Express News:
2025-08-13@04:24:33 GMT

جنگ بندی ایک نئی سوچ، نیا راستہ

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن پر بات چیت کا پہلا راؤنڈ مکمل ہوگیا جس میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آپریشن ’’ بنیان مرصوص‘‘ کی شاندار کامیابی پر ہر سال 10مئی کو یوم معرکہ حق منانے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوگئے، بھارتی وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، یہ جنگ کا دور نہیں، تاہم یہ دہشت گردی کا دور بھی نہیں۔

 جنگ بندی بھارت اور پاکستان کے لیے امید کا ایک لمحہ ہے، جو سفارت کاری کی فتح کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ جنگ بندی اب نہ ہوتی تو دونوں ممالک چند ہی دنوں میں مکمل جنگ کی طرف بڑھ چکے ہوتے۔ بھارت پاکستان کے تناظر میں، امن کا مطلب تجارت کی بحالی، سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور کشمیر تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہو سکتا ہے جو سب معاشی استحکام کو بڑھاتے ہیں۔

یہ جنگ بندی اسی لیے ترقی کے لیے بنیاد ہے جو دونوں ممالک کو اندرونی ترقی اور علاقائی تعاون پر توجہ دینے کا موقع دیتی ہے۔ اس جنگ بندی کو دائمی امن میں تبدیل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے، جس میں بات چیت اور تعاون وہ بنیادی اصول ہیں جن پر دونوں ممالک کو کام کرنا ہوگا۔ بلاشبہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکا بات چیت کو آسان بنانے اور جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

 جنگ بندی بھارت اور پاکستان کے لیے امن کے نتیجے میں ترقی لانے والی تبدیلی کی طاقت کو سامنے لاتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جنگیں معاشی ترقی کو تباہ کر کے ممالک کو کنگال کر دیتی ہیں۔ عالمی جنگوں اور تنازعات کا خرچہ ہر سال 14.

4 ٹریلین ڈالر ہوتا ہے، جو عالمی معیشت کا 11 فیصد ہے۔ جن ممالک میں تنازعات جاری ہوتے ہیں، وہ اپنی معیشت کا 41 فیصد خرچ جنگوں پر کرتے ہیں، جب کہ پرامن ممالک میں یہ صرف 3.9 فیصد ہوتا ہے۔

بھارت میں 220 ملین سے زائد لوگ اور پاکستان میں لگ بھگ 60 ملین غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں یہ متوسط غربت ہے شدید غربت والے کم ہیں (ورلڈ بینک)۔ امن ان ممالک کو فوجی اخراجات کو تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں لگانے کے لیے راستے کھولتا ہے۔ تاریخی مثالیں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ، جسے مارشل پلان کے ذریعے دوبارہ تعمیر کیا گیا، نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں بڑی ترقی دیکھی ہے۔ اسی طرح، کولمبیا کا 2016 میں ایف اے آر سی کے ساتھ امن معاہدے نے ترقی کی طرف توجہ دی، غربت کم کی اور استحکام فراہم کیا (جی ایس ڈی ایم)۔

 جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خطاب کیا، بدترین شکست کے باوجود تقریر میں یہ ظاہر کیا گیا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ طرز تکلم، متکبرانہ اور پاکستان کے خلاف جارحیت برقرار رکھنے کی سوچ کا عکاس تھا۔ زمینی حقائق کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ پاکستان سے لڑنا اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ بیٹھے تھے، افواج پاکستان، بھارت کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئی، اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا سیاسی منظر نامہ بھی بدلتا ہوئے دیکھیں گے جس میں بھارتی عوام ایک تشدد پسند، نرگسیت کے مارے اور آگ و خون کو کھیل کے طور پر اپنانے والے سیاستدان اور وزیراعظم سے نجات پا رہے ہوں گے اور حقیقی جمہوریت نرم ریت پر دھیرے دھیرے ٹہل رہی ہوگی۔

یہ محض تصوراتی منظر نہیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے،کیونکہ اب عوام امن چین سے جینا چاہتے ہیں، لہٰذا بھارت کو جنگ نہیں امن کی بات کرنی چاہیے اسے اپنے عوام کی حالت زار بارے سوچنا چاہیے کہ وہ بھوکوں مر رہے ہیں اپنے اعضا بیچ رہے ہیں ان کو خط غربت کے نیچے سے اوپر لانے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔

 سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کی حماقت ہی نہیں، اپنے عوام کو بے وقوف بنانے اور اُنھیں جھانسا دینے کی کارروائی ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق بھارت اب تک اِن دریاؤں پر بمشکل دو ڈیم بنا سکا ہے، بگلیہار اور کرشن گنگا ڈیمز۔ بالفرض، اگر بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا بھی ہے، تو اُسے اِس مقصد کے حصول کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ دوم، اگر وہ پانی کی بندش کی کوئی فوری کوشش کرتا ہے، تو بھارت کے تمام مغربی شہر خوف ناک سیلاب کے خطرات سے دوچار ہوجائیں گے اور صورتِ حال سنبھالی نہیں جائے گی کہ اوپر سے مون سون کا موسم بھی قریب ہے۔

خطے میں بہنے والے تمام دریا ہمالیہ کی انتہائی چوٹی پر واقع جھیلوں سے نکلتے ہیں، جو چین کی طرف واقع ہیں۔ یہ چھے دریا ہمالیہ جھیل سے نکلتے ہیں، جب کہ بھارت کا بنیادی دریا، براہما پترا بھی تبت کی ایک جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ بھارت اور چین میں وقتاً فوقتاً ہونے والی کشیدگی کچھ دن بعد تلخی، بلکہ فوجی نقل و حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ تو اگر بھارت کسی معاہدے کی معطلی کے تحت پاکستان کے خلاف آبی رکاوٹ کی کوشش کرتا ہے، تو کل کلاں بالکل ایسا ہی کوئی اقدام اِس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔

گویا، یہ دھمکی بھارت کو اس کے تصور سے بھی زیادہ مہنگی پڑ سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حال ہی میں بنگلا دیش کے سربراہ، محمد یونس نے بھارت کی سات جنوبی ریاستوں کا ذکر کیا تھا، جہاں پورٹ نہیں ہے اور انھیں اِس ضمن میں بنگلا دیش کی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس بیان پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا۔

ویسے بھی آج کل بنگلا دیش اور بھارت کے باہمی تعلقات نچلی سطح پر ہیں۔ اِس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ اِس معاہدے سے پانی کی یقینی فراہمی، جو کسی بھی مُلک کی اہم ترین ضرورت ہے، ممکن ہوئی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت نے اِسے یک طرفہ طور پر معطل کر کے اچھے ماحول میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، اِسی لیے وزیراعظإ شہباز شریف نے اسے’’ایکٹ آف وار‘‘ کہا اور ایک زرعی مُلک کے لحاظ سے یہ بیان قابلِ فہم بھی ہے۔

عالمی سطح پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھارت ایک جارح ریاست ہے لیکن بھارتی وزیراعظم خود کو دنیا کے سامنے مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک تسلسل سے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں، اگر دیکھا جائے، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی نے اُٹھایا کہ وہ کئی برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور تقریباً ہر مُلک اِس کردار کا معترف بھی ہے۔ آج دنیا کو جس خطرے کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہ یہی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور انھوں ہی نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر آسٹریلیا تک، پوری دنیا کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔

پاکستان کی ایئر فورس نے بھارت پر جو برتری دکھائی، یہ سب کچھ ایک مضبوط اور مربوط الیکٹرانک وار فیئر ڈاکٹرائن کے تحت ممکن ہوسکا۔ دراصل سائبر وار فورس میں بھی پاکستان نے بہت ترقی کی ہے، اس کے علاؤہ ڈرون یا وہ جہاز جس میں پائلٹ نہیں ہوتا اس میں بھی پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے۔ براہموس، جسے دنیا کے تیز ترین کروز میزائلوں میں شمار کیا جاتا ہے، عام طور پر سپرسانک رفتار سے کم بلندی پر پرواز کرتا ہے تاکہ ریڈار سے بچ سکے اور دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے سکے۔

