Express News:
2025-05-11@04:40:03 GMT

تو عظیم ہے ماں!

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

ماں صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک پورا ادارہ ہے۔ ماں بچے کی پہلی معالج اور نرس بھی ہے، پہلی معلمہ بھی، اور زندگی بھر کی راہ نما بھی، یہ وہ رشتہ جو سو فی صد بے لوث محبت اور بغیر کسی غرض کے بنایا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی محبت کو بھی ماں کی محبت سے تشبیہ دی ہے۔

بچے کی دنیا میں آمد سے لے کر اس کی پرورش اس کی تربیت اور اس کے چھوٹے سے چھوٹے دکھ پر بہت پریشان ہو جانے والی ماں ہی اس کی بہترین درس گاہ ہوتی ہے۔ رات کو اٹھ اٹھ کر بچے کی نیند کی فکر کرنا اور اسے سنبھالنا، اس کی تمام ضروریات کا خیال اور آرام کا دھیان رکھنا، اس پر اپنی نیند قربان کرنے کا جذبہ اور تڑپ  ایک ماں ہی کر سکتی ہے اور کرتی بھی ہے۔

ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جانے والے ’مدرز ڈے‘ کا مقصد اپنی زندگی کی سب سے قیمتی ہستی کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ ’ماؤں کا عالمی دن‘ ہمیں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ اس ان کا مقصد صرف تحفے دینا یا تصاویر بنوانا ہے، بلکہ ماں سے محبت، عزت اور احترام میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ ان کے لیے وقت نکالیں، ان کی بات سنیں ان کی دعاؤں میں شامل ہوں۔ ’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ ایسے ہی ’ٹرک آرٹ‘ کا حصہ نہیں بنا، بلکہ ماں کی دعا اللہ تعا لیٰ کے عرش پر سنی جاتی ہے۔

آج کے تیز رفتار دور میں جہاں بہت سی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں ماں کے کردار میں بھی بہت وسعت آئی ہے، آج وہ گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں، بلکہ دفتر، یونیورسیٹیوں اور کاروباری دنیا میں بھی  بھرپور ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔

ماں بننا ایک نعمت ہے، لیکن ماں کے رتبے سے وفا کرنا ایک مسلسل قربانی، صبر، ہمت اور محبت کا نام ہے۔ یہ سفر فقط لوریوں، چمکتے جھولوں یا مسکراہٹوں تک محدود نہیں، بلکہ جاگتی راتوں، بے آواز آنسوؤں، اور قربانیوں سے بھرا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب آپ ایک اکیلی، خودمختار، اور ’ورکنگ ماں‘ ہوں۔

ایک ’ورکنگ ماں‘ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کو ہر وقت خود کو دو حصوں میں بانٹنا پڑتا ہے۔ ایک طرف پروفیشنل ذمہ داریاں، دوسری طرف وہ چھوٹے ہاتھ جو صرف آپ کی انگلی پکڑ کر چلنا چاہتے ہیں۔ دن میں ایک ماں کی طرح بچے کو یاد کرنا اور شام کو ایک پروفیشنل کی طرح اپنی میٹنگ مکمل کرنا… یہ بظاہر تو یہ ایک توازن ہے، مگر اندر سے ایک مسلسل اور مکمل جنگ کی طرح ہے۔

بطور ایک استاد اب میری صبح، اُس کے اسکول کی تیاری سے شروع ہوتی ہے، پھر میری کلاسوں، پھر اس کا ڈے کیئر، اور پھر شام کو جلدی سے اسے لینے کی کوشش۔ میں چاہتی ہوں، وہ جانے کہ اس کی ماں ہمیشہ اس کے لیے وقت نکالتی ہے، چاہے دنیا کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو۔ ماں چاہے ورکنگ ہو، یا گھریلو ہو۔ ماں کو کوئی ایک دن نہیں چاہیے، بلکہ اُسے ہر دن چاہیے، محبت کا، عزت کا، دعاؤں کا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

محبت یا جرم

وہ معمولی شکل و صورت کی خاتون نظر آتی تھیں البتہ وقار اور تمکنت بھی چھلک رہا تھا، ایک بڑے سابقہ سرکاری عہدے دار کی بیگم اور تین بچوں کی ماں بھی تھیں، امریکا میں رہائش تھی اور ان دنوں پاکستان آئی ہوئی تھیں۔

