Express News:
2025-06-25@11:04:06 GMT

ماحولیاتی آلودگی ذہنی تناؤ کا سبب ہے

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

انسانی صحت کا ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔ فطرت اور انسان ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ جب فطرت متوازن ہو، فضا صاف ہو، دریا بہتے ہوں، درخت سانس لیتے ہوں، پرندے چہچہاتے ہوں، تو انسان بھی اندر سے پرسکون اور خوش ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنی ترقی،آسانی اور لالچ کے تحت اس توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ شہری زندگی کی تیزی، صنعتی ترقی کا بے قابو پھیلاؤ، قدرتی وسائل کا استحصال اورکچرے کے انبار ہماری دنیا کو نہ صرف آلودہ کر رہے ہیں بلکہ ہمارے دماغوں اور دلوں کو بھی گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کی کئی صورتیں ہیں۔ فضا میں اٹھتا دھواں، زہریلی گیسیں، گاڑیوں کا دھواں اور شور، فیکٹریوں سے بہتا ہوا گندا پانی، زمین پر بکھرا ہوا پلاسٹک، یہ سب صرف زمین کی صحت کو خراب نہیں کررہے بلکہ انسان کی ذہنی کیفیت کو بھی غیر محسوس انداز میں متاثرکررہے ہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ذہنی وجذباتی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

آج کے دور میں ڈپریشن، بے چینی، نیندکی خرابی، یاد داشت کی کمزوری اور توجہ کی کمی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ماہرین نفسیات اور نیوروسائنسدانوں کے مطابق ان مسائل کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ فضائی آلودگی میں شامل باریک ذرات جب سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ دماغ کی رگوں کو متاثرکرتے ہیں۔ یہ ذرات نیورونزکے درمیان پیغام رسانی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، جس سے موڈ میں تبدیلی، ذہنی تھکن اور چڑچڑاہٹ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

روشنی کی آلودگی نیند کے قدرتی عمل کو متاثرکرتی ہے۔ جب رات کے وقت بھی مصنوعی روشنی کا غلبہ ہوتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ قدرتی ہارمون جو نیند لاتا ہے (میلاٹونن) کم پیدا ہوتا ہے، جس سے نیند کی کمی اور اس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ شورکی آلودگی بھی اسی طرح انسانی دماغ کو مسلسل الرٹ رکھتی ہے، جس سے دماغی سکون متاثر ہوتا ہے اور انسان تھکاوٹ، اینگزائٹی اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو بچوں پر اس کا اثر اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بچے جو شور،آلودگی اور غیر فطری ماحول میں پلتے ہیں، ان کی دماغی نشوونما سست ہو جاتی ہے۔ ان کی سیکھنے کی صلاحیت، توجہ کی قوت اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ جلدی تھک جاتے ہیں، چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور سوشل تعلقات بنانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سماجی تعلقات اور معاشرتی رویوں پر بھی پڑتا ہے۔ جب لوگ ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے سے الجھتے ہیں، بحث کرتے ہیں، برداشت کم ہو جاتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی بکھرنے لگتی ہے۔ معاشرہ عدم برداشت، غصے اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں ماحولیاتی آلودگی ایک خاموش سماجی بیماری کے طور پر ذہنی ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔

اس صورتحال کا حل صرف ماحولیاتی تبدیلیوں میں ہی نہیں، بلکہ ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینے میں بھی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ماحولیاتی تحفظ کو صرف ماہرین یا حکومت کی ذمے داری سمجھنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔ درختوں کی حفاظت اور نئے درخت لگانے، پلاسٹک کے استعمال کو محدود کرنے، صاف ستھری سواریوں کو ترجیح دینے،کچرے کی منظم ری سائیکلنگ اور صاف پانی کے ذرایع کو محفوظ رکھنے جیسے اقدامات ہر فرد کے اختیار میں ہیں۔

ساتھ ہی، ذہنی صحت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ذہنی بیماریوں کو معمولی یا شرمندگی کی بات سمجھنے کے بجائے، سنجیدگی سے لینا چاہیے جیسے ہم جسمانی بیماریوں کو لیتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مراکز ہر علاقے میں قائم کیے جائیں، جہاں سستی اور آسان رسائی ممکن ہو۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ذہنی سکون کے طریقے سکھائے جائیں، جیسے مراقبہ، یوگا یا نیچر تھراپی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو موبائل اسکرین سے نکال کر فطرت کے قریب لے جائیں۔ کبھی پارک میں وقت گزاریں،کبھی دریا کے کنارے بیٹھیں اور بچوں سے فطری ماحول کی باتیں کریں۔

ہمیں اپنے طرز زندگی میں ایسے عناصر شامل کرنے ہوں گے جو ذہنی سکون فراہم کریں جیسے روزانہ کچھ وقت فطرت میں گزارنا، خود سے بات کرنا، تنہائی سے گھبراہٹ کے بجائے اسے اپنی طاقت بنانا، مثبت سوچ کو اپنانا، دوسروں کی مدد کرنا اور سب سے بڑھ کر خود کو قبول کرنا۔ دماغی صحت کا مطلب صرف بیماری سے بچاؤ نہیں، بلکہ خود کو بہتر بنانا، اپنے خیالات کو سمجھنا اور زندگی کو توازن کے ساتھ جینا ہے۔

سوک سینس دراصل وہ اخلاقی و ذہنی بیداری ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم نے ماحول کو بہتر بنایا تو ہم نے ذاتی بہتری کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اگر ہم نے درختوں کو بچایا، تو ہم نے اپنی سانس کو تحفظ عطا کیا، اگر ہم نے شور کم کیا، تو ہم نے کسی کے سکون کو محفوظ کیا، اگر ہم نے کسی کا ذہنی بوجھ کم کیا، تو ہم نے ایک مکمل انسان کو تباہ ہونے سے بچایا۔ یہ ایک اجتماعی سفر ہے، جس میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف صرف احتجاج نہ کریں بلکہ اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔ اپنی ذہنی صحت کو نظرانداز نہ کریں بلکہ اسے ترجیح دیں اور سب سے بڑھ کر، سوک سینس کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں، تاکہ ہم ایک پرسکون، صحت مند اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

بدقسمتی سے، ہم نے ترقی کے سفر میں فطری ماحول سے فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اکثر لوگ ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک فطرت کے لمس سے محروم رہتے ہیں۔ درخت صرف تصویروں میں نظر آتے ہیں، پرندوں کی آوازیں موبائل کی رنگ ٹونز تک محدود ہوگئی ہیں اور ندیوں کا بہاؤ صرف بچوں کی کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے۔ ایسے ماحول میں پلنے والے انسان کا دل بھی بنجر ہونے لگتا ہے۔ وہ جمالیاتی حسن، جو فطرت ہمیں سکھاتی ہے، جب ہمارے شعور سے مٹنے لگتا ہے تو انسان بے رنگ، بے ذوق اور بے حس ہونے لگتا ہے۔

فطرت سے جڑنے کا عمل صرف باہرکی دنیا کو بہتر بنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ اندر کی دنیا کو روشن کرنے کا راستہ بھی ہے۔ جب انسان سبزے سے تحرک حاصل کرتا ہے، کھلی فضا میں سانس لیتا ہے، پرندوں کی آواز سنتا ہے، تو دماغ میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جو خوشی، سکون اور محبت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ یہی جذبات انسان کو نرم مزاج بناتے ہیں، دوسروں سے بہتر تعلق بنانے میں مدد دیتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے، ماحول کی حفاظت دراصل انسان کی اندرونی دنیا کی حفاظت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماحولیاتی ا لودگی اگر ہم نے کرتے ہیں ہوتے ہیں تو ہم نے ہوتا ہے صحت کو

پڑھیں:

اچھی نیند صرف آرام نہیں، صحت، خوبصورتی اور ذہنی سکون کی ضامن ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: نیند ہماری روزمرہ زندگی کا ایک ایسا اہم جزو ہے جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ نیند نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق ماہرین صحت  کاکہنا ہےکہ  اگر آپ ہر رات 7 سے 8 گھنٹے کی معیاری نیند لیتے ہیں تو یہ آپ کی مجموعی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، نیند کی کمی صرف تھکن یا سستی کا باعث نہیں بنتی، بلکہ یہ دل، دماغ، جِلد، ہارمونی نظام، قوتِ مدافعت اور ذہنی کارکردگی سمیت کئی اہم جسمانی نظاموں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

 نیند کےبے شمار  فوائد  ہیں جس میں  خوبصورت جِلد کا ہونا، نیند مکمل ہونے کی صورت میں دماغی کارکردگی میں بہتری آتی ہے، وزن میں توازن بھی رہتا ہے اور دل کے امراض سے بھی بچاجاسکتا ہے۔

خوبصورت جِلد (Beauty Sleep):

نیند کے دوران جسم خود کو بحال کرتا ہے، خاص طور پر جِلد کی مرمت کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ 7 سے 8 گھنٹے کی نیند کے بعد چہرہ تروتازہ اور جلد زیادہ صاف نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیند کو “بیوٹی سلیپ” بھی کہا جاتا ہے۔

دماغی کارکردگی میں بہتری:

نیند دماغ کی فائلنگ سسٹم کی طرح کام کرتی ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو دماغ یادداشت کو ترتیب دیتا ہے، نئی معلومات کو محفوظ کرتا ہے اور جذبات کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ نیند کی کمی ذہنی دباؤ، چڑچڑاہٹ اور ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے۔

قوتِ مدافعت میں اضافہ:

نیند کے دوران جسم مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے، جس سے ہم بیماریوں سے بہتر طریقے سے لڑ سکتے ہیں۔ نیند کی کمی نزلہ، زکام اور دیگر وائرل انفیکشنز کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

وزن میں توازن:

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو افراد نیند کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، ان میں بھوک کے ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے، جس سے وزن بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

دل کی صحت بہتر:

نیند دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور ہارمونی توازن کو منظم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ کم نیند لینے والے افراد میں دل کے امراض کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے‘ڈاکٹر فواد احمد
  • عوام خصوصاً نوجوان انقلاب کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں‘وجیہہ حسن
  • شریک جرم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان قربان کردے، شوکت صدیقی
  • ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث
  • راجا پرویز اشرف کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، پی ٹی آئی ارکان کو ذہنی مریضوں کا ٹولہ قرار دے دیا
  • راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی ارکان کو ذہنی مریضوں کا ٹولہ قرار دے دیا
  • وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق مسعود ملک کی ملاقات،سفارتی ملاقاتوں کے حوالے سے آگاہ کیا
  • تصادم اور تغیر کا زمانہ
  • تجربات کی بھینٹ چڑھتے انسان
  • اچھی نیند صرف آرام نہیں، صحت، خوبصورتی اور ذہنی سکون کی ضامن ہے