ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو کریٹ تھا‘ وہ اکیسویں گریڈ کا ایڈیشنل سیکریٹری تھا‘ دوسرا پروفیسر ڈاکٹر تھا‘ وہ دل کے امراض کا علاج کرتا تھا اور تیسرا میں تھا‘ وقت ضایع کرنے والا خبطی صحافی۔ ہم تینوں مذہبی طبقے بالخصوص تبلیغی جماعت کے خلاف تھے‘ ہمارا خیال تھا’’ یہ لوگ توانائی اور وقت دونوں ضایع کرتے ہیں‘ معاشرے کو اس وقت بل گیٹس‘ وارن بفٹ اور مارک زکر برگ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے‘ ہمیں وال مارٹ جیسی کمپنیاں اور سیم والٹن جیسے لوگ چاہئیں‘ اس سیم والٹن جیسے لوگ جس نے 1950میں آرکنساس کے چھوٹے سے ٹاؤن میں چھوٹا سا اسٹور کھولا‘ دن رات محنت کی‘ یہ اسٹور 17 برسوں میں ایک سے 24 ہوگیا‘ یہ اسٹور 1970کی دہائی میں آرکنساس کی اسٹیٹ سے باہر نکلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے امریکا میں پھیل گیا‘ دنیا کے 15 ملکوں میں اس وقت وال مارٹ کے ساڑھے آٹھ ہزار اسٹورز ہیں۔
یہ اسٹورز کی دنیا کی سب سے بڑی چین اور دنیا کی دوسری بڑی پبلک کارپوریشن ہے‘ ملازمین کی تعداد بائیس لاکھ ہے اور یہ کمپنی سالانہ 252 ارب ڈالر کماتی ہے‘ یہ دنیا میں سب سے زیادہ مصنوعات بیچنے والی کارپوریشن بھی ہے اور یہ لوگ دنیا میں سب سے سستی مصنوعات بھی فروخت کرتے ہیں‘ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ساڑھے آٹھ ہزار اسٹورز ایک دفتر سے چلائے جاتے ہیں‘ اسٹورز کے ریکس میں مصنوعات کم ہوتی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی چین کی مختلف کمپنیوں اور فیکٹریوں میں آرڈرز پہنچتے جاتے ہیں‘ ایک خود کار نظام کے تحت یہ مصنوعات چین سے نکلتی ہیں‘ بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر اترتی ہیں‘ پے منٹس کا سسٹم بھی خود کار ہے‘ اسٹورز کی آمدنی روزانہ بینکوں میں جاتی ہے۔
یہ بینک یہ رقم سینٹرل اکاؤنٹ میں پھینکتے ہیں اور سینٹرل اکاؤنٹ سے یہ رقم آٹومیٹک کمپنیوں کو منتقل ہو جاتی ہے‘ گویا مصنوعات کی ڈیلیوری‘ سیل‘ پے منٹ اور ٹیکس سے لے کر منافع تک سارا نظام خود کار ہے‘ یہ سارے فیصلے کمپیوٹر کرتا ہے‘ مالکان‘ ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز صرف کام یابی کو انجوائے کرتے ہیں‘‘ عالم اسلام کو ایسے لوگ چاہئیں جو معاشرے میں تحریک بھی پیدا کریں اور معاشرے کو سکون‘ اطمینان اور کامیابی کے ٹریک پر بھی لائیں جب کہ ہمارے علماء کرام تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگوں اور معمولی درجے کا کام کرنے والے ورکروں کو بھی بے عملی اور سستی کے غار میں دھکیل رہے ہیں‘ ہم طب‘ انجینئرنگ‘ کمپیوٹر سائنسز اور سماجیات میں پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور جو لولے لنگڑے لوگ بچ گئے ہیں۔
ہم انھیں بھی کام سے اٹھا کر چِلوں پر لگا رہے ہیں‘ یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟‘‘ ان دونوں نے میری بات سے اتفاق کیا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’تعمیرات اس وقت دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ ہے‘ چین اس میدان میں کمال کر رہا ہے‘ چین نے2015میں 18 دنوں میں 57 منزلہ ٹاور بنا کر دنیا کو حیران کر دیا‘ اسی سال 15 دنوں میں 30 منزلہ ہوٹل اور تین دن میں دو منزلہ گھر بنایا اور یہ عمارتیں قابل رہائش بھی تھیں‘‘ وہ دونوں ہنسے اور میری تائید کی‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ہم فرد کو بدلنے‘ اس کو متحرک کرنے کے بجائے اسے مزید سست بنا رہے ہیں‘ یہ دنیا عمل کی دنیا ہے‘ یہ دنیا ماں کے پیٹ میں پلتے بچے کے دل کا آپریشن کر رہی ہے۔
یہ ہمارے خون میں چھپے ڈی این اے سے ہمارے آباؤ اجداد کا اندازہ لگا رہی ہے‘ ہمارے خون کا ڈی این اے ہمیں بتاتا ہے آسٹریلیا کے قدیم باشندے ابروجینل اور نیوزی لینڈ کے موری تامل ناڈو کے گاؤں جوتھی ماڑی کم میں رہنے والے ویروماندی کے کزن ہیں‘ یہ لوگ ہزاروں سال پہلے برف پر سفر کرتے ہوئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچے تھے‘ برف پگھل گئی اور یوں ان کا تامل ناڈو سے رابطہ کٹ گیا‘ اکیسویں صدی میں جب ڈی این اے کا انقلاب آیا اور سائنس نے انسان کے ٹریک کو ٹریک کرنا شروع کیا تو اسے پتا چلا ہم کون ہیں‘ ہم کہاں سے چلے اور کب اور کہاں پہنچے لیکن ہمارے لوگ رائے ونڈ ہی سے باہر نہیں نکل رہے‘‘۔
میری گفتگو جاری تھی‘ اچانک ایڈیشنل سیکریٹری نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں‘ ہماری عبادات صرف فرائض تک محدود ہونی چاہییں اور ہمیں اپنے وقت کا زیادہ حصہ دنیا کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے‘ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور ہمیں اس رخ پر بھی توجہ دینی چاہیے‘‘ میں نے پوچھا ’’دوسرا رخ کیا ہے‘‘ وہ بولے ’’ میں ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا‘ میرے ایک بیچ میٹ کا فون آیا‘ وہ باریش بھی ہے اور تبلیغی جماعت سے بھی تعلق رکھتا ہے‘ ان کا کہنا تھا‘ ان کے چند دوست مجھ سے ملنا چاہتے ہیں‘ میں عموماً مولویوں سے پرہیز کرتا ہوں‘ یہ میری پرانی عادت ہے‘ میں مولویوں کی دکان سے سودا تک نہیں خریدتا‘ اس کی وجہ مذہب سے نفرت نہیں ہے بلکہ میں سوچتا ہوں۔
دکاندار کی غلط بیانی‘ منافع خوری یا خریدی ہوئی چیز کے نقص مجھے کہیں مذہب اور مولویوں سے مزید بدگمان نہ کر دیں چناںچہ میں کسی ایسے شخص سے ملتا ہوں اور نہ ہی معاملہ کرتا ہوں جس سے ملاقات میری بدگمانی میں اضافہ کر دے لیکن میں اس دن بحث کے موڈ میں تھا‘ میں اس دن کسی ایسے شخص کا منتظر تھا میں جس کے ساتھ سینگ پھنسا سکوں اور میرے کولیگ نے مجھے یہ موقع فراہم کر دیا‘ میں نے ان لوگوں کو لنچ کے وقت بلا لیا‘ وہ چھ لوگ تھے‘ وہ سب صحت مند مولوی تھے‘ وہ آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے‘ میں نے ان کے سامنے یہی آرگومنٹ رکھا جو آپ اس وقت ہمارے سامنے کھول کر بیٹھے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ نے آج تک معاشرے اور فرد کے لیے کیا کیا؟ آپ نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ وہ تمام لوگ خاموشی سے میری بات سنتے رہے‘ ان میں موجود ایک شخص نے میرا نام دہرایا اور اس کے بعد پوچھا’’ مجھے آپ کا نام جانا پہچانا لگ رہا ہے۔
آپ کہیں فلاں سال سندھ کے فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر تو نہیں تھے؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا‘ جی ہاں میں اس سال سندھ میں تھا اور اس ضلع کا ڈی سی تھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ جناب آپ کو یاد ہو گا‘ آپ ایک رات ہائی وے سے گزر رہے تھے اور آپ کی گاڑی ڈاکوؤں نے روک لی تھی‘ میں نے دماغ پر تھوڑا سا زور دے کر جواب دیا ہاں! آپ کی یہ بات بھی درست ہے‘ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن میں نے یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ اور پریس دونوں سے خفیہ رکھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ آپ کو یاد ہو گا‘ آپ کو ایک نوجوان ڈاکو نے تھپڑ مارے تھے‘ آپ جب بھی یہ کہتے تھے۔
میں ڈی سی ہوں تو وہ ڈاکو آپ کو تھپڑ مارتا تھا‘ میں نے کہا ‘ہاں! یہ بھی حقیقت ہے لیکن یہ واقعہ رپورٹ نہیں ہوا تھا‘ یہ آپ تک کیسے پہنچا؟ وہ صاحب مسکرائے اور مسکرا کر جواب دیا‘ وہ تھپڑ مارنے والا ڈاکو میں تھا‘ آپ مجھے دیکھیں اور اس وقت کے ڈاکو کو ذہن میں لائیں جس نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارے تھے اور آپ اس کے بعد اپنا سوال دہرائیں‘ مولویوں کی کسی تنظیم نے آج تک کسی کا مقدر نہیں بدلا‘ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا‘ میں اس کے جواب سے واقعی لاجواب ہو گیا‘ اس نے بعد ازاں بتایا‘ وہ سب سے پہلے خود تبدیل ہوا اور پھر اس کو دیکھ کر اس کا سارا قبیلہ‘ اس کے سارے ساتھی جرائم اور گناہوں سے توبہ تائب ہو گئے‘ میں یہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ اس کا ہاتھ چوما اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کی درخواست کی‘‘ ایڈیشنل سیکریٹری خاموش ہو گئے‘ ہم دونوں بھی خاموش تھے۔
یہ خاموشی چند لمحے جاری رہی پھر پروفیسر صاحب نے سر اٹھایا اور بولے ’’میرے پاس بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے‘ میرے کلینک میں ایک بزرگ آدمی داخل تھا‘ اس کے پاس ہر وقت لوگوں کا میلا لگا رہتا تھا‘ لوگ ساری ساری رات اس کے کمرے کے سامنے کھڑے رہتے تھے‘ ہم جب لوگوں کو منع کرتے تھے تو وہ رونا شروع کر دیتے تھے‘ ہمیں لوگوں کی اس عقیدت نے پریشان کر دیا‘ میں جس شخص سے پوچھتا تھا‘ آپ کو اس بوڑھے سے کیا ملتا ہے تو وہ جواب دیتا تھا‘ سکون‘ ہم جوں ہی انھیں دیکھتے ہیں‘ ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے‘ میں نے ایک دن باباجی سے پوچھ لیا‘ آپ کون ہیں اور آپ کو یہ رتبہ کیسے ملا‘ باباجی نے مسکرا کر جواب دیا‘ میں لاہور کا ایک جیب کترا تھا‘ میں جیب تراشی کرتا تھا‘ میں نے ایک دن لاری اڈے پر ایک مسافر کی جیب کاٹی‘ جیب سے 38 روپے اور ایک خط نکلا‘ یہ بیٹے کا اپنی ماں کے نام خط تھا‘ بیٹے نے لکھا تھا‘ ماں میں محنت مزدوری کر کے صرف 38 روپے جمع کر سکا ہوں‘ آپ ڈاکٹر کو یہ پیسے دے کر علاج شروع کرا لو‘ میں باقی 12 روپے بھی آپ کو جلد بھجوا دوں گا‘ میں یہ خط پڑھ کر لرز گیا‘ میں اسی وقت راج مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا‘ میں نے بارہ دن مزدوری کر کے بارہ روپے جمع کیے۔
حلال روزی کے یہ بارہ روپے ان 38 روپوں میں ملائے اور یہ رقم خط پر لکھے پتے پر منی آرڈر کر دی‘ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد میرا کوئی قدم برائی کے راستے پر نہیں پڑنے دیا‘ میں نے باباجی کا ہاتھ چوماا اور باہر آ گیا‘ وہ باباجی بھی تبلیغ کا کام کرتے تھے‘‘ پروفیسر صاحب بھی خاموش ہو گئے‘ وہاں اب خاموشی کا راج تھا‘ ہم تینوں خاموش بیٹھے تھے‘ تصویر کے دوسرے رخ نے ہم تینوں کو لاجواب کر دیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس کے بعد دنیا کی میں تھا ہیں اور اور یہ کر دیا ہے اور اور اس
پڑھیں:
قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اور اللہ کی آخری کتاب کی وہ روشن آیت۔ تاریخ، زندگی، روح، فطرت اور فکر ہر زاویے سے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ: اے ایمان والو یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بنائو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ ان ہی میں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (المائدہ: 51) امت مسلمہ کے باطل عناصر کی شناخت کے لیے یہ آیت آج بھی معانی فراہم کرتی ہے۔ وہ معانی جو تاریخ کے کسی بھی دور میں نئے اور نا معلوم نہیں رہے۔ وہ لوگ جن کے قول اور عمل میں یہود ونصاریٰ کی دوستی رچی بسی ہے، جو اس آیت میں بتائے گئے طے شدہ راستے کے برعکس عمل کرتے ہیں، جو خود بھی ظالموں کے زمرے میں ہیں، ان سے اظہار یکجہتی؟ ان کی حمایت؟ وہ وسیع گزرگاہ حیات قرآن جس کے حقائق سے ہمیں آگاہ کرتا ہے، جس فہم کو ہمارے اندر بیدار کرتا ہے اس کے مطابق قطر پر اسرائیل اور امریکا کا حملہ۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ قطر بظاہر اہل فلسطین کے دوست کا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن وہ ان کے سب سے بڑے دشمن، ان کی بربادی کے سب سے بڑے منصوبہ سازاور ان کی نسل کشی اور قتل کے سب سے بڑے مجرم امریکاکا سب سے بڑا دوست بھی ہے۔ اس کی دوستی پر اپنی قسمت کا سب سے بڑا شکر گزار۔ جب کہ:
٭ اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں کو سب سے زیادہ ویٹو کرنے والا: امریکا۔ ہر عالمی فورم پر اسرائیل کی پشت پناہی نہیں بلکہ خود اسرائیل بن جانے والا: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت جس کی امداد پرکھڑی ہے: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کو عربوں کو قتل کرنے والی سب سے بڑی مشین میں تبدیل کرنے والا: امریکا۔
٭ اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار، آئرن ڈوم، میزائل ڈیفنس سسٹم اور جدید ترین جیٹ طیارے فراہم کرنے والا: امریکا۔ یہودیوں کے خطے میں قابض ہونے کے بعد عربوں کے ساتھ ہر جنگ میں اسرائیل کو فتح سے ہمکنار اور عربوں کو شکست دینے والا اصل کردار: امریکا۔ غزہ کو غیر مسلح اور فلسطینیوں کی مزاحمتی طاقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنے والا: امریکا۔ اسرائیل کے امن کو یقینی بنانے اور غزہ کو ’’اقتصادی زون‘‘ یا ’’ساحلی تفریح گاہ‘‘ میں بدلنے کے لیے تمام اہل غزہ کو قتل یا دربدر کرنے کا پروگرام رکھنے اور اس کو عملی شکل دینے میں اسرائیل کی غزہ پر زیادہ سے زیادہ بمباری کے لیے مدد اور حوصلہ افزائی کرنے والا: امریکا۔
٭ اہل فلسطین کو یہودی وجود کا غلام بنانے اور غزہ پر ہونے والی بمباریوں اور محاصروں میں اسرائیل کو سیاسی اور فوجی کور دینے والا: امریکا۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی اور مالی امداد دینے والا ملک: امریکا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 سے 2022 تک اسرائیل کو امریکا نے تقریباً 317.9 بلین ڈالر کی مدد فراہم کی جس میں سے بیش تر امداد فوجی تھی۔ اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک جنگ غزہ کی شروعات سے کے بعد امریکا نے اسرائیل کو 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی ہے۔
٭ اسرائیل کو ملنے والی امریکی امداد میں اقتصادی یا ترقیاتی امداد بہت کم ہے۔ تقریباً تمام رقم فوجی نوعیت کی ہے جس کا مقصد اسرائیل کے فوجی نظام، اسلحہ کنٹرول اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنا اور برقرار رکھنا ہے۔ تاکہ اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلم اور عرب ممالک پر حملے کرسکے اور انہیں برباد کرسکے۔
٭ سی آئی اے اور موساد کا قریبی تعلق، معلومات اور آپریشنز کا تعلق، سائبر سیکورٹی، سیٹلائٹ سر ویلنس، ڈرون ٹیکنالوجی میں معاون: امریکا۔ اسرائیل کو جدید ترین سیکورٹی سوفٹ ویئر اور نگرانی کے آلات مہیا کرنے والا: امریکا۔
٭ امریکی میڈیا میں جس ملک کا بیانیہ سب سے زیادہ غالب اور عوامی رائے اور پالیسی پر اثرانداز: اسرائیل۔ امریکی تھنک ٹینکس، یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور خصوصی پروجیکٹس میں جس ملک کا امیج سب سے زیادہ پاور فل اور مثبت: اسرائیل۔
مسلم اور عرب دشمنی اور لا کھوں فلسطینیوں کے قتل اور ان کی بربادی میں امریکا اور اسرائیل کی یہ وہ یکجائی ہے جو پہلے دن سے مسلسل اور مستقل ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کے جوش وخروش میں جو باہم مدغم ہیں۔ جن کی جنگوں اور تاریخی ڈھانچے میں، ماضی، حال اور مستقبل کے ادراک میں جو کچھ قابل فنا ہے وہ سوائے مسلمانوں کے کچھ نہیں۔ اس کے باوجود قطر امریکا کے ساتھ کس طرح شیرو شکر ہے، کس طرح امریکا کا ممد ومعاون ہے، کس طرح سیاسی معاہدوں میں شریک اور سیکورٹی پارٹنر ہے اور کس طرح امریکا کی طاقت کی برقراری اور اس میں اضافے کے لیے کوشاں ہے، ملا حظہ ہو:
قطر میں العدید ائر بیس (Al Udeid Air Base) واقع ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکا کا کمانڈ اور آپریشنل مرکز ہے۔ اس میں تقریباً 11 سے 13 ہزار امریکی فوجی تعینات رہتے ہیں جن کی تعداد 20 ہزار تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہاں برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی بھی محدود تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ F15 اور F16 اور F22Raptor لڑاکا طیارے باقاعدہ اس اڈے پر تعینات رہتے ہیں۔ جاسوسی اور کمانڈ کنٹرول طیارے اور انٹیلی جنس اور ہدفی حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونزبھی اسی بیس سے اڑان بھرتے ہیں۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن، انٹیلی جنس گیدرنگ، ڈرون کنٹرول اور ریجنل ریڈار سسٹمز سب اسی اڈے کے ذریعے مربوط ہوتے ہیں۔ یہیں سے لڑاکا طیاروں کو ہوا میں ایندھن بھرنے والے جہاز کے ذریعے ری فیول کیا جاتا ہے۔ میزائل ڈیفنس اور کروز میزائل لانچنگ سسٹمز بھی یہاں موجود ہیں۔ اسی اڈے سے امریکا پورے خلیج، ایران، افغانستان، عراق، شام اور یہاں تک کہ مشرقی افریقا کو آپریشنز کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے پچھلے دنوں دورے کے دوران قطر نے امریکی کمپنیوں کے جو معاہدے کیے ان کی مقدار 243.5 بلین ڈالر ہے اور جو مزید معاہدے طے پائے ان کی مجموعی اقتصادی تبادلے کی قیمت 1.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ قطر ائر ویز کے لیے 160 بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا جس کی مالیت 96 بلین ڈالر Raython اور جنرل اٹامکس سے بھی کئی ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئے اس کے علاوہ العدید ائر بیس کی فضائی، دفاعی اور بحری سلامتی کے معاملات میں سرمایہ کاری کی حد 38 بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ قطر کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایک بوئنگ طیارہ بطور تحفہ دیا گیا جس کی مالیت تقریباً 400 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں بھی قطر نے امریکا کے ساتھ بڑی سرمایہ کاری کی ہے خصوصاً ایل این جی ایکسپنشن کے منصوبے اور امریکی توانائی بنیادی ڈھانچے میں شراکت داری۔
قطر خطے میں امریکا کے لیے ثالثی یا فرنٹ ایجنٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 2020 میں طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات ہوں یا حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات اور قیدیوں کا تبادلہ۔ امریکا کے ساتھ بے حدو حساب تعاون، چاپلوسی، خوشامد اور قریبی اتحادی کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے قطر کو یقین تھا کہ امریکی چھتری تلے آنے کے بعد اب وہ اسرائیل اور امریکا کی جارحیت سے محفوظ رہے گا لیکن امریکا اور اسرائیل نے قطر پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ یہود ونصاریٰ کے لیے کتنی ہی قربانیاں دی جائیں وہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے۔ وہ صرف آپس میں دوست ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہی قائم ودائم اور اسی کا حکم مسلسل جاری ہے۔