’’ہم اس کے گھر اپنی بیٹی کیسے دے سکتے ہیں، اس کا خاندان کیا ہے، کیا ہم اس سے اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنا خاندان خراب کر دیں؟‘‘

خاندانی وقار، غرور اور زعم پورے خاندان میں یہ ڈائیلاگز دہرائے گئے تھے، حیرت ہی تھی کہ خاندان کی بیٹی نے برسوں پہلے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، محبت کے اس کھیل میں اس نے اپنا اور اپنے شوہر کے خاندان کا موازنہ ہی نہ کیا تھا اور وقت گزرتا گیا، خاندان میں آنا جانا، بچوں کی تقریبات سب چلتی رہیں۔

خدا نے بیٹے بیٹیاں دیں اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، شوہر کا اچھا سرکاری عہدہ اور بیٹوں کی اچھی تعلیم لہٰذا مراعات، ٹیلنٹ گھلتے ملتے بڑھتے گئے۔ بچے خاندان کے بچوں میں گھلتے گئے ،کب کہاں اور کیسے پسندیدگی کی وہ رمق ابھری کہ جس نے ماں کے دل میں خاندان کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور سوال لے کر پہنچ گئی، پر جواب مایوسی کی صورت میں ملا۔

گوری چٹی خوش شکل، ہر بات پر کھل کر قہقہہ لگانے والی کے رنگ مدھم پڑگئے، اس کی شادی خاندان ہی کے ایک وجیہہ اور کماؤ لڑکے سے ہوگئی جو بیرون ملک رہتا تھا، پر وقت نے کب کس کا منہ دیکھا ہے، جب بدلتا ہے تو اچھے اچھے اس کی زد میں آ جاتے ہیں اور وہ بھی اس کی زد میں آ گئے، یوں کماؤ پوت روزی روٹی کے پہیے میں پھنس کر رہ گیا۔

آم کے درخت کے نیچے اپنی سانسیں درست کرتی وہ خوش شکل خواب سی لڑکی اب بدل چکی تھی، چار چھوٹے بچوں کی ماں پر دل کا روگ نجانے کیسے لگ گیا تھا، اپنی سگی پھوپھی زاد بہن کے انتقال پر خود کو آنے سے روک ہی نہ سکی تھی، وہ اس بھرے پرے خاندان میں شاید اس کی آخری انٹری تھی اور پھر جلد ہی خبر ملی کہ اس کے دل کے دو والو جو پہلے ہی بند ہو چکے تھے پورے دل کو ہی بند کر گئے، ایک کہانی کا باب ختم ہو گیا۔

عالی شان خاندان پرکیا فرق پڑا کون جانے، پر چار چھوٹے بچے خوار ہو گئے۔ پیسے کی کمی، ماں کی دوری، باپ کی مجبوری، زندگی نے چھوٹی سی عمر میں بہت کچھ دکھا دیا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی عمر میں جب بچیوں کے پڑھنے کی عمر تھی، شادی کردی گئی۔

بڑے بوڑھے آرام سے اپنی اپنی قبروں میں جا کر سو گئے، بڑے بڑے ناموں والے اونچی شان اور مرتبے والے جنھیں لوگ عزت سے جھک کر سلام کرتے تھے، ان کی دولت اور نام سے مرعوب تھے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے اور پیچھے قصے کہانیاں اور باتیں رہ جاتی ہیں۔ امریکا سے آئی ان خاتون کو دیکھ کر کہانی نے اپنے آپ کو دہرایا تھا، یہ وہی خاتون تھیں جن کے شوہر اس خوب صورت خواب سی لڑکی سے شادی کے خواہاں تھے، رشتے داری اور بچپن سے بڑھتی قرابت کسی مقام پر پہنچنا چاہتی تھی، پر ایک رعب دار آواز کی گونج اور کہانی ختم۔

ہمارے معاشرے میں برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ سماج کی دیوار ضرور حائل ہو تی ہے کہیں زیادہ تو کہیں بہت زیادہ اور اس کے درمیان ہونے والے تضاد، مسائل اور الجھنیں معاشرے میں برائیوں کو جنم دیتی ہیں، کیا ہم نے کبھی اپنے ارد گرد دیکھا ہے کہ کتنے بچے اور بچیاں ایسے ہیں جو گھر سے باہر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں گھومتے پھرتے ہیں گویا انھیں زمانے کی پرواہ ہی نہیں لیکن اپنے گھر اور خاندان میں ان کے رویے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ چھوٹی عمر میں جذباتی فیصلے مستقبل میں کچھ اور ہی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں چھوٹی عمر اٹھارہ سال کے بعد بھی جاری ہی رہتی ہے جو ہر گز بھی دانش مندی نہیں ہے۔

