آوازا کانفرنس: خشکی میں گھرے ممالک کا نیا ماحولیاتی اتحاد بنانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اگست 2025ء) سمندر تک براہ راست رسائی سے محروم ممالک (ایل ایل ڈی سی) کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک نئے ماحولیاتی مذاکراتی اتحاد کے قیام پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ ترکمانستان کے شہر آوازا میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام جاری خشکی سے گھرے ممالک کی تیسری کانفرنس (ایل ایل ڈی سی 3) کے تیسرے روز کیا گیا۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے تحت یہ اتحاد عالمی سطح پر موسمیاتی بات چیت میں ان ممالک کی آواز بنے گا جہاں انہیں درپیش مسائل کو طویل عرصہ سے مناسب توجہ نہیں مل رہی۔ Tweet URLاگرچہ یہ ممالک دنیا کے تقریباً 12 فیصد رقبے کا احاطہ کرتے ہیں لیکن گزشتہ دہائی میں کرہ ارض پر خشک سالی اور پہاڑی علاقوں میں تودے گرنے کے 20 فیصد واقعات انہی ممالک میں پیش آئے۔
(جاری ہے)
اس سے موسمیاتی آفات سے انہیں ہونے والے غیرمتناسب نقصان کا اندازہ ہوتا ہے۔سمندر تک رسائی نہ ہونے کے باعث ان ممالک کو اپنے ہمسایہ ملکوں کے ذریعے تجارت کرنا پڑتی ہے جس کے موسمی شدت کے واقعات سے متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
'آوازا پروگرام آف ایکشن' کے تحت پہلی مرتبہ ایسا لائحہ عمل بنایا جا رہا ہے جس میں ان ممالک کو کڑے موسمیاتی حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد کی فراہمی پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔
محدود صلاحیتیں، بڑھتے مسائلقدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے امور پر اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) کی سربراہ نتالیا الونسو کانو نے یو این نیوز کو انٹرویو میں بتایا ہے کہ 'ایل ایل ڈی سی' کا نصف سے زیادہ علاقہ خشک ہے اور ان میں کئی ممالک پہاڑی خطوں میں واقع ہیں اور بعض کا جغرافیہ ایسا ہے جہاں زلزلے آنے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔
عالمی اوسط کے مقابلے میں ان ممالک کو معاشی نقصانات کا خطرہ تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ قدرتی آفات آنے کی صورت میں ان ممالک میں اموات کی شرح بھی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
ان ممالک کو ماحولیاتی مسائل کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ ان کے پاس مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور ان کی معیشتیں غیر متنوع اور اشیائے صرف پر مبنی ہوتی ہیں جبکہ ایسے کئی ممالک میں حکومتی نظام کمزور ہوتا ہے۔
2024 میں ایسے ایک تہائی ممالک تنازعات کا شکار تھے یا ان کی حالت غیرمستحکم تھی۔طویل المدتی منصوبہ بندیاقوام متحدہ کے نئے 10 سالہ لائحہ عمل میں ان ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے، پائیدار ترقی اور قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے لیے مدد دینے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
الونسو کانو نے اس حوالے سے اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آفات سے بروقت آگاہی دینے کے نظام کی بدولت زندگیوں کو تحفظ ملتا ہے۔
اس کے ذریعے لوگوں کو آفات کے لیے تیار رہنے اور بروقت انخلا کرنے میں مدد ملتی ہے۔انہوں نے خشک سالی سے نمٹنے کی تیاری کی مثال دیتے ہوئے کہا، اگر کسی علاقے کو مسلسل اس مسئلے کا سامنا ہو تو مقامی سطح پر لوگوں کے تعاون سے اس کے اثرات پر قابو پانے کی تیاری کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مویشیوں کی تعداد کو کم کرنے اور پانی کے ذرائع کی طرف منتقل ہونے سمیت کئی طرح کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور یاد رکھنا ہو گا کہ آئندہ دو یا تین دہائیوں میں کیا ہونے والا ہے۔ یقینی طور پر اس عرصہ میں موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
خواتین اور لڑکیوں کی ترقی'ایل ایل ڈی سی' میں خواتین اور لڑکیوں کو لاحق مسائل اور خطرات کے تناظر میں آج کانفرنس میں خصوصی بات چیت ہوئی۔
اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل رباب فاطمہ نے ویمن لیڈرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی مکمل شرکت کے بغیر پائیدار ترقی کا حصول ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی صورتحال میں بہتری کی جانب بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس وقت ان ممالک کی پارلیمان میں ایک تہائی ارکان کی تعداد خواتین پر مشتمل ہے جبکہ 25 برس پہلے یہ شرح 7.
رباب فاطمہ نے کہا کہ متعدد کامیابیوں کے باوجود خواتین کی حالت میں بہتری لانے سے متعلق پیش رفت سست اور ناہموار ہے۔ ایسے ممالک میں ایک چوتھائی خواتین شدید غربت کا شکار ہیں جن کی تعداد تقریباً سات کروڑ 50 لاکھ ہے۔ اسی طرح، تقریباً نصف (25 کروڑ) خواتین کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
روزگار سے متعلق اعدادوشمار میں بھی صنفی حوالے سے نمایاں تفاوت دکھائی دیتا ہے۔ ان ممالک میں 80 فیصد خواتین غیررسمی شعبے میں کام کرتی ہیں جنہیں ٹھیکوں یا تحفظ تک رسائی نہیں ہے جبکہ ایسی خواتین کی عالمی اوسط 56 فیصد ہے۔
خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہو جاتی ہے۔ یہ عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا بڑی تعداد ہے اور ایک تہائی لڑکیاں ہی ثانوی درجے کی تعلیم مکمل کر پاتی ہیں۔
علاوہ ازیں، ان ممالک میں صرف 36 فیصد خواتین کو ہی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔اسی لیے، ان کا کہنا تھا کہ صنعتی اور ترقیاتی پالیسیوں میں صنفی مساوات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان پالیسیوں کو ہر ملک کے حالات کے مطابق ہونا چاہیے اور دیہی علاقوں میں صنعتی ترقی، کاروبار میں مدد کی فراہمی، روزگار کو رسمی صورت دینا اور شراکتوں کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔
مساوی ڈیجیٹل مواقع'عالمی مواصلاتی یونین' (آئی ٹی یو) میں ٹیلی مواصلات کی ترقی کے دفتر کے سربراہ کاسموس لوکسن زاوازاوا نے یو این نیوز کو بتایا کہ اگرچہ بعض خطوں نے انٹرنیٹ تک رسائی کے معاملے میں صنفی مساوات کا ہدف حاصل کر لیا ہے لیکن 'ایل ایل ڈی سی' کو تاحال بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسطی ایشیائی خطے میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے خصوصی پروگرام وضع کیے گئے ہیں۔
اس کا مقصد محض انٹرنیٹ تک رسائی کو یقینی بنانا ہی نہیں بلکہ خواتین اور لڑکیوں کو کوڈنگ اور روبوٹکس کی صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنا اور انہیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں کیریئر بنانے کی ترغیب دینا بھی ہے۔فیصلہ کن موڑکل اس کانفرنس کا آخری دن ہےجس میں شرکا کی جانب سے 'آوازا پروگرام آف ایکشن' کے لیے سیاسی عزم کی توثیق متوقع ہے جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2024 میں منظور کیا تھا۔
رباب فاطمہ کا کہنا تھا اس پروگرام پر عملدرآمد کا وقت آ گیا ہے اور اس کے لیے آوازا کانفرنس کو فیصلہ کن موڑ بننا ہو گا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین اور لڑکیوں اقوام متحدہ کے ایل ایل ڈی سی میں ان ممالک کا کہنا تھا ان ممالک کو عالمی اوسط ایک تہائی ممالک میں تک رسائی آفات سے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
یوسف رضا گیلانی سے آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز کی ملاقات، تجارت، تعلیم، دفاع اور ماحولیاتی تعاون کو مزید فروغ دینے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء)چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان آسٹریلیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پارلیمانی دوستی گروپس کو مزید فعال بنایا جائے ، پارلیمانی وفود کے باقاعدہ تبادلوں سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی ہم آہنگی اور خیرسگالی کو فروغ ملے گا۔ پیر کو سینیٹ سیکرٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے آسٹریلیا کے ہائی کمشنر نیل ہاکنز سے ملاقات کے دوران کیا جنہوں نے پیر کو یہاں ان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے اور مختلف شعبوں میں نئے مواقع تلاش کرنے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر تجارت، تعلیم، دفاع، پارلیمانی تعاون، ثقافتی تبادلے، موسمیاتی تبدیلی اور عوامی سطح پر روابط جیسے اہم موضوعات زیر غور آئے۔(جاری ہے)
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان آسٹریلیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
