جنگ بندی ایک نئی سوچ، نیا راستہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن پر بات چیت کا پہلا راؤنڈ مکمل ہوگیا جس میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آپریشن ’’ بنیان مرصوص‘‘ کی شاندار کامیابی پر ہر سال 10مئی کو یوم معرکہ حق منانے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوگئے، بھارتی وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، یہ جنگ کا دور نہیں، تاہم یہ دہشت گردی کا دور بھی نہیں۔
جنگ بندی بھارت اور پاکستان کے لیے امید کا ایک لمحہ ہے، جو سفارت کاری کی فتح کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ جنگ بندی اب نہ ہوتی تو دونوں ممالک چند ہی دنوں میں مکمل جنگ کی طرف بڑھ چکے ہوتے۔ بھارت پاکستان کے تناظر میں، امن کا مطلب تجارت کی بحالی، سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور کشمیر تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہو سکتا ہے جو سب معاشی استحکام کو بڑھاتے ہیں۔
یہ جنگ بندی اسی لیے ترقی کے لیے بنیاد ہے جو دونوں ممالک کو اندرونی ترقی اور علاقائی تعاون پر توجہ دینے کا موقع دیتی ہے۔ اس جنگ بندی کو دائمی امن میں تبدیل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے، جس میں بات چیت اور تعاون وہ بنیادی اصول ہیں جن پر دونوں ممالک کو کام کرنا ہوگا۔ بلاشبہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکا بات چیت کو آسان بنانے اور جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
جنگ بندی بھارت اور پاکستان کے لیے امن کے نتیجے میں ترقی لانے والی تبدیلی کی طاقت کو سامنے لاتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جنگیں معاشی ترقی کو تباہ کر کے ممالک کو کنگال کر دیتی ہیں۔ عالمی جنگوں اور تنازعات کا خرچہ ہر سال 14.
بھارت میں 220 ملین سے زائد لوگ اور پاکستان میں لگ بھگ 60 ملین غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں یہ متوسط غربت ہے شدید غربت والے کم ہیں (ورلڈ بینک)۔ امