاقت ہے جس طرح بالاکوٹ فضائی حملے میں بھارت کوہزیمت سے دوچار کیا۔29 اور30 اپریل کی شب امبالا سے اُڑنے والے چاروں رافیل طیاروں کابروقت سراغ لگاکر ریڈارجام اور بھاگنے پر مجبورکرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اسی بناپربھارتی عوام اورکئی فوجی عہدیدار بھی مودی طرزِ عمل کے ناقد اور جنگ کرنے سے بازرہنے کے مشورے دینے لگے ہیں جس کی پاداش میں اعلیٰ فوجی آفیسروں کے تبادلے ، تادیبی کارروائیاں اور گرفتاریاں بھی ہوئیںپھر بھی نہ سمجھنے سے ایسا لگتا ہے بڑے سیاسی عہدوں پر چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہیں۔ بھارت کوروس مذاکرات کی ہدایت کرچکا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری انتونیوگوتریس بات چیت میں مددکی پیشکش کرچکے۔ یورپی ممالک نے بھی بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جواب میں وزیرِ خارجہ جے شنکر کہتے ہیںہمیں نصیحت نہیں شراکت داروں کی تلاش ہے، جسے خطے کوجنگ میں جھونکنے کی دانستہ کوشش کہہ سکتے ہیں۔
ثبوت کے بغیر پاکستان نے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔کیونکہ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں سے مودی کی ملاقاتوںسے ابہام نہیں رہا کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا سکتاہے مگر حملہ ہوتا ہے توروایتی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یقینی ہے ۔یوں ہونے والی تباہی دوممالک تک محدودنہیں رہے گی پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کی تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اِس بار دفاعی اقدامات تک محدود رہنے کی بجائے ہمیشہ کے لیے آبی جارحیت کے امکانات ختم کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کُن نتائج حاصل کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ اِس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت یکسونظر آتی ہیں لیکن پاک بھارت حکومتوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی ترقی امن کی بدولت ہے ۔جنگیں انسانی جان کی دشمن ہیں ۔یہ وسائل ہڑپ کرتی ہیں ۔تصفیہ طلب مسائل کاآبرومندانہ حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے ۔جنگ سے نہیں اور معاشی ترقی کے لیے امن ناگزیرہے۔
پس تحریر: عسکری بریفنگ میں تو میاں شہبازشریف،بلاول بھٹو،وزیرِ دفاع خواجہ آصف،مولانافضل الرحمٰن سمیت سب غائب تھے ، تحریکِ انصاف کی عدم شرکت ہی ہدفِ تنقید کیوں؟مودی نے تواپوزیشن لیڈرراہول گاندھی سے ملنے میں عارنہیں سمجھی تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟سرحدوں پر تنائو کے حالات میں وفاقی وزراکی تنخواہ دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ اُنیس ہزار کرنے کے فیصلے سے کیا حملہ رُک جائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان نے جوہری طاقت کرنے کے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

دوحا کانفرنس، غزہ کی بھوک اور فلسطینی بحران

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-6

 

شبانہ ایاز

عرب اور اسلامی رہنما 15 ستمبر کو ہنگامی کانفرنس کے لیے دوحا میں جمع ہوئے۔ مسلم دنیا کے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ ملاقات تاریخی اہمیت رکھتی تھی۔ غزہ کی بھوک اور فلسطینی بحران شدید تھا، قحط کا اعلان ہو چکا تھا، اور اسرائیل کے 9 ستمبر کے دوحا پر حملے— جس میں ایک قطری شہری اور حماس کے مذاکرات کار ہلاک ہوئے نے حالات کو مزید سنگین کر دیا تھا۔ آخر کار، بہت سے لوگوں نے امید کی کہ عرب اور اسلامی دنیا قتل و غارت گری اور غزہ میں قحط کو روکنے کے لیے مؤثر منصوبہ پیش کرے گی۔ لیکن اس کے بجائے، کانفرنس میں جو الفاظ دیے گئے وہ بموں کی گرج کے سامنے کھوکھلے لگے۔ 50 سے زائد رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، ترک صدر رجب طیب اردوان، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف، ملیشیا کے انور ابراہیم اور دیگر شریک تھے۔ اعلامیہ میں 25 نکات شامل تھے۔ اس میں اسرائیل کی ’’بزدلانہ جارحیت‘‘ کی مذمت کی گئی، مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی حمایت کی گئی، اور رکن ممالک سے تعلقات کا جائزہ لینے کا کہا گیا۔ لیکن اس میں کوئی نفاذ و عملی طریقہ کار، کوئی وقت کی حد، یا فلسطینی بچوں کی امداد کی ضمانت شامل نہیں تھی۔ یہ پابندیوں، تیل کے اثر رسوخ، یا سفارت کاروں کے یکساں انخلا کا وعدہ بھی نہیں کرتا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے اسے ’’بیانیہ مظاہرہ‘‘ قرار دیا۔ تہران ٹائمز نے کہا کہ یہ ’’خالی تماشا‘‘ ہے۔

ایکس پر عام شہریوں کی آوازیں مایوسی کو زیادہ واضح انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ایک پوسٹ چند گھنٹوں میں وائرل ہوئی: ’’سمٹ ختم، اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، 48 شہری ہلاک، یہ سب کس کام کا؟‘‘ دوحا میں ناکامی صرف پالیسی کا مسئلہ نہیں؛ یہ نفسیات کا مسئلہ بھی ہے۔ دہائیوں سے فلسطینی اور ان کے حامی عرب اور اسلامی بلاک سے اتحاد کی امید رکھتے آئے ہیں۔ لیکن تقسیم گہری ہے۔ خلیج کے ممالک کی اسرائیل کے ساتھ معمولات، امریکی دبائو، اور مصر کی رفاہ مکمل طور پر نہ کھولنے کی ہچکچاہٹ نے اجتماعی عزم کو توڑ دیا ہے۔ نتیجہ ہے جمود، بالکل اْس لمحے جب فیصلہ کن اتحاد کی ضرورت تھی۔

یہ جمود نتائج رکھتا ہے۔ غزہ کی بھوک محض اعداد و شمار نہیں، یہ ایک جان بوجھ کر اپنائی گئی حکمت عملی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں قحط ہے، جہاں 25 لاکھ لوگ شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے 425 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 130 بچے شامل ہیں۔ شدید غذائی قلت 14 ہزار بچوں کو متاثر کر رہی ہے، جبکہ مزید 70 ہزار خطرے میں ہیں۔

ماں باپ نفسیاتی اثرات بیان کرتے ہیں۔ ام وسام نے الجزیرہ کو بتایا: ’’میرا بیٹا رات کو بھوک سے چیختا ہے، اور میں جھوٹ بول کر کہتی ہوں کہ کل کھانا آئے گا۔ میرا دل ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔ یہ روزانہ کی جھوٹی تسلی بقا کا ذریعہ بن گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کے 90 فی صد بچے اضطراب، بے خوابی، اور مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کے مستقبل پہلے ہی متاثر ہو چکے ہیں۔

رفاہ میں غزہ کا رگِ زندگی ہے، امدادی قافلے 44 کلومیٹر کی قطار میں کھڑے ہیں، جن میں آٹا، چاول اور دوا موجود ہے۔ روزانہ صرف 50 سے 150 ٹرک داخل ہو پاتے ہیں۔ جو 800 کی ضرورت سے بہت کم ہے۔ باقی ٹرک غزہ بلاک میں اسرائیل کے سخت قبضے میں پھنسے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے تین بار بلا روک ٹوک امداد کی ہدایت دی، جسے اسرائیل نے نظر انداز کیا۔ استنبول یونیورسٹی کی وکیل دنیز باران نے اس ناکہ بندی کو ’’جنیوا کنونشن کے تحت جنگی جرم‘‘ قرار دیا۔ پھر بھی دوحا کانفرنس امدادی قافلوں کی حفاظت کی ضمانت دینے میں ناکام رہا۔

قیادت کی غیر موجودگی میں، عام شہری خود اقدام کر رہے ہیں۔ گلوبل صمود فلوٹیلا 50 سے زائد جہازوں کا بیڑا، جس میں 44 ممالک کے سرگرم کارکن شامل ہیں، مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔ اس کا نام ’’صمود‘‘ عربی میں ثابت قدمی کے معنی رکھتا ہے، جو فلسطینی استقامت کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جہاز اگست میں بارسلونا سے روانہ ہوئے، 3 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا، تیونس میں ڈرون حملوں کے اور آگ میں جھلسنے کے باوجود اپنے مشن پر قائم رہے۔ کارکنوں نے اعلان کیا: ’’ہماری عزم نہیں جلے گا‘‘۔ اسرائیل نے اسے ’’حماس کا محاذ‘‘ قرار دیا، لیکن اقوام متحدہ کے ماہرین اور عالمی انسانی حقوق گروپوں نے اسے قانونی انسانی ہمدردانہ عمل قرار دیا۔ گریٹا تھنبرگ، سابق بارسلونا کی میئر ادا کولاؤ، اور آئرش اداکار لیام کننگھم، پاکستان سے سینیٹر مشتاق احمد خان جیسے افراد نے اس مشن میں شرکت کر کے عالمی توجہ حاصل کی۔ 16 ستمبر کو قافلے کو بحری ناکہ بندی کے خلاف چلنے کی اجازت ملی، جبکہ دوسرا قافلہ 24 ستمبر کو کاتانیا سے روانہ ہوگا۔