انہوں نے پاکستان اور آسٹریلیا کے تاریخی تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان 1948ء میں سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آسٹریلیا جمہوری اقدار اور دو ایوانی پارلیمانی نظام کی مشترکہ روایات کے حامل ہیں جو مزید قریبی تعاون کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی نے سبکدوش ہونے والے آسٹریلوی ہائی کمشنر کی خدمات کو سراہا خاص طور پر تعلیم، ثقافتی روابط اور ترقیاتی پروگراموں کے فروغ میں ان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ پارلیمانی دوستی گروپس کو مزید فعال بنایا جائے ، پارلیمانی وفود کے باقاعدہ تبادلوں سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی ہم آہنگی اور خیرسگالی کو فروغ ملے گا۔تجارتی و معاشی تعاون پر بات کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان موجودہ دوطرفہ تجارتی حجم 2.5 ارب ڈالر ہے جس میں نمایاں اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے زراعت، قابل تجدید توانائی، معدنی وسائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی تجویز دی۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان اپنی برآمدات خصوصاً ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، آئی ٹی سروسز اور فوڈ پراڈکٹس کے شعبوں میں برآمدات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے دونوں ممالک کے ایوان ہائے صنعت و تجارت اور نجی شعبے کے مابین مشترکہ فورم کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔دفاعی شعبے میں تعاون پر زور دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دفاعی روابط کو مزید وسعت دی جانی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کے لئے آسٹریلیا کی ترقیاتی معاونت کو بھی سراہا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں، حالیہ تباہ کن بارشیں اور سیلاب اس کی واضح مثال ہیں۔ انہوں نے مشترکہ حکمتِ عملی اور عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ان چیلنجز کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے عوامی سطح پر گہرے تعلقات ہیں، آسٹریلیا میں پاکستانی کمیونٹی نہ صرف ملکی معیشت میں کردار ادا کر رہی ہے بلکہ ترسیلات زر کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو سہارا بھی دے رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بحیثیت سپیکر ان کا سرکاری دورہ آسٹریلیا دو طرفہ پارلیمانی تعلقات میں نئی جان ڈالنے کا سبب بنا۔ یوسف رضا گیلانی نے اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے تیز کرنے، سالانہ مشترکہ پارلیمانی اجلاس کو ادارہ جاتی شکل دینے اور موضوعاتی ورکنگ گروپس کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے جدت، سبز معیشت کی جانب منتقلی، شمولیتی ترقی اور پارلیمانی سطح پر قریبی ہم آہنگی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔آسٹریلوی ہائی کمشنر نے پاکستان میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں قیمتی جانوں اور املاک کے ضیاع پر گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔چیئرمین سینیٹ نے ہائی کمشنر کو اپنے حالیہ دورہ جنوبی پنجاب کے بارے میں بھی آگاہ کیا جہاں سیلاب نے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ انہوں نے فلاحی اداروں اور مخیر حضرات سے متاثرین کی فوری مدد کی اپیل کی۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے آسٹریلوی ہائی کمشنر کو آئندہ بین الپارلیمانی سپیکرز کانفرنس (آئی ایس سی ) کے بارے میں بھی بریفنگ دی جو رواں برس نومبر میں منعقد ہوگی۔ انہوں نے آسٹریلوی پارلیمانی قیادت کو اس کانفرنس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی اور کہا کہ ان کی شرکت کانفرنس کی کامیابی کے لیے نہایت اہم ہوگی۔کانفرنس کی سفیر اور چیئرمین سینیٹ کی مشیر مصباح کھر نے ہائی کمشنر کو کانفرنس کے موضوع اور اس کے مجموعی اہداف سے آگاہ کیا۔ملاقات کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور آسٹریلیا کے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور عالمی و علاقائی امن کے لئے مشترکہ کاوشیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