جوہری حدود اور امن کی نازک نوعیت
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
22اپریل2025ء کو بھارتی کشمیر میں ہندو سیاحوں پرفالس فلیگ حملے کے بعد،بھارت نے پاکستان پراس حملے کاالزام عائدکیا۔اس کے ردعمل میں،7مئی2025ء کو بھارت نے ’’آپریشن سندور‘‘کے تحت آزاد کشمیر میں 9مقامات پر میزائل حملے پاکستان اورآزادکشمیرمیں مساجد اور عام شہریوں کونشانہ بناتے ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔پاکستان کے مطابق ان حملوں میں31افرادہلاک ہوئے،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور متعددمساجداورتعلیمی ادارے بھی متاثرہوئے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر ڈرون حملوں اور فضائی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔بھارت نے پاکستان کے اندر متعددمقامات پرفضائی حملے کیے،جن میں لاہور میں واقع ایک چینی ساختہ ’’ایچ کیو،9بی ای‘‘ فضائی دفاعی نظام بھی شامل تھا،جس کی آزاد ذرائع نے بھی نفی کردی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کاکہناہے کہ انڈیا نے پہلے دن چھ مقامات پرمختلف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے مجموعی طورپر24حملے کیے تھے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انڈیا کے پہلے دن کے میزائل حملوں کے بعدجوابی کارروائی میں پاکستان نے انڈین فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے اورایک ڈرون مارگرانے کے شواہد پیش کردیئے۔واضح رہے کہ یہ پہلاموقع نہیں جب انڈیاکی جانب سے کوئی میزائل پاکستان سرزمین پرآگراہو۔مارچ2022ء میں بھی انڈیاکی جانب سے ایک براہموس میزائل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہرمیاں چنوں کے قریب آگرا تھا۔ تاہم اس میزائل حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا۔
اگرچہ انڈیانے اس واقعے کے متعلق جاری بیان میں کہاتھاکہ یہ میزائل حادثاتی طور پر پاکستان کی طرف داغاگیاتھاجبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل بابرافتخارنے ذرائع ابلاغ کوتفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاتھاکہ پاکستان حدودمیں داخل ہونے والا’’انڈین پروجیکٹائل‘‘ زمین سے زمین تک مارکرنے والاسپرسونک میزائل تھا۔ پاکستان نے دعویٰ کیاتھاکہ ابتدائی جانچ پڑتال سے معلوم ہواکہ یہ میزائل سپر سونک کروزمیزائل تھاجوآوازکی رفتارسے تین گنا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اوریہ پاکستان کی حدود میں تین منٹ44سیکنڈتک رہنے کے بعدگرکرپاکستان کی سرحدمیں 124 کلو میٹر اندر آکرتباہ ہوا۔ پاکستانی عسکری ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے اس میزائل کی نگرانی تب سے شروع کردی تھی جب اسے انڈیاکے شہرسرساسے داغاگیاتھا۔اس کی پروازکے مکمل دورانیے کامسلسل جائزہ لیاگیا۔
2019ء میں بالاکوٹ حملے اورانڈین طیارہ گرائے جانے کے بعددونوں ملکوں نے نیا دفاعی سازوسامان خریداہے۔جیسے انڈین ایئرفورس کے پاس اب36فرانسیسی ساختہ رفال جنگی طیارے ہیں۔پاکستانی فوج کادعویٰ ہے کہ انہوں نے حالیہ حملے میں جوابی کارروائی کے دوران تین رفال طیاروں سمیت پانچ طیارے مارگرائے ہیں اوراب تک79ڈرون بھی گرائے گئے ہیں جس میں اسرائیلی ڈرون ہاروپ بھی شامل ہیں جن کودنیامیں ناقابل تسخیرسمجھاجاتاتھالیکن پاکستان نے یہودہنود کا غرورخاک میں ملاکررکھ دیاہے۔تاہم انڈیا نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے.
لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیزکے مطابق اسی دورانیے میں پاکستان نے چین سے کم ازکم20 جدید جے10جنگی طیارے حاصل کیے ہیں جوکہ پی ایل 15میزائلوں سے لیس ہیں۔جہاں تک ایئرڈیفنس کی بات ہے تو2019ء کے بعدانڈیانے روسی ایس400اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سسٹم حاصل کیاجبکہ پاکستان کوچین سے ایچ کیو9فضائی دفاعی نظام ملاہے جبکہ پاکستانی فضائیہ کے پاس اپنی فضائی صلاحیتوں میںایڈوانسڈایریل پلیٹ فارمز،ہائی ٹو میڈیم ایلٹیٹوڈایئرڈیفنس سسٹم،بغیرپائلٹ کامبیٹ ایریل وہیکلز،سپیس،سائبر، الیکٹرانک وارفیئر اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سسٹمزموجود ہیں۔
انڈیاکے پاکستان پراس حملے کے بعدچند اہم سوالات پیداہوئے ہیں کہ کیاپاکستان کافضائی دفاعی نظام انڈیاکی جانب سے آنے والے میزائلوں کوبڑی حدتک روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اوریہ کہ پاکستان انڈین فضائی حدود سے داغے گئے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے قبل فضامیں ہی تباہ کیوں نہیں کرپایا؟
پاکستان کے فضائی دفاعی نظام میں چینی ساختہ ’’ایچ کیو،9بی ای‘‘شامل ہیں۔’’ایچ کیو،9 بی ای‘‘ سسٹم 260کلومیٹرتک کی رینج میں لڑاکا طیاروں کونشانہ بناسکتاہے اور50کلو میٹر تک کی رینج میں فضائی سے زمین پرمارکرنے والے میزائلوں کوروکنے کی صلاحیت رکھتاہے تاہم، حالیہ بھارتی حملوں میں لاہورمیں واقع’’ایچ کیو،9 بی ای‘‘ سسٹمزکونشانہ بنایاگیا،جس سے پاکستان کے فضائی دفاعی نظام کونقصان پہنچانے کادعویٰ کیاگیاجس کی ابھی تک کسی بھی ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔پاکستان کے پاس جدیدفضائی دفاعی نظام موجودہیں،جن میں چین سے حاصل کردہ پی ایل15میزائل شامل ہیں۔یہ میزائل 150 کلومیٹرسے زائدفاصلے پرہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورجے ایف17 جیسے جدید لڑاکاطیاروں پرنصب کیے جاسکتے ہیں تاہم بھارت نے اپنے ایس400دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے میزائل اورڈرون حملوں کو ناکام بنانے کادعویٰ کیاہے۔
پی ایل 15میزائل ایک جدیدچینی ساختہ فضاسے فضامیں مارکرنے والامیزائل ہے، جو150 کلومیٹرسے زائدفاصلے پرہدف کونشانہ بنا سکتاہے۔ یہ میزائل پاکستان کے جے ایف 17بلاک 3 طیاروں پرنصب کیے گئے ہیں اوربھارت کے جنگی طیاروں کے خلاف مؤثرثابت ہوسکتے ہیں ۔پاکستان نے حالیہ جھڑپوں میں چینی ساختہ’’ای ایل-15ای‘‘ فضا سے فضامیں مارکرنے والے میزائلوں کا استعمال کیاہے۔یہ میزائل145 کلومیٹرتک کی رینج میں ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جدید’’اے ای ایس ایــ‘‘ریڈار سے لیس ہیں۔پاکستانی’’ایف17 بلااک3اور جے، 10 سی‘‘ طیاروں پرنصب یہ میزائل بھارتی رافیل اور دیگر لڑاکاطیاروں کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
پی ایل15چین کاجدید ترین میزائل ہے۔ بی وی آر(بی یانڈ ویشول رینج) ریڈار گائیڈڈسسٹم کوپاکستان نے اپنے طیاروں پرنصب کر رکھاہے علاوہ ازیں آسٹامیزال جوڈیڑھ سے دوسو کلومیٹرریجن رکھتاہے جوعام میزائل سے کہیں زیادہ موثرسمجھاجاتاہے۔فضائی برتری حاصل کرنے کیلئے یہ میزائل پاکستان کیلئے گیم چینجر ہے، خاص طورپرجب دشمن کے طیارے پاکستانی حدودسے باہرہوں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فضائی دفاعی نظام میزائل پاکستان پاکستانی فوج طیاروں پرنصب پاکستان نے پاکستان کی پاکستان کے کہ پاکستان یہ میزائل کی صلاحیت شامل ہیں بھارت نے ہیں اور ایچ کیو
پڑھیں:
پاکستان کا انڈین فضائی اڈوں پر حملہ
اسلام ٹائمز: ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریر: ثقلین امام واسطی
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس، انڈیا مزید حملے کرے گا
پاکستان نے ہفتے کی صبح انڈیا میں متعدد فوجی اہداف پر میزائل حملے کیے، جس سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کرنے والے ادارے کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جو حالات کی سنگینی یا پینِک کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستانی حملوں کی تفصیلات:
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کے یہ حملے انڈیا کی جانب سے “مسلسل اشتعال انگیزی” کے جواب میں کیے گئے ہیں، جن میں انڈین فوج نے پاکستان کے اندر تین فضائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے “فتح” میزائل استعمال کرتے ہوئے انڈیا کے صوبوں گجرات، پنجاب، راجستھان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 25 سے زائد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جن میں فضائی اڈے اور اسلحہ ذخیرہ گاہیں شامل تھیں۔
انڈین بیان:
دوسری جانب انڈین فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں پاکستانی حملوں کو “کھلی جارحیت” قرار دیا اور کہا کہ ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے حملے کیے گئے، جنہیں انڈین فضائی دفاعی نظام نے فوری طور پر تباہ کر دیا۔ نئی دہلی میں ہنگامی مشاورت جاری ہے۔ انڈیا کے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی، جبکہ وزیرِاعظم نریندر مودی نے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ الگ ملاقات کی ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق ایک مربوط فوجی و سفارتی حکمتِ عملی پر غور ہو رہا ہے۔ انڈین حکومت نے پاکستانی حملے سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کی تصدیق نہیں کی، تاہم سرکاری سطح پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انڈیا اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار ہے اور تمام حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔
آپریشن بنیان المرصوص:
پاکستانی فوج کے مطابق یہ کارروائی “عملی اور محدود” تھی اور اسے “عملیات بنیان المرصوص” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نام قرآن سے لیا گیا ہے، جس میں مؤمنوں کی صفوں کی مضبوطی کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل طور پر جڑی ہوئی ہو۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے انڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ انڈین فضائی حملوں میں راولپنڈی کے نور خان ایئربیس، مرید اور شورکوٹ شامل تھے۔ حکومت پاکستان نے ان اقدامات کو انڈیا کی بلا اشتعال جارحیت کا جواب قرار دیا ہے۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس:
اس پیشرفت کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی (National Command Authority) کا اجلاس طلب کیا، جو کہ جوہری ہتھیاروں اور قومی سلامتی سے متعلق اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت پر مشتمل ادارہ ہے۔ اس اجلاس کا انعقاد صورت حال کی سنگینی اور ممکنہ اسٹریٹیجک فیصلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں حالیہ دہشت گرد حملے میں 26 ہندو یاتری مارے گئے تھے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم لشکرِ طیبہ پر لگایا اور جواباً پاکستانی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔
دونوں ملکوں کی بحریہ بھی تیار:
بحری طاقت (naval power) کے مظاہرے میں نمایاں اضافے کے طور پر انڈیا نے سپرسونک کروز میزائلوں سے لیس اپنے جنگی بحری جہاز پاکستانی پانیوں کے قریب تعینات کر دیئے ہیں، جس کے نتیجے میں کراچی براہِ راست انڈین حملے کی زد میں آگیا ہے۔ ٹیلی گراف اور دیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈین نیوی کے مغربی بیڑے میں جدید ڈسٹرائرز اور فریگیٹس شامل ہیں اور اب انہوں نے بحیرۂ عرب کے شمالی حصے میں پاکستان کے ساحل سے چند سو میل دور پوزیشنز سنبھال لی ہیں۔ اس تعیناتی میں وہ جہاز بھی شامل ہیں، جو براہموس میزائلوں سے لیس ہیں، جو انڈیا کی طویل فاصلے تک ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
حالیہ بحری مشقوں میں انڈین نیوی نے بحرۂ عرب میں کئی اینٹی شپ میزائل فائر کرکے اپنی تیاری کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ جوابی طور پر پاکستان نے بھی اپنی نیوی افواج کو بحرۂ عرب میں مزید گہرائی میں تعینات کر دیا ہے، جن کی پوزیشنز پاکستان کے ساحل سے 300 سے 400 میل دور بتائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس تعیناتی کی سرکاری تفصیلات محدود ہیں، لیکن اس قدم کو کشیدہ حالات میں ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بحری سرگرمیاں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں اور عسکری کارروائیوں کے تناظر میں سامنے آئی ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنی فوجی تیاری کی سطح بلند کر دی ہے۔ انڈیا میں آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان نے وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس منعقد کیے ہیں۔
عالمی سطح پر تحمل کی اپیل:
بین الاقوامی مبصرین نے موجودہ صورت حال میں مزید کشیدگی کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورت حال کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے سفارتی بات چیت کا آغاز کریں۔ اقوامِ متحدہ اور جی-7 ممالک نے انڈیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے ٹیلیفونک فون پر رابطہ بھی کیا ہے اور دونوں ملکوں تحمل کی اپیل کی ہے۔ چین نے نے جنگ کو روکنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے باعث خطے اور عالمی استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور صورتحال مزید بگڑنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی ماہرین صورتحال کو نہایت حساس قرار دے رہے ہیں۔
جوہری جنگ کے امکانات کم ہیں:
ٹام شارپ، جو کہ ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں، ان کی زیادہ تر شناخت ان کی نیوکلیئر اسٹرٹیجی (جوہری حکمت عملی) اور بین الاقوامی دفاعی تعلقات پر تجزیہ لکھنے کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنی ایک رائے میں کہا ہے کہ انڈیا کی نئی نیوکلیئر آبدوزیں (nuclear submarines) پاکستان کے ساتھ ایٹمی جنگ کے امکانات کو کم کر دیتی ہیں، کیونکہ اس سے انڈیا کے پاس جوابی حملے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے پاس نیوکلیر ہتھیار ہوں، تو دونوں ایک دوسرے پر جوہری حملہ کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ جوہری جنگ کا نتیجہ بہت تباہ کن ہوگا اور دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ یہاں آبدوزوں کا کردار سمجھنا ضروری ہے۔ انڈیا کی جوہری آبدوزیں ایسے میزائلوں سے لیس ہیں، جو پاکستان کے زیادہ تر حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور یہ آبدوزیں پانی میں رہ کر غائب رہتی ہیں، اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر انڈیا نے پاکستان پر جوہری حملہ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوں گے اور وہ بھی جوابی حملہ کرسکے گا، جو اتنا ہی تباہ کن ہوگا۔
ٹام شارپ کا کہنا ہے کہ ان جوہری آبدوزوں کی موجودگی سے دونوں ممالک ایک دوسرے کو جوہری حملے کی دھمکی دینے سے گریز کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک ملک نے حملہ کیا تو دوسرا ملک فوراً جوابی حملہ کرے گا اور اس کا نتیجہ دونوں کے لیے تباہی ہوگا۔ اس طرح، ان آبدوزوں کا ہونا دونوں ممالک کے لیے ایک “امن کی ضمانت” بن جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری جنگ دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگی۔ اس سے دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے امکانات سے بچتے ہیں اور اس وجہ سے یہ نیوکلیئر آبدوزیں امن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لہٰذا، ٹام شارپ کی باتوں کو سمجھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیوکلیئر آبدوزیں جنگ کے امکانات کو کم کرتی ہیں، کیونکہ فرسٹ اسٹرائیک کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری حملے سے گریز کرنے پر مجبور ہیں۔
مختصر یا طویل جنگ:
سکیورٹی اور دفاعی تجزیہ کار مائیکل کلارک نے اسکائی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور پاکستان جوہری اعتبار سے ایک جیسے ہیں، دونوں کے پاس تقریباً 170 جوہری ہتھیار موجود ہیں، جنہیں فاصلے کی کمی کی وجہ سے فوری طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کلارک نے مزید کہا کہ عالمی عسکری طاقت کی درجہ بندی کے مطابق انڈیا کا نمبر چوتھا ہے جبکہ پاکستان بارہویں نمبر پر ہے۔ “اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کی روایتی فوجی صلاحیتوں میں واضح فرق ہے۔ انڈیا کی مسلح افواج، اہلکاروں اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان سے تقریباً دو گنا بڑی ہیں۔” انہوں نے کہا، “اگر مکمل جنگ ہوئی تو انڈیا غالب آئے گا۔ لیکن اگر معاملہ محدود فوجی تصادم تک رہا تو پاکستان یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سٹریٹجک فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔” جنگ مختصر ہو یا طویل، نقصان دونوں ملکوں کو پہنچے گا۔ مگر طویل جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچے گا، جو انھیں کئی برس پیچھے دھکیل دے گا۔