پاک بھارت کشیدگی: شہباز شریف مخالف گنڈاپور کی حکومت کہاں کھڑی تھی اور کیا تیاریاں کی تھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا حکومت ابتدا ہی سے شہباز شریف کی وفاقی حکومت کی سیاسی بنیادوں اور پالیسیوں کی مخالف رہی ہے لیکن پاک بھارت کشیدگی کے موقع پر علی امین گنڈاپور کی حکومت پہلی بار وفاق کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، علی امین گنڈاپور
بھارتی جنگی جارحیت پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے فوری طور پر کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور صوبے میں انتظامات کرنے کی ہدایت جاری کی۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی حکومت پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ کابینہ نے بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کی اور منہ توڑ جواب دینے پر فوج کو خراج تحسین پیش کیا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے پہلی بار وفاق کے ساتھ کھڑے ہو کر عملی اقدامات کیے۔ صوبے کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، ریسکیو 1122 کو الرٹ کیا گیا، ضلعی افسران کو ڈیوٹی پر حاضری یقینی بنانے اور رابطہ کمیٹیاں بنانے کی ہدایت دی گئی۔ صوبائی حکومت نے سول ڈیفنس کے ذریعے سائرن نصب کیے، جبکہ مشرقی سرحد پر بھارتی جنگی جنون کے دوران مغربی سرحد پر دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بھی انتظامات کیے گئے۔
کے پی حکومت پہلی بار شہباز شریف کے ساتھ کھڑی نظر آئیپشاور کے سینیئر صحافی عمیر یاسر کے مطابق، حکومت بننے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب علی امین گنڈاپور شہباز شریف کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور پاک بھارت کشیدگی پر وفاقی حکومت کے فیصلوں کی مخالفت نہیں کی۔ عمیر یاسر کا کہنا ہے کہ علی امین کی حکومت سیاسی بنیادوں پر ہمیشہ وفاقی حکومت کے فیصلوں کی مخالفت کرتی رہی ہے، خاص طور پر افغان باشندوں کی واپسی کے حوالے سے شدید اختلافات موجود ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پارٹی کارکنوں کے دباؤ یا سیاسی حکمت عملی کے تحت علی امین اکثر اہم اجلاسوں میں شرکت سے گریز کرتے رہے ہیں اور شہباز شریف پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تاہم، پاک بھارت معاملے پر علی امین نے بھی شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس وقت ملک کو بیرونی خطرے کا سامنا تھا اور تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔
صرف حکومت ہی نہیں، پی ٹی آئی بھی حکومت کے ساتھ تھیعمیر یاسر کے مطابق، نہ صرف خیبر پختونخوا حکومت بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی بھارتی جارحیت کے خلاف حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ بیرسٹر گوہر نے واضح طور پر بیان دیا کہ ان کی جماعت افواج پاکستان کے ساتھ ہے اور بھارت کے خلاف حکومت کا ساتھ دے گی۔
صحافی و تجزیہ کار عارف حیات کے مطابق، پی ٹی آئی بھارت کے معاملے پر حکومت کے ساتھ تو کھڑی رہی، تاہم اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔
عارف حیات نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے ایک جانب حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تو دوسری جانب عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مؤوقف تھا کہ موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور عمران خان کو رہا کر کے مشاورتی عمل میں شامل کیا جائے۔
مزید پڑھیے: بھارتی جارحیت کیخلاف حکومت اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، علی امین گنڈاپور
عارف حیات نے مزید کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی قیادت حکومت کے ساتھ کھڑی رہی لیکن پارٹی ورکرز میں وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آیا جو دیگر سیاسی جماعتوں میں دیکھنے کو ملا۔ اکثر جماعتوں نے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اور بھارت کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
جنگ بندی کے بعد ملک بھر میں جشن کا سماں تھا مگر پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہی تھی۔
عارف حیات کے مطابق پی ٹی آئی نے اس موقعے پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی تاہم حالات نے اچانک رخ بدل لیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت کشیدگی وزیراعظم شہباز شریف وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت کشیدگی وزیراعظم شہباز شریف وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا حکومت پاک بھارت کشیدگی علی امین گنڈاپور حکومت کے ساتھ کے ساتھ کھڑی شہباز شریف عارف حیات پی ٹی آئی کے مطابق کی حکومت کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔انہوں نے ک مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں.پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے. تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے.پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