پاکستانی شوبز انڈسٹری کی بےباک شخصیت مشی خان نے ایک بار پھر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سخت پیغام جاری کیا ہے۔

پہلگام واقعے اور پاکستان پر بھارتی حملے کے بعد مشی خان نے سوشل میڈیا پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے بھارتی میڈیا، سیاستدانوں اور عوام کو کھری کھری سنا دیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)


انسٹاگرام پر جاری کردہ اپنے ویڈیو پیغام میں مشی خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، میجر گورو آریہ اور ارناب گوسوامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بھارت کے لوگ اتنے زہریلے اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، مودی اور تمہارے جنگی بھونپو، گورو آریہ اور ارنب گوسوامی سن لو! ہماری خاموشی ہماری کمزوری نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہیں جواب دینا شروع کر دیا ہے اور بار بار دیں گے، ہماری فوج، بحریہ اور فضائیہ جانتی ہے تم سے کیسے نمٹنا ہے، تمہارے جہازوں پر حملہ دیکھا؟ اب طبیعت درست ہوئی؟

ان کا مزید کہنا ہے کہ آئندہ اگر حملہ کرنا ہے تو سامنے سے آؤ، بزدلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں نہیں، تم لوگ چالاک بنتے ہو، مگر ہم تم سے نمٹنا جانتے ہیں، بھارتی عوام بھی اپنے حکمرانوں کی طرح سفاک اور نفرت سے بھرپور ہیں اور اگر کسی نے میرے ان باکس میں آکر بکواس کی، تو میں خود نمٹ لوں گی، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے اور ہماری فوج مضبوط ہے۔

واضح رہے کہ مشی خان طویل عرصے سے بھارت کی پالیسیوں پر تنقید کرتی آئی ہیں اور ہر موقع پر پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی حمایت میں آواز بلند کرتی رہی ہیں۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

صرف عوام ہی کی قربانی کیوں؟

بجلی کی قیمت کے سرکاری اعلان کے بعد بتایا جا رہا تھا کہ اب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرنے جا رہی ہے اگر ایسا ہو بھی جاتا تو یہ حکومت کا عوام پر کوئی احسان نہیں تھا نہ سرکاری خزانے پر اثر پڑنا تھا کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی و بیشی عالمی سطح پر طے ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں ہوتا یہ آ رہا ہے کہ عالمی طور پر قیمت بڑھے تو ملک میں فوری قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور اگر کم ہو تو معمولی ریلیف تو حکومت دیتی ہی نہیں اگر زیادہ کمی ہو جائے تو حکومت قیمت تبدیلی کے وقت کا انتظار کرتی ہے اور پورا ریلیف کبھی عوام کو نہیں دیتی کیونکہ پٹرولیم مصنوعات بھی حکومتی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہی حکومت ان اپنوں کو مزید نوازتی ہے جو پہلے سے ہی لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور ان کی طرف سے تنخواہیں اور مراعات نہ بڑھانے کی کوئی شکایت بھی نہیں آتی مگر حکومت عوام سے زیادہ ان کا زیادہ خیال رکھتی ہے اور انھیں مزید نواز کر قومی خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ بڑھا دیتی ہے جو عوام بڑھتے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے آ رہے ہیں۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا عوام کو پٹرول سستا کرنے کا خواب دکھایا گیا مگر راتوں رات پٹرولیم لیوی 72 روپے سے 80 روپے کر کے عوام کو عالمی ریلیف سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے پر یقین نہیں رکھتی اور اسی لیے عوام سے وعدے ضرور کیے گئے مگر ڈھائی سالوں میں معمولی ریلیف بھی نہیں دیا گیا۔

بجلی کی قیمت اسی حکومت نے بڑھائی تھی اور صرف سات روپے تک کم کر کے اپنی فیاضی کا ڈنکا ضرور پیٹ لیا اور عالمی سطح پر ملنے والا پٹرولیم ریلیف بھی بلوچستان کے لیے منتقل کر دیا جس سے عوام پھر محروم رہ گئے اور انھوں نے اسے اپنی طرف سے بلوچستان کے لیے قربانی سمجھ لیا اور ایسی قربانی عوام سے ہی لی جاتی رہی ہے ۔ حکومت نے عوام سے قربانی نہیں قربانیاں لینے کا ریکارڈ ضرور قائم کر دیا ہے کیونکہ اس کے نزدیک صرف عوام ہی کو قربانی دینی چاہیے باقی کی قربانی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں اور نہ عوامی قربانی دینا اعلیٰ اشرافیہ اور حکومت کا کام ہے اور ہر بار صرف عوام ہی قربانی دیتے اور باقی کی قربانی بنتی ہی نہیں کیونکہ وہ صرف مراعات حاصل کرنے اور عوام قربانی دینے کے اہل ہیں۔

ویسے بھی بلوچستان کا احساس حکمرانوں کو نہیں صرف پاکستانیوں کو ہے جو اپنے ملک کے اس صوبے بلوچستان کے حالات پر پریشان ہیں کہ جہاں دہشت گرد تنظیموں نے بھارت کی مالی سرپرستی میں دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہے جہاں سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے غریبوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے مگر پنجاب سمیت ملک بھر میں ان دہشت گردوں کی بربریت کے خلاف احتجاج ہوا نہ کسی کو نقصان پہنچایا گیا حالانکہ بلوچوں کی اکثریت دہشت گردوں کی حامی نہیں ہے اور وہاں کے طلبا کی بڑی تعداد اپنے صوبے سے باہر جا کر وہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے جو ان کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور وہی نہیں بلکہ بلوچ سردار بھی اپنے بچوں کو اپنے صوبے سے باہر تعلیم دلا رہے ہیں کیونکہ یہ سب خود کو اپنے صوبے سے باہر محفوظ سمجھتے ہیں اور آزادی سے رہ رہے ہیں۔

دہشت گردوں کی خفیہ اور کھلی حمایت کرنے والوں کی ان مذموم سرگرمیوں پر محب وطن حلقوں میں ضرور تشویش ہے ،بلوچستان میں سردار غریب عوام کے نام پر حکومت سے کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں مگر دہشت گردی کے واقعات پر خاموش رہتے ہیں اور علیحدگی پسند چند ہزار دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں بولتے اور دہشت گردی روکنے کے لیے نہ کوئی قومی کردار ادا کرتے ہیں اور نہ دہشت گردوں کے بے بنیاد پروپیگنڈے سے متاثر نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں نہ حقائق بتاتے ہیں کہ پس ماندگی صرف بلوچستان میں نہیں ملک بھر میں ہے کہیں کم کہیں زیادہ، مگر بلوچستان میں اس لیے زیادہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو وہاں کام کرنے دیا جاتا ہے نہ وہ وہاں محفوظ ہیں۔

بلوچستان کی ترقی اور مسائل میں اضافہ انھی رکاوٹوں کے پیدا کیے جانے کی وجہ سے ہے جو بلوچ عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی نہیں چاہتا اور ان دونوں ہی کو پس ماندہ رکھ کر خود مال کما رہا ہے کیونکہ اسی میں ان کا مالی و سیاسی فائدہ ہے۔ بلوچ عوام کو صوبے میں اکثر جگہوں پر غربت و پسماندگی کا بتا کر گمراہ تو کیا جاتا ہے مگر حکومت، مفاد پرست سرداروں اور سیاستدانوں کو حقائق بتانے کی توفیق نہیں ہوتی اور انھیں مسلسل گمراہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ضرور ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے افراد دہشت گردوں کے فریب میں آ کر اپنے گھروں سے غائب ہو کر دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں اور یہی لوگ پھر احتجاج کرتے ہیں کہ صوبے سے لوگ غائب کیے جا رہے ہیں جس سے حکومت بدنام کی جاتی ہے مگر حقائق منظر عام پر ضرور آ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ موجود ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور یہ مسئلہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہے جہاں کہا جا چکا ہے کہ ایسا کرنا غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،دوسری جانب تفتیش میں مہینوں نہیں سالوں گزر جاتے ہیں جس سے بدنامی ہو رہی ہے اور ملک دشمنوں کو احتجاج کا موقعہ مل جاتا ہے۔

جعفر ایکسپریس کے واقعے پر پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعلیٰ نے اس دہشت گردی کی مذمت کرنے کی بجائے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جو ناکام رہی مگر شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور حکومتی مشکلات بڑھیں۔ حکومت نے اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کی بجائے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی رعایت سے فائدہ اٹھایا اور اس رقم سے ایک خونی سڑک کی تعمیر پر یہ رقم خرچ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے بلوچ عوام اور صرف صوبے کو فائدہ پہنچایا جائے تو عوام کو بھی اعتراض نہیں ہوگا اور وہی قربانی بھی دے دیں گے مگر عوام کی یہ رقم مفاد پرست سرداروں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے مفاد کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے اور رقم کا منصفانہ اور حقیقی استعمال ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری سرزمین پر دشمن کا سایہ بھی برداشت نہیں کرینگے، شیخ اعجاز بہشتی
  • صرف عوام ہی کی قربانی کیوں؟
  • جوابی کارروائی میں پاکستان نے بھارت کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر تباہ کردیا
  • ''بھارت کا پاکستان کی شہری آبادی پر حملہ شرمناک ہے،، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو کھری کھری سنا دیں
  • کرم کے لاکھوں عوام کئی ماہ سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • جب ہماری آواز پسند نہیں تو ہم سے متفقہ قراردادیں کیوں پاس کروانا چاہتے ہیں؟ عمر ایوب
  • ہماری قوم کراچی سے خیبر اور لاہور سے لاڑکانہ تک متحد ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • ہماری فوج ہندوستان کی طرف متوجہ ہوئی تو داخلی سیکیورٹی کیا ہوگی؟ فضل الرحمان
  • ہندوستان کی طرف ہماری فوج متوجہ ہوئی تو داخلی سکیورٹی کیا ہوگی؟مولاناکااستفسار