پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بھارت کے فرانسیسی ساختہ 4.5 جنریشن ڈاسو رافیل لڑاکا طیارے کو مار گرانے کی خبر کے بعد چینی دفاعی کمپنی چنگدو ایئرکرافٹ کارپوریشن (CAC) کے حصص میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔شینزن اسٹاک ایکسچینج (SZSE) میں درج CAC کے شیئرز ایک ہفتے کے اندر CNY 36 کے اضافے کے ساتھ 63 فیصد بڑھ گئے۔

 5 مئی سے مسلسل تیزی کے بعد، آج چنگدو کے حصص کی قیمت CNY 95.

86 پر پہنچ گئی، جو کہ ایک ہی دن میں CNY 16 یا 20 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔چنگدو ایئرکرافٹ کارپوریشن، چین کی معروف دفاعی کمپنی ہے جو JF-17 تھنڈر اور J-10C لڑاکا طیارے بناتی ہے۔ پاکستان فضائیہ کی جانب سے بھارتی رافیل طیاروں کو مار گرانے میں مبینہ طور پر چینی ساختہ J-10C کا استعمال کیا گیا، جس کے بعد عالمی سطح پر چینی دفاعی صنعت کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے سے CAC کے حصص میں نمایاں تیزی آئی ہے، جو مستقبل میں عالمی دفاعی معاہدوں میں چینی کمپنی کی پوزیشن کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔اس کے برعکس، رافیل بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ 9 مئی کو پیرس اسٹاک ایکسچینج میں ڈاسو کے حصص کی قیمت EUR 314.60 پر بند ہوئی، جو پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 3.44 فیصد یا EUR 11.2 کم ہے۔یہ کمی بھارتی فضائیہ کے رافیل طیاروں کے نقصان کی خبروں کے بعد سامنے آئی ہے، جو کہ رافیل کے عالمی معیار پر سوالات اٹھا رہی ہے۔اتوار کے روز بھارتی دفاعی حکام نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں فضائی لڑائی کے دوران اثاثوں کے نقصان کا اعتراف کیا. جس میں رافیل طیارے بھی شامل تھے۔تاہم بھارتی وزارت دفاع نے تاحال ان نقصانات کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ وزارت کے بیان “نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں” کو عالمی سطح پر اس بات کی تصدیق سمجھا جا رہا ہے کہ بھارتی فضائیہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا. جس میں جدید ترین رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چنگدو ایئرکرافٹ کارپوریشن کے حصص میں اضافہ چینی دفاعی صنعت کی بڑھتی ہوئی ساکھ کی عکاسی کرتا ہے، جبکہ ڈاسو ایوی ایشن کے نقصانات اس کی عالمی منڈی میں پوزیشن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں یہ صورتحال دونوں ممالک کے دفاعی معاہدوں اور عالمی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے رجحانات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کے حصص کے بعد

پڑھیں:

ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ،  ماہرین کا انتباہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: پاکستانی معیشت کے لیے ایک جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے وقتی سہارا فراہم کیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک خطرے کی نئی گھنٹی بجا رہا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز میں 3.42 ارب ڈالرز کی ترسیلات بھیجیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 11.9 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا اشارہ ضرور دیتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اور سکڑتی برآمدات نے حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں ترسیلات زر 12.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب بدستور سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے اکتوبر میں 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ)  جب کہ امریکا سے ترسیلات 290 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.8 فیصد کم ہیں۔

اسی طرح یورپی یونین کے ممالک سے مجموعی طور پر 457.4 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو 19.7 فیصد سالانہ اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

دوسری سمت صورتِ حال تشویشناک ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے میں درآمدات 15.1 فیصد اضافے سے 23 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جب کہ برآمدات 4 فیصد کمی کے ساتھ 10.5 ارب ڈالر پر سکڑ گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں درآمدات 6.1 ارب ڈالر تک پہنچیں جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب کہ برآمدات 2.8 ارب ڈالر رہیں، یوں ماہانہ تجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تک جا پہنچا — جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات میں اضافہ وقتی ریلیف ضرور ہے، لیکن مستقل حل برآمدات میں اضافے اور درآمدی انحصار میں کمی سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر برآمدی پالیسی میں اصلاحات نہ کیں، تو موجودہ درآمدی دباؤ ایک بار پھر بیرونی کھاتوں پر شدید بوجھ ڈال سکتا ہے۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب درآمدی معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف جانا ہوگا تاکہ پائیدار اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکے۔

ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے بڑھتے خسارے سے نمٹنے کے لیے توانائی، ٹیکس اصلاحات اور برآمدی پالیسیوں پر مشتمل آٹھ ورکنگ گروپس قائم کر دیے ہیں، جو رواں ماہ کے وسط تک اپنی سفارشات پیش کریں گے، تاہم معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے عملی اقدامات، صنعتی شعبے کی بحالی اور برآمدکنندگان کو سہولتیں دینے کے بغیر کوئی پائیدار بہتری ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سونے کی قیمت میں آج پھر بڑا اضافہ
  • اسٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کا مثبت آغاز، انڈیکس میں ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ
  • آذربائیجان کے یومِ فتح پر پاکستانی جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی گھن گرج
  • بلوچستان میں بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح میں نمایاں اضافہ
  • بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ
  • ریاض الجنہ کے زائرین کی یومیہ تعداد میں بڑا اضافہ
  • عالمی اسنوکر چیمپئن شپ: دفاعی چیمپئن محمد آصف کا فاتحانہ آغاز
  • جے ایف-17 تھنڈر کی گرج نے آذربائیجان کے یومِ فتح کی پریڈ میں جوش بھر دیا
  • جنگ بندی پر ٹرمپ کے مشکور، دشمن کے 7 بہترین جنگی طیارے گرائے: وزیراعظم
  • ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ،  ماہرین کا انتباہ