غزہ کے بچوں کے لیے، فلوٹیلا صرف امداد نہیں لے کر آتا۔ یہ امید بھی لے کر آتا ہے۔ ایک بچے نے سیدھی بات کہی: ’’جہاز سمندر سے آ رہے ہیں، شاید اب ہمیں کھانا ملے‘‘۔ یہ ایک جملہ دوحا کانفرنس کے 25 نکات سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ فرق واضح ہے۔ دوحا میں صدور اور شہزادے محتاط الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ سمندر میں، رضاکار اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ سمٹ نے ریاستی طاقت کی حدود کو اجاگر کیا، جبکہ فلوٹیلا نے یکجہتی کی لامحدود صلاحیت کو دکھایا، چاہے وہ نازک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یکجہتی اکیلے غزہ کی بھوک یا بمباری کو ختم نہیں کر سکتی۔ شہری بہادری حوصلہ دے سکتی ہے، لیکن ریاستی کارروائی کا متبادل نہیں ہے۔ اگر عرب اور اسلامی رہنما واقعی غزہ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ تیل کا مشترکہ اثر رسوخ، معمولات معاہدوں کو معطل کرنا، بین الاقوامی فوجداری عدالت میں قانونی کارروائی، اور اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA اور فلسطینی بچوں کی امداد کے لیے پابند وعدے۔ یہ سب دوحا کانفرنس کے حتمی دستاویز میں شامل نہیں تھے۔

تاریخ دوحا کانفرنس کو اس کی شاندار تقریروں سے نہیں یاد رکھے گی۔ یہ اس خاموشی کو یاد رکھے گی جو بعد میں چھا گئی۔ یہ یاد رکھے گی کہ جب رہنما عیش و عشرت کے ہال میں ملاقات کر رہے تھے، بچے بھوک سے مر رہے تھے، والدین انہیں تسلی دیتے جھوٹ بول رہے تھے، اور ٹرک سرحدوں پر بے حرکت پڑے تھے۔ یہ بھی یاد رکھے گی کہ سمندر میں عام لوگوں نے اپنی بہادری ریاستوں سے زیادہ دکھائی۔ مایوسی اور امید کے درمیان، غزہ انتظار کر رہا ہے۔ دوحا کانفرنس ایک موڑ ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک اور ضائع شدہ موقع بن گیا، ایک اور دراڑ اس علاقے کی نفسیات میں جہاں پہلے ہی ٹوٹے ہوئے وعدوں کا سایہ ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ کی بھوک کا حل نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت نے ہار نہیں مانی۔ خالی الفاظ کے سامنے، یہ آگے بڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رہنما صرف بیانیہ میں پھنسے رہیں گے؟ یا آخرکار اقدام کریں گے، قبل اس کے کہ قحط اور مایوسی ایک پوری نسل کو نگل جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • برابری کی بنیاد پر پانی، تجارت، انسداد دہشت گردی پر مذاکرات چاہتے، مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تعلقات ممکن نہیں: وزیراعظم
  • پاکستان سے روایتی جنگ کے بعد بیانیے کی جنگ بھی جیت گیا،بھارتی اینکر پرسن کا بڑا اعتراف 
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی بھارت کو برابری کی بنیاد پر ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش
  • بھارت سے برابری کی بنیاد پر کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں: وزیراعظم
  • بھارتی اینکر پرسن کا بڑا اعتراف: پاکستان سے جنگ کے بعد بھارت بیانیے کی جنگ بھی ہار گیا
  • ایشیا کپ: بھارتی غرور خاک میں ملانے کا موقع، پاکستان اور بھارت آج پھر آمنے سامنے ہوں گے
  • ملک میں نئے صوبے بنانے کا شور تو ہے لیکن عملی کام نہیں ہورہا، رانا ثنااللہ
  • ہمیں سوچنا چاہیئے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی یا جمہوریت؟ مولانا فضل الرحمان
  • دوحا کانفرنس، غزہ کی بھوک اور فلسطینی بحران
  •   سعودی عرب سے معاہدہ اچانک نہیں، طویل مذاکرات کا نتیجہ ہے: نائب وزیر اعظم