زندگی کے فیصلے انسان طے کرتا ہے یہ انسان کی احمقانہ سوچ ہے کہ وہ بہت عقل مند ہے، ہماری زندگی کے معاملات ہمیں اس نہج پر لے جاتے ہیں جو کسی فیصلے پر مجبورکرتے ہیں لیکن والدین کو اپنی اولاد کی زندگی اور بہتری کے لیے ظالم سماج بننے کے بجائے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محبت انسانی صحت پر بہت جلدی اثرانداز ہوتی ہے۔

محبت انسانی دماغ میں ایسے کیمیائی عوامل پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان خوشی محسوس کرتا ہے، محبت سے دوری اسی طرح غم اور دکھ کے جذبات کو ابھارتا ہے۔

ایک مطالعے کے مطابق محبت انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے جو لوگ محبت کرتے ہیں مختلف قسم کے انفیکشنز سے لڑنے کا دفاع ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے ، جو نفرت کرتے ہیں یا رنج و غم اور حسد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اراک فرام نے 1956 میں محبت کی نفسیات پر ایک کتاب شایع کی، اس کتاب ’’دی آرٹ آف لونگ‘‘ میں محبت کے سماجی، نفسیاتی، معاشی اور فلسفیانہ پہلوؤں کو محبت کی فطرت کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔

یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں محبت کے جذبات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلط تصورات کو رد کیا گیا ہے، ان کے مطابق محبت سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ یہ خود بخود ایسے ہو جاتی ہے جیسے اگر کسی کو گاڑی چلانا نہ آتی ہو اور وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے۔ مغربی فلسفی نے انسان کو محبت سیکھنے کے عمل پر زور دیا ہے جب کہ ہمارے مشرقی شعرا نے محبت کے بارے میں جس طرح کے تصورات کو ابھارا ہے وہ محبت سیکھنے کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔

محبت ایک لطیف جذبہ ہے، صنف مخالف میں ہمیشہ سے ایک کشش رہی ہے لیکن اس کو انتہائی اقدام سے رد کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ زندگی گزار رہے ہیں جو خطرے کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد اپنی مرضی سے زندگی جی رہے ہیں، اچھی یا بری یہ قسمت کے کھیل ہیں لیکن خدائی فوج دار بننے کے بجائے اپنی مغربی رواداری اور اخلاقیات کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ کسی عمل سے اچھا کرنے کے جنون میں اخلاقی پستیوں میں تو نہیں گر رہے۔

ہمارے یہاں ہر سال کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں شک کی بنیاد پر محبت کے جرم میں، کاروکاری کے الزام میں قتل ہو جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر اس قسم کے قتل کو معاشرے میں چھوٹ دے کر بری کر دینا کیا ہماری مذہبی روایات کے مطابق ہے؟ نکاح کے مقدس بندھن کے باوجود بھی محبت کی پاداش میں سمندر پار بھی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ انسانی انا بہت ظالم ہے جو ہمیں زعم کے بخار میں مبتلا کر دیتی ہے اور یہ ہماری جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔(آمین)

متعلقہ مضامین

  • ماں
  • محبت یا جرم
  • پاکستان صرف اصلاحات نہیں بلکہ خود کو مکمل تبدیل کر رہا ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • جنگ صرف گولی بم کا نام نہیں ،بھوک، غربت اور دیگر برائیاں ساتھ لاتی ہے: چودھری شجاعت
  • پاکستان صرف اصلاحات نہیں کر رہا بلکہ خود کو تبدیل کر رہا ہے، وزیر خزانہ
  • درد کارشتہ
  • قومی یکجہتی ، وقت کی ضرورت
  •  برداشت و صبر سے کام لیجیے……!!
  • لاہور مکمل محفوظ ہے، بھارت کو عجلت میں نہیں بلکہ اپنے وقت پر جواب دیں گے، وزیر اطلاعات