ماحولیاتی آلودگی ذہنی تناؤ کا سبب ہے
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
انسانی صحت کا ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔ فطرت اور انسان ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ جب فطرت متوازن ہو، فضا صاف ہو، دریا بہتے ہوں، درخت سانس لیتے ہوں، پرندے چہچہاتے ہوں، تو انسان بھی اندر سے پرسکون اور خوش ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنی ترقی،آسانی اور لالچ کے تحت اس توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ شہری زندگی کی تیزی، صنعتی ترقی کا بے قابو پھیلاؤ، قدرتی وسائل کا استحصال اورکچرے کے انبار ہماری دنیا کو نہ صرف آلودہ کر رہے ہیں بلکہ ہمارے دماغوں اور دلوں کو بھی گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی کئی صورتیں ہیں۔ فضا میں اٹھتا دھواں، زہریلی گیسیں، گاڑیوں کا دھواں اور شور، فیکٹریوں سے بہتا ہوا گندا پانی، زمین پر بکھرا ہوا پلاسٹک، یہ سب صرف زمین کی صحت کو خراب نہیں کررہے بلکہ انسان کی ذہنی کیفیت کو بھی غیر محسوس انداز میں متاثرکررہے ہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ذہنی وجذباتی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
آج کے دور میں ڈپریشن، بے چینی، نیندکی خرابی، یاد داشت کی کمزوری اور توجہ کی کمی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ماہرین نفسیات اور نیوروسائنسدانوں کے مطابق ان مسائل کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ فضائی آلودگی میں شامل باریک ذرات جب سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ دماغ کی رگوں کو متاثرکرتے ہیں۔ یہ ذرات نیورونزکے درمیان پیغام رسانی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، جس سے موڈ میں تبدیلی، ذہنی تھکن اور چڑچڑاہٹ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
روشنی کی آلودگی نیند کے قدرتی عمل کو متاثرکرتی ہے۔ جب رات کے وقت بھی مصنوعی روشنی کا غلبہ ہوتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ قدرتی ہارمون جو نیند لاتا ہے (میلاٹونن) کم پیدا ہوتا ہے، جس سے نیند کی کمی اور اس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ شورکی آلودگی بھی اسی طرح انسانی دماغ کو مسلسل الرٹ رکھتی ہے، جس سے دماغی سکون متاثر ہوتا ہے اور انسان تھکاوٹ، اینگزائٹی اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو بچوں پر اس کا اثر اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بچے جو شور،آلودگی اور غیر فطری ماحول میں پلتے ہیں، ان کی دماغی نشوونما سست ہو جاتی ہے۔ ان کی سیکھنے کی صلاحیت، توجہ کی قوت اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ جلدی تھک جاتے ہیں، چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور سوشل تعلقات بنانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سماجی تعلقات اور معاشرتی رویوں پر بھی پڑتا ہے۔ جب لوگ ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے سے الجھتے ہیں، بحث کرتے ہیں، برداشت کم ہو جاتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی بکھرنے لگتی ہے۔ معاشرہ عدم برداشت، غصے اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں ماحولیاتی آلودگی ایک خاموش سماجی بیماری کے طور پر ذہنی ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔
اس صورتحال کا حل صرف ماحولیاتی تبدیلیوں میں ہی نہیں، بلکہ ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینے میں بھی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ماحولیاتی تحفظ کو صرف ماہرین یا حکومت کی ذمے داری سمجھنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔ درختوں کی حفاظت اور نئے درخت لگانے، پلاسٹک کے استعمال کو محدود کرنے، صاف ستھری سواریوں کو ترجیح دینے،کچرے کی منظم ری سائیکلنگ اور صاف پانی کے ذرایع کو محفوظ رکھنے جیسے اقدامات ہر فرد کے اختیار میں ہیں۔
ساتھ ہی، ذہنی صحت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ذہنی بیماریوں کو معمولی یا شرمندگی کی بات سمجھنے کے بجائے، سنجیدگی سے لینا چاہیے جیسے ہم جسمانی بیماریوں کو لیتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مراکز ہر علاقے میں قائم کیے جائیں، جہاں سستی اور آسان رسائی ممکن ہو۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ذہنی سکون کے طریقے سکھائے جائیں، جیسے مراقبہ، یوگا یا نیچر تھراپی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو موبائل اسکرین سے نکال کر فطرت کے قریب لے جائیں۔ کبھی پارک میں وقت گزاریں،کبھی دریا کے کنارے بیٹھیں اور بچوں سے فطری ماحول کی باتیں کریں۔
