کراچی:

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت نے دہشتگردی کے ایک بے بنیاد الزام کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا، اب پاکستان اسے جواب دے گا، بھارت کو اندازہ نہیں اُسے کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے۔

کراچی میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ پہلگام واقعے پر بغیر کسی تحقیق یا ثبوت کے بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا اور پاکستان کی جانب سے غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بھارت پہلے ہی طے کر چکا تھا کہ الزام تراشی کے بعد جارحیت کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے دفاع میں ذمہ داری اور مؤثر انداز میں کارروائی کی، جس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کے طیارے مار گرائے گئے اور تین پائلٹس ہلاک ہوئے، یہ کارروائی کو دشمن کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے خلاف ایک بے مثال کامیابی ہے، جسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر جوابی کارروائیوں میں پاکستان نے دشمن کے اہم فوجی مراکز کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 40 سے 50 بھارتی فوجی مارے گئے، بھارت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی تاریخ رکھتا ہے، حتیٰ کہ اس نے اپنے تباہ شدہ طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو ویر چکر سے نواز دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے 7 اور 8 مئی کی رات کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے تین اقسام کے اہداف کو نشانہ بنایا، سب سے پہلے بھارت میں سکھ کمیونٹی اور ان کے مذہبی مقامات پر حملے کیے تاکہ ایک طرف سکھوں کو ڈرایا جائے، دوسری طرف ان حملوں کو پاکستان سے منسوب کرکے نفرت پھیلائی جائے اور تیسری جانب ان حملوں کے ملبے کو پاکستانی طیارے قرار دے کر دنیا کے سامنے فتح کا تاثر دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا ہدف پاکستان کی دفاعی تنصیبات تھیں تاکہ ہماری دفاعی اور حملہ آور صلاحیتوں کو کمزور کیا جا سکے، تیسرا ہدف شہری آبادی تھی تاکہ پاکستانی عوام میں خوف اور مایوسی پیدا ہو۔ تاہم پاکستان نے ایک بار پھر شاندار دفاعی حکمتِ عملی کے تحت مؤثر جواب دیا اور اب تک ملک بھر میں اسرائیلی ساختہ 25 ہاروپ ڈرونز مار گرائے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈرون اڑانا آسان ہے لیکن انہیں مار گرانا ایک غیر معمولی صلاحیت ہے جو ہماری افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے، پاکستان نے بھارت کے طیارے گرائے اور ان کی چیک پوسٹس کو بھی نشانہ بنایا۔ 

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ مودی حکومت نے کرپشن کے ذریعے طیارے خریدے، جس کا اعتراف خود بھارت کی اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر حملہ کرنے میں دو ہفتے لگائے، مگر پاکستان اپنے جواب کا وقت اور مقام خود طے کرے گا، اور یہ ردعمل قوم کی امنگوں کے مطابق ہو گا۔

سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پوری قوم افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ ہے۔ ہماری مائیں، بہنیں، بزرگ اور نوجوان سب یک زبان ہیں کہ بھارت کو ہر صورت شکست دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مودی کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہے اور وہ ایک مجرمانہ و انتہا پسند سوچ کا حامل ہے۔

شرجیل انعام میمن نے کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر حال میں کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں پر جاری مظالم کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ بھارت کو ابھی اندازہ نہیں کہ اُسے کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ بھارتی حملوں میں معصوم بچوں اور شہریوں کو شہید کیا گیا، اور ان شہداء کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ پوری صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شرجیل انعام میمن نے انہوں نے کہا کہ میمن نے کہا کہ پاکستان نے کہ بھارت بھارت کو بھارت نے تھا کہ

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم نے ملک میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک نئی سیاسی اور آئینی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

ترمیم کے مسودے کے مطابق تعلیم، آبادیاتی منصوبہ بندی اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے اہم شعبے، جو 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے تھے۔ دوبارہ وفاق کے کنٹرول میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم اگر منظور ہو گئی تو صوبائی خودمختاری میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے، جبکہ وفاق کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ ترمیم کا مقصد قومی سطح پر پالیسی سازی میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ریاستی نظام کو مؤثر بنانا ہے، تاکہ اہم معاملات پر یکساں فیصلے ممکن ہو سکیں۔

صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائےگی، نصرت جاوید

اس حوالے سے کالم نگار اور سینیئر سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہاکہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری صوبوں کے اختیارات میں نمایاں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ نظام میں قومی خزانے کا قریباً 60 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل ہوتا ہے، لیکن اگر وفاق کے اختیارات میں اضافہ ہوا تو صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائے گی

نصرت جاوید کے مطابق اس صورت میں مرکز مزید مضبوط ہو جائے گا اور صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق پر منحصر ہو جائیں گی، کیونکہ مالی وسائل کا کنٹرول وفاق کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان کے خیال میں یہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی ہے تو ملک کے سیاسی اور مالی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور سرمائے کا بڑا حصہ وفاق کی جانب منتقل ہو جائےگا۔

صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا، انصار عباسی

سینیئر تجریہ کار انصار عباسی کا کہنا تھا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ابھی تفصیلات واضح نہیں ہو سکیں، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق ترمیم میں صوبوں کے اختیارات، مجسٹریسی نظام کی بحالی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ترمیم کے تحت ضلعی سطح پر مجسٹریسی نظام کی بحالی پر غور کیا جا رہا ہے، جس سے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو دوبارہ عدالتی نوعیت کے اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ان عہدوں پر فائز افسران کو موقع پر سزائیں دینے اور کئی سالوں کی قید تک کے احکامات جاری کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔

’اس نظام کی بحالی سے صوبائی حکومتوں کا کنٹرول ضلعی سطح پر مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے کیونکہ مجسٹریٹس براہِ راست صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔‘

انصار عباسی کے مطابق اگر صوبوں کو مزید اختیارات دیے جاتے ہیں تو ان کی گورننس کپیسٹی میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ ’جب تک صوبے اپنی مالی اور انتظامی صلاحیت نہیں بڑھاتے، وفاق سے منتقل ہونے والے وسائل مؤثر انداز میں استعمال نہیں ہو سکیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ترمیم کے تناظر میں یہ بھی تجویز زیرِ غور ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے۔

’وفاقی حکومت کے بہت سے پروگرامز سے صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے ذمے اب بھی متعدد ایسے پروگرامز ہیں جن سے براہِ راست صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں، جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ، اگر صوبے اپنے حصے میں کمی قبول نہیں کرتے تو انہیں ان سماجی فلاحی پروگرامز میں مالی شرکت کرنی چاہیے۔

’اسی طرح زرعی سبسڈیز اور دیگر عوامی فلاحی اسکیمیں بھی جن سے صوبوں کے شہری براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں، مستقبل میں صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق اگر وفاق ان پروگرامز سے بتدریج دستبردار ہو جائے تو ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ممکن ہے۔

انصار عباسی کے مطابق کچھ شعبے ایسے ہیں جنہیں مرکزی سطح پر برقرار رکھا جانا چاہیے ان میں تعلیم کا شعبہ نمایاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم وفاق کے ماتحت ہو تو ایک قومی نصاب، یکساں نظریہ اور ہم آہنگ قومی شناخت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

’اٹھارویں آئینی ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، بشرطِیکہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔‘

18ویں ترمیم جب منظور ہوئی تو اس وقت بھی کئی اعتراضات کیے گئے تھے، احمد ولید

سیاسی تجزیہ کار احمد ولید نے کہاکہ وفاقی حکومت ایک بار پھر قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت فنڈز کی تقسیم کے طریقہ کار پر نظرثانی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ان کے مطابق وفاق کو طویل عرصے سے شکایت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ تر مالی وسائل صوبوں کو منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے وفاق کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم کی شدید کمی رہ جاتی ہے۔

احمد ولید نے مزید بتایا کہ جب 18ویں ترمیم منظور کی گئی تھی تو اس وقت بھی وفاق میں اس پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان کے مطابق عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران کئی تقاریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ سارا پیسہ صوبوں کو دے دیا گیا ہے، اور وفاق کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔

’وسائل کی کمی کی وجہ سے وفاق کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘

انہوں نے کہاکہ وفاق کو پاک افواج، پینشن یافتہ سرکاری ملازمین اور مختلف قومی ذمہ داریوں کا مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جو کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اب جو منصوبہ بندی سامنے آ رہی ہے، اس کے مطابق این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے فنڈز کا ایک بڑا حصہ واپس وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔

’حکومت خود اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ وفاق کے پاس پیسے نہیں بچتے، اور جب کسی بھی قومی ضرورت کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں تو وفاق کے پاس وہ رقم موجود نہیں ہوتی۔‘

احمد ولید کے مطابق اس فیصلے کا سب سے بڑا اثر صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر پڑے گا، اگر صوبوں کی فنڈنگ میں کمی ہوئی تو وہ اپنے جاری منصوبے بروقت مکمل نہیں کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

’جب وسائل کم ہوں گے تو صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے سست روی کا شکار ہو جائیں گے، جس کا براہِ راست نقصان عوام کو پہنچے گا، کیونکہ کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں جو وفاق سے آنے والی فنڈنگ پر ہی چل رہے ہوتے ہیں، تو اب اگر فنڈنگ نہیں آئے گی تو وہ تمام منصوبے متاثر ہوں، ان سارے معاملات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ماہرین اٹھارویں ترمیم حکومت پاکستان ستائیسویں آئینی ترمیم صوبوں کے اختیارات وفاق فنڈز وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • حکومت کسی سے نہیں ڈرتی، ای چالان کا مقصد ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے:شرجیل میمن
  • 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق تفصیل سے بات ہوچکی: شرجیل انعام میمن
  • خواہش ہے قوانین پر عمل ہو اور حکومت کو چالان کی مد میں ایک روپیہ بھی نہ ملے، شرجیل میمن
  • ای چالانز پر سیاست افسوسناک، ٹریفک قوانین عوام کی بہتری کیلیے ہیں، شرجیل میمن
  • پاکستان سے روابط توڑنے میں مفاد نہیں، بات چیت واحد راستہ، سابق بھارتی وزیر
  • طورخم گزرگاہ 25 ویں روز بھی بند؛  دوطرفہ تجارت معطل ہونے سے اربوں کا نقصان
  • 27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟
  • حکومت تعلیم کے شعبے میں بہتر اقدامات کررہی ہے، ندیم الرحمن میمن
  • بینظیر ہاری کارڈ صوبے کے کاشتکاروں کیلئے نیا دور ثابت ہوگا، شرجیل میمن
  • بھارت پاکستان سے ہونے والی شرمناک شکست کو آج تک ہضم نہیں کر پایا، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