چینی صدر کی انتھونی البانیز کو آسٹریلیا کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارک باد
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
بیجنگ : چینی صدر شی جن پھنگ نے انتھونی البانیز کو آسٹریلیا کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا ۔شی جن پھنگ نے اپنے پیغام میں کہا کہ چین اور آسٹریلیا کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانا دونوں ممالک کی مشترکہ ترقی اور عالمی امن و استحکام کے لئےبڑی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم البانیز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں تاکہ چین اور آسٹریلیا کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری مستحکم انداز میں ترقی کر سکے اور دونوں ممالک کے عوام کو بہتر فوائد فراہم کئے جا سکیں۔ اسی دن، چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نے بھی انتھونی البانیز کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا سٹریلیا
پڑھیں:
تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا
آفتابِ نبوت کومکہ شہرمیں اپنی کرنیں بکھیرتے ہوئے پانچواں سال چل رہاتھا،حصرت عمرؓ اس وقت چھبیس برس کے کڑیل جوان تھے ،رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مکہ کی وادی میں بلندکی جانے والی توحیدکی صداعمرؓ کے لئے بالکل نامانوس اوراجنبی چیزتھی۔ جناب عمرؓ کی طبیعت میں بہت زیادہ سختی اورتیزی تھی،جس کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، عمرؓ اس کے درپے آزارہوجاتے یہی حال ابوجہل کابھی تھامسلمانوں کوان دونوں کی طرف سے شدیدپریشانی کاسامناتھا۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ ان دنوں اکثردعا فرمایاکرتے، یعنی اے اللہ!تودینِ اسلام کو قوت عطا فرما عمربن خطاب یاعمروبن ہشام کے ذریعے، اس ابتدائی دورمیں مکہ میں مٹھی بھرمسلمانوں کومشرکین کے ہاتھوں جس طرح اذیت کاسامناتھااس چیزکودیکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کوملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کامشورہ دیاتھا، جس پر(نبوت کے پانچویں سال)یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی دومختلف جماعتیں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرگئی تھیں ۔ایسے ہی ایک موقع پرعمرؓنے اپنے قریبی عزیزوں میں سے ایک مسلمان شخص کوجب بے بسی ولاچاری کی کیفیت میں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرتے دیکھاتوبڑی ہی حسرت کے ساتھ اسے ہجرت کایہ ارادہ ملتوی کرکے مکہ میں ہی رک جانے کامشورہ دیاجس پراس شخص نے بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ اے عمرؓ!کاش تم نے ہمیں ناحق اس قدرنہ ستایاہوتاتوہم یوں بے وطن ہوجانے پرمجبورنہ ہوتے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ پہلی باراپنی تمام ترترش مزاجی کے باوجوددکھی ہوگئے اپنی قوم کویوں ٹوٹتے اوربکھرتے ہوئے اورپھربے وطن ہوتے ہوئے دیکھنایہ چیز حضرت عمرؓکے لئے ا نتہائی صدمے کاباعث بنی،جس کی وجہ سے وہ شب وروزاسی پریشانی میں مبتلارہنے لگے کہ آخریہ معاملہ کس طرح حل ہوگا؟
اسی کیفیت میں وقت گزرتارہا اور پھر بالآخر اس کے اگلے سال،یعنی جب نبوت کاچھٹاسال چل رہا تھا،ایک روز حضرت عمرؓکے صبرکاپیمانہ لبریزہو گیا سوچاکہ جس شخص کی وجہ سے میری قوم یوں ٹوٹتی اوربکھرتی جارہی ہے اسی شخص کو (نعوذباللہ)قتل کردیاجائے اوریوں اس مشکل کاہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیاجائے یہی بات سوچ کروہ ایک روزسخت گرمی کے موسم میں اورتپتی ہوئی دوپہرمیں ننگی تلوارہاتھ میں لئے ہوئے چل دئیے۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ،نامی ایک شخص کی ان پر نظرپڑی تووہ ٹھٹھک کررہ گیااس قدرآگ برساتی ہوئی گرمی میں ،اورتپتی ہوئی اس دوپہرمیں عمراپنے ہاتھ میں ننگی تلوارلئے ہوئے چلے جارہے ہیں وہ شخص خوفزدہ ہوگیااورخوب سمجھ گیاکہ معاملہ خطرناک ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خوف ودہشت کی کیفیت میں دریافت کیا، عمرؓ ! خیریت توہے؟اس وقت آپ کہاں چلے جارہے ہیں ؟ عمرؓ نے جواب دیا(نعوذباللہ)آج میں اس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ کاکام تمام کرنے جارہاہوں ۔ اس پروہ شخص بولاعمرؓ!پہلے اپنے گھرکی خبرتولے لوتمہاری اپنی بہن اوربہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں اس شخص کی زبانی یہ بات سن کرعمرؓ آگ بگولہ ہوگئے اوروہاں سے سیدھے اپنی بہن (فاطمہ بنت خطابؓ)کے گھرپہنچے۔ اس وقت وہ اوران کے شوہر(سعیدبن زید رضی اللہ عنہ) دونوں تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے۔ عمرؓنے وہاں پہنچتے ہی نہایت غصے کی کیفیت میں بہن کوزدوکوب کرناشروع کردیایہی سلسلہ جاری تھاکہ اس دوران اچانک بہن نے نہایت پرعزم لہجے میں اورفیصلہ کن اندازمیں بھائی کومخاطب کرتے ہوئے کہاعمرؓ! تم جس قدرچاہومجھے مارلولیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بہن کی زبانی یہ بات سن کراورپہلی باربالکل غیرمتوقع طورپراس کی یہ جرات دیکھ کرعمرچونک اٹھے اورسوچنے لگے کہ اس دین میں اتنی قوت اس کلام میں اس قدرتاثیرکہ اس قدر زدوکوب کے باوجودبہن نے یوں دوٹوک فیصلہ سنادیاتب عمرؓکے اندازبدلنے لگے اورپھرقدرے توقف کے بعدبہن کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے اچھاجوکچھ تم پڑھ رہے تھے ذرہ مجھے بھی وہ چیزدکھائواس پربہن نے جواب دیاعمرؓ!تم مشرک ہو،ناپاک ہو،لہٰذاتم اللہ کے اس پاک کلام کونہیں چھوسکتے۔ عمرؓنے مسلسل اصرارکیا آخرعمرؓکایہ اصراراب التجامیں تبدیل ہونے لگا۔بہن نے جب عمرؓکے رویے میں یہ اتنی بڑی تبدیلی دیکھی توکہاکہ بھائی پہلے تم غسل کرکے پاک صاف ہوجائو،تب عمرؓ غسل کرکے آئے اورپھروہی مطالبہ دہرایا،تب بہن نے انہیں وہ اوراق دکھائے جن میں وہ قرآنی آیات تحریرتھیں عمرؓپڑھتے گئے
ترجمہ: (طہ، ہم نے یہ قرآن اس لئے نازل نہیں کیاکہ تم مشقت میں پڑجائو،البتہ یہ اس شخص کی نصیحت کے لئے نازل کیاہے جو(اللہ سے)ڈرتاہو،اس کانازل کرنااس اللہ کی طرف سے ہے جس نے زمین کواور بلند آسمانوں کوپیداکیاہے،جورحمن ہے عرش پرقائم ہے،جس کی ملکیت آسمانوں اورزمین اوران دونوں کے درمیان اورزمین کی تہوں کے نیچے کی ہرایک چیزپرہے۔ اگرتوبلندآوازسے کوئی بات کہے تو وہ توہرایک پوشیدہ سے پوشیدہ ترچیزکوبھی بخوبی جانتاہے،وہی اللہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں اسی کے بہترین نام ہیں) (1)۔
حضرت عمرؓیہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ا ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔ چنانچہ عمرؓ اسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب حضرت عمرؓ کواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اور خاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، فکرکی کوئی بات نہیں ،عمرؓ اگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اورپھر حضرت عمرؓ وہاں پہنچے، آمد کا مقصد بیان کیاحضرت حمزہ ؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، سیدنا عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اشھد ان لا اِلہ الا اللہ و اشھد انک عبد اللہِ ورسولہ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔اس موقع پروہاں موجود مسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ ا ٓج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔
(جاری ہے)