ہمیں اپنے طرز زندگی میں ایسے عناصر شامل کرنے ہوں گے جو ذہنی سکون فراہم کریں جیسے روزانہ کچھ وقت فطرت میں گزارنا، خود سے بات کرنا، تنہائی سے گھبراہٹ کے بجائے اسے اپنی طاقت بنانا، مثبت سوچ کو اپنانا، دوسروں کی مدد کرنا اور سب سے بڑھ کر خود کو قبول کرنا۔ دماغی صحت کا مطلب صرف بیماری سے بچاؤ نہیں، بلکہ خود کو بہتر بنانا، اپنے خیالات کو سمجھنا اور زندگی کو توازن کے ساتھ جینا ہے۔
سوک سینس دراصل وہ اخلاقی و ذہنی بیداری ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم نے ماحول کو بہتر بنایا تو ہم نے ذاتی بہتری کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اگر ہم نے درختوں کو بچایا، تو ہم نے اپنی سانس کو تحفظ عطا کیا، اگر ہم نے شور کم کیا، تو ہم نے کسی کے سکون کو محفوظ کیا، اگر ہم نے کسی کا ذہنی بوجھ کم کیا، تو ہم نے ایک مکمل انسان کو تباہ ہونے سے بچایا۔ یہ ایک اجتماعی سفر ہے، جس میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف صرف احتجاج نہ کریں بلکہ اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔ اپنی ذہنی صحت کو نظرانداز نہ کریں بلکہ اسے ترجیح دیں اور سب سے بڑھ کر، سوک سینس کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں، تاکہ ہم ایک پرسکون، صحت مند اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔
بدقسمتی سے، ہم نے ترقی کے سفر میں فطری ماحول سے فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اکثر لوگ ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک فطرت کے لمس سے محروم رہتے ہیں۔ درخت صرف تصویروں میں نظر آتے ہیں، پرندوں کی آوازیں موبائل کی رنگ ٹونز تک محدود ہوگئی ہیں اور ندیوں کا بہاؤ صرف بچوں کی کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے۔ ایسے ماحول میں پلنے والے انسان کا دل بھی بنجر ہونے لگتا ہے۔ وہ جمالیاتی حسن، جو فطرت ہمیں سکھاتی ہے، جب ہمارے شعور سے مٹنے لگتا ہے تو انسان بے رنگ، بے ذوق اور بے حس ہونے لگتا ہے۔
فطرت سے جڑنے کا عمل صرف باہرکی دنیا کو بہتر بنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ اندر کی دنیا کو روشن کرنے کا راستہ بھی ہے۔ جب انسان سبزے سے تحرک حاصل کرتا ہے، کھلی فضا میں سانس لیتا ہے، پرندوں کی آواز سنتا ہے، تو دماغ میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جو خوشی، سکون اور محبت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ یہی جذبات انسان کو نرم مزاج بناتے ہیں، دوسروں سے بہتر تعلق بنانے میں مدد دیتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے، ماحول کی حفاظت دراصل انسان کی اندرونی دنیا کی حفاظت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماحولیاتی ا لودگی اگر ہم نے کرتے ہیں ہوتے ہیں تو ہم نے ہوتا ہے صحت کو
پڑھیں:
بابراعظم کی انجری پشاور زلمی کے لیے بڑا دھچکا
پاکستان سپر لیگ کی معروف فرنچائز پشاور زلمی کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا ہے جب ٹیم کے مستقل کپتان اور اسٹار بلے باز بابراعظم ایک اہم میچ سے باہر ہو گئے اطلاعات کے مطابق راولپنڈی میں کراچی کنگز کے خلاف شیڈول اہم میچ سے قبل پریکٹس سیشن کے دوران بابراعظم کو گیند لگنے سے چوٹ آئی، جس کے بعد ان کی صحت سے متعلق تشویش بڑھ گئی ہے میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بابراعظم کی انجری کی نوعیت سنجیدہ ہو سکتی ہے اور اسی بنیاد پر ان کی نہ صرف اگلے میچ میں بلکہ ممکنہ طور پر پورے ایونٹ کے باقی میچز میں شرکت مشکوک ہو گئی ہے اگر ان کی چوٹ سنگین ثابت ہوئی تو پشاور زلمی کو نہ صرف اپنی کپتانی سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ بیٹنگ لائن کا سب سے اہم ستون بھی کمزور پڑ جائے گا اگرچہ فرنچائز کی جانب سے اب تک بابراعظم کے میچ سے باہر ہونے کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی، تاہم ٹیم ذرائع اس بات کی طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ ان کی دستیابی کا فیصلہ مکمل طبی معائنے کے بعد ہی کیا جائے گا بابراعظم کی عدم موجودگی میں پشاور زلمی کی کارکردگی پر براہ راست اثر پڑنے کا خدشہ ہے، کیونکہ وہ نہ صرف ایک تجربہ کار لیڈر ہیں بلکہ ٹورنامنٹ کے بہترین اسکوررز میں بھی شامل ہیں مداحوں اور ٹیم مینجمنٹ کی نظریں اب بابراعظم کی فٹنس رپورٹ پر جمی ہوئی ہیں، اور سب دعا گو ہیں کہ وہ جلد صحتیاب ہو کر ایک بار پھر میدان میں دکھائی دیں