بھارت پاکستان سے جنگ بندی پر کیوں آمادہ ہوا؟ امریکی صحافی نے پول کھول دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کے آپریشن ’بُنیان مَرصُوص‘ کی کامیابی کے بعد مودی سرکار نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں اور جنگ بندی پر آمادہ ہوگئی ہے۔
کئی دنوں سے پوری دنیا بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائرکی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی، مودی سرکار طاقت کے نشے میں مست پاکستان میں کبھی ڈرونز بھیج رہی تھی اور کبھی میزائلوں سے معصوم شہریوں پر حملے کررہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا خیر مقدم
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شپ بھارت نے پاکستان کے ایئر بیسز پر حملہ کیے، جس کے جواب میں پاکستان کی افواج نے بھرپور جوابی کارروائی کی اور بھارت کے متعدد فوجی اڈے اڑا کے رکھ دیے۔
CNN's Nick Robertson reports that India reached out to the US, Saudi Arabia, and Turkey for assistance in halting the conflict after Pakistan unexpectedly launched a relentless and massive missile barrage into Indian military installations.
— Nawab Ali Khattak (@NawabAliKhan7) May 10, 2025
بھارت جنگ بندی پر کیوں آمادہ ہوا، اس حوالے سے امریکی صحافی نک رابرٹسن نے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اور سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی کے بعد پاکستانی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آ گیا
امریکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صحافی نک رابرٹسن نے کہا کہ کئی دنوں سے پوری دنیا بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائرکی کوشش کر رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی،مگر اب پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کے بعد بھارت نے خود جنگ بندی کی پیشکش کی۔
امریکی صحافی نے مزید کہا کہ پچھلے 48 گھنٹوں سے جنگ بندی کی کوششیں ہورہی تھیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کو پہلے جواب دینے سے گریز کیا، مگر جب بھارت نے آج پاکستان پر میزائل حملے کیے، جن میں سے ایک پاکستان کے دارالحکومت سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہوا، تو بھارت کے اس اقدام سے ڈپلومیسی کے دروازے بند ہوگئے اور پاکستان نے بھارت پر حملہ کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی میں کس ملک نے کیا کردار ادا کیا؟
پاک فوج نے انڈیا کے کئی ایئربیس اڑا کررکھ دیے اور بھارتی ہتھیاروں کے ذخیرے بھی تباہ کردیے، جس سے انڈیا بیک فٹ پر چلا گیا اور اسے جنگ بندی کرنی پڑی۔
رابرٹسن کے مطابق بیک فٹ پر جانے کے بعد بھارت نے ترکیے، سعودی عرب اور امریکی حکام سے رابطے کیے اور سفارتکاری کے ذریعے راستہ نکالنے کو کہا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ممکن ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکی صحافی بھارت پاکستان جنگ بندی مودی سرکارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صحافی بھارت پاکستان مودی سرکار بھارت جنگ بندی امریکی صحافی پاکستان کے بھارت نے کے بعد
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی کے لیے ترکیہ اور ایران سرگرم، کیا اس بار کوششیں کامیاب ہوسکیں گی؟
استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد علاقائی قوّتیں اور پاکستان کے دوست ممالک بھی دونوں ممالک کے درمیان قیامِ امن کے حوالے سے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔
7 نومبر کو آذربائیجان کے یومِ فتح تقریبات میں وزیراعظم شہباز شریف نے شرکت کی جہاں دارلحکومت باکو میں وزیراعظم شہباز شریف اور ترکیے کے صدر رجب طیب اُردوان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی قائم رکھنے پر بات چیت کی گئی۔
صدر رجب طیّب اُردوان نے کہا کہ تُرکیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو غور سے دیکھ رہا ہے اور وہ مذاکرات اور استحکام کی حمایت کرتا رہے گا۔ صدر طیّب اردوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تُرک وزیرِ خارجہ خاقان فیدان، ترک وزیرِ دفاع یاسر گولیر، اور تُرک انٹیلی جینس چیف ابراہیم کالِن اگلے ہفتے اِسلام آباد کا دورہ کریں گے اور دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی، ایران نے مصالحتی کردار کی پیشکش کردی
دوسری طرف برادر اِسلامی مُلک ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے گزشتہ روز افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فونک گفتگو کی جس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے متعلق بات چیت کی گئی۔ افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اصل مسئلے کے بجائے افغان مذاکرات کاروں نے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا: پاکستانی وزارتِ خارجہ
افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان مُتّقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کوئی ذمّے داری اُٹھانے کو تیار نہیں جبکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اپنے مفصّل جواب میں مذاکرات کی ناکامی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 4 برس میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور پاکستان نے فوجی و شہری نقصانات کے باوجود انتہائی تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان نے اس عرصے میں اس امید کے ساتھ افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری روابط استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی کہ طالبان انتظامیہ دہشتگرد گروہوں، بالخصوص ٹی ٹی پی، کے خلاف مؤثر اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے تجارت، انسانی امداد، ویزوں کی سہولت اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے لیے مثبت سفارتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے افغانستان کی استحکام، امن اور خوشحالی کو اولین مقصد کے طور پر رکھا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی جانب سے پاک افغان جنگ بندی کا خیرمقدم، قیام امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیدیا
تاہم، ان تمام مثبت اقدامات کے باوجود طالبان انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی بنیادی توقع، یعنی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینا، پوری نہیں کی گئی، اور اس کے بجائے مسئلے کے اصل پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا گیا، جو نہ صرف بین الاقوامی ذمہ داریوں سے انحراف ہے بلکہ افغانستان اور خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی مضر ہے۔
افغانستان اپنی ذمے داریوں سے انحراف کر رہا ہے، پاکستان وزارتِ خارجہ
پاکستان وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی بنیادی توقع یہ رہی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، تاہم طالبان انتظامیہ اس اہم ذمہ داری پر عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات کرنے سے مسلسل گریز کرتی رہی ہے اور اس کے بجائے اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو غیر متعلقہ اور ضمنی معاملات کے ساتھ خلط ملط کر کے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرتی رہی ہے جو اسے اپنی بین الاقوامی اور داخلی ذمہ داریوں سے بری ظاہر کرے۔
اکتوبر 2025 میں افغانستان کی جانب سے جاری حملوں کے جواب میں پاکستان کا ردعمل اس کے اس عزم اور ارادے کی عکاسی تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے ریاستِ پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن قرار دیے جا چکے ہیں، اور جو بھی ان کی سرپرستی، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان اور اس کے عوام کا خیر خواہ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان اپنے قومی مفادات اور اپنے شہریوں کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔
مزید پڑھیں: پاک فوج کا اسپن بولدک اور چمن سیکٹر میں بھرپور جواب، افغان طالبان نے جنگ بندی کی درخواست کر دی
افغان مذاکرات کار صرف بات چیت کو طول دینا چاہتے تھےاستنبول میں ہونے والا دوسرا دور دراصل دوحا میں ہونے والے پہلے دور میں طے پانے والے اقدامات کے لیے ایک مانیٹرنگ میکنزم طریقہ کار ترتیب دینے کے لیے تھا، تاہم طالبان انتظامیہ کے نمائندے عملی اقدامات سے گریز کرتے رہے اور اپنے پہلے کیے گئے وعدوں سے پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کی، ساتھ ہی الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول کو متاثر کیا۔
پاکستان نے مسلسل اس اپنے بنیادی مطالبے پر زور برقرار رکھا کہ افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد عناصر کے خلاف قابلِ تصدیق اور ٹھوس کارروائی کی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔ ترکی اور قطر جیسے برادر ممالک کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کرنے والا ہر شخص یہ باآسانی دیکھ سکتا تھا کہ طالبان انتظامیہ محض عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی تھی، بغیر اس کے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے عناصر کے خلاف کوئی عملی اور قابلِ تصدیق اقدام کیا جائے۔
پاکستان کے بنیادی تحفظاتی خدشے کے حل کے بجائے افغان انتظامیہ نے مفروضاتی الزامات اور جذباتی بیانیے کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، مذاکرات کو طول دیا اور غیر ضروری بحث میں الجھ کر کسی ٹھوس اتفاقِ رائے تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول افغانستان پاکستان ترکیہ اور ایران