اس کے بارے میں بھارت میں کہا جاتا ہے کہ ’فائر اینڈ فارگیٹ‘ یعنی ’چلاؤ اور بھول جاؤ‘ لیکن پاکستان نے اسے ایسا ’یادگار سبق‘ سکھایا جس نے اس اصول کو ہی چیلنج کر دیا۔ پاکستانی ماہرین نے ’’Soft Kill Induced GPS Errors‘‘ یعنی جی پی ایس نظام میں خلل ڈال کر ان میزائلوں کو ان کے راستے سے ہٹا دیا۔

حالیہ جنگ بندی کے اقدامات ایک خوش آیند پیش رفت ہیں، جنھیں صرف عارضی وقفہ سمجھنے کے بجائے ایک مستقل امن کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت ہے کہ قیادت اور عوام، دونوں سطحوں پر، اس جنگ بندی کو سنجیدگی سے لیں اور ایک پائیدار امن کی راہ پر قدم بڑھائیں۔ بھارت اور پاکستان کے پاس ایک عظیم موقع ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھائیں کہ دو تاریخی حریف بھی باہمی عزت، سمجھوتے اور تعاون سے نئے باب رقم کر سکتے ہیں۔ عوام کی اکثریت جنگ نہیں، بلکہ امن، خوشحالی اور بھائی چارے کی خواہش رکھتی ہے۔ امید ہے کہ یہ جنگ بندی ایک نئی سوچ اور نیا راستہ لے کر آئے گی، ایک ایسا راستہ جو صرف امن، ترقی اور انسانیت کی طرف جاتا ہو۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم اور پاکستان کے یہ جنگ بندی جنگ بندی کو بھارت اور ممالک کو بھارت کے کرتا ہے کے خلاف بات چیت رہے ہیں کی طرف کے لیے

پڑھیں:

بھارت نے شروع کی ہم نے عبرتناک شکست دیکر جنگ مکمل کی : بلاول

بھٹ شاہ (نوائے وقت رپورٹ، نامہ نگار)  بلاول  نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام میں اتنی طاقت ہے وہ نہ صرف جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ ان سے 6 دریا واپس بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم پیچھے ہٹنے اور جھکنے والے نہیں ہیں۔ بلاول  نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس میں شرکت کی، جہاں وزیر ثقافت سندھ ذوالفقار علی شاہ نے ان کا استقبال کیا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس پر ایوارڈز تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں لوک اور صوفی فنکاروں نے کلام پیش کیے۔ چیئرمین  پیپلزپارٹی  نے کہا  بھارت کے ساتھ جنگ ہم نے شروع نہیں کی۔ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی تھی مگر مکمل پاکستان نے کی اور جنگ میں بھارت کو عبرتناک شکست دی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اختلافات بھلا کر وطن کا دفاع کیا۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر بھارت کا مقابلہ کیا۔ افواج پاکستان نے بھارت کو تاریخی جواب دیا۔ عبرتناک شکست کے بعد بھارت نے ایک اور بزدلانہ سوچ کے ساتھ پاکستان کی سندھو پر ایک ایسا حملہ کیا، جو اپنے طور پر تاریخی حملہ ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا جو فیصلہ کیا ہے جو ہمارے سندھو پر سب سے بڑا حملہ ہے، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، مودی سندھو کا پانی روکنے اور ڈیم بنانے کی دھمکی دے گا۔ دریائے سندھ عوام کے لیے صرف پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ سندھ کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے۔ جب بھارت سندھو پر حملہ کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اس کا مطلب وہ ہماری تہذیب، تاریخ اور ثقافت پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی عوام بھی مودی کے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ جنگ شروع ہوئی تو میں نے کہا تھا کہ مودی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کروں گا اور اہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم نے دنیا کو بھارت کی حقیقت بتائی۔ امریکا اور یورپ سمیت ہم نے سفارتکاری کے ذریعے نہ صرف پاکستان کا مقدمہ لڑا بلکہ سندھو دریا پر حملے کے خلاف پوری دنیا میں آواز اٹھائی۔ ہم سب کو ملکر مودی کے ظلم اور سندھو پر اس کے ارادے کے بارے میں آواز اٹھانا ہے اور جدوجہد کرنا ہے تاکہ اس ظلم کو بھی ہم روک سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس ملک کے عوام میں اتنی طاقت ہے کہ جنگ کی صورت ہو تو ہم جنگ میں بھی ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور 6 کے 6 دریا واپس بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر یہ ہمیں مجبور کرتے ہیں تو مودی سرکار کو بتانا چاہیں گے ہم پیچھے نہیں ہٹتے اور ہم جھکتے نہیں۔ اگر ہم سندھو پر اس طرح حملے کے بارے میں سوچیں گے تو پاکستان کے ہر صوبے کے عوام آپ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور یہ ایسی جنگ ہے جس میں آپ کو ضرور شکست ہوگی۔ ہم سب بھٹائی کے ماننے والے ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگ ہم نے شروع نہیں کی مگر مکمل ہم نے کی۔ جنگ میں بھارت کو عبرتناک شکست دی۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی۔  پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کو تاریخی جواب دیا۔  نہ صرف سندھ، بلکہ پورا پاکستان شاہ لطیف کی فکر سے رہنمائی لے کر مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔ حالیہ پاکستان بھارت جنگ کے دوران ہر پاکستانی نے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ پورے ملک نے ایک ہوکر، اتحاد کے ساتھ ہر محاذ پر جواب دیا تھا۔ سب سے بڑھ کر ہماری افواج نے، ہمارے ایئر فورس نے جس انداز سے دشمنوں کو جواب دیا وہ تاریخی ہے۔ جنگ کے دوران تمام سیاسی جماعتوں اور قوتوں نے بھی اپنے اختلافات بھول کر اپنے وطن کا دفاع کیا۔ جب بھی دریائے سندھ پر اِس قسم کا حملہ ہوا ہے، تو سندھ کے عوام ہمیشہ صفِ اول کا کردار ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے آواز اٹھاتے ہیں اور اپنا دریا کو بچانے کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں۔ دریائے سندھ کو بچانے کی جد وجہد میں انہیں عوامی حمایت و تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ایک ہو کر مودی کی بربریت پر، مودی کے اس حملے کے بارے میں، مودی کے اس ارادے کے بارے میں، آواز اٹھانا ہے اور جد وجہد کرنا ہے تاکہ اس ظلم کو بھی ہم روک سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • سربراہ بھارتی فضائیہ کا مضحکہ خیز بیان، بھارت کی مزید جگ ہنسائی
  • ’کھوپڑی سنک گئی تو۔۔۔‘؛ متھن چکرورتی کا بلاول اور پاکستان کے خلاف متنازع بیان
  • بھارت نے شروع کی ہم نے عبرتناک شکست دیکر جنگ مکمل کی : بلاول
  • فتنہ پارٹی یوم آزادی پر شرپسندی، انتشار پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہی: عظمیٰ بخاری 
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
  • بھارت نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرکے جنگ چھیڑی اور پھر پاکستان نے اسے مکمل کیا، بلاول بھٹو
  • جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول صدیقی
  • ششپر گلیشیئر پھٹنے سے شاہراہ قراقرم بند ، ہنزہ کے لیے متبادل راستہ تجویز کیا گیا
  • پتہ نہیں تھا پاکستان کا ردعمل اتنا تباہ کن ہو گا، بھارتی آرمی چیف: مودی ٹکے ٹوکری ہو گیا، خواجہ آصف
  • جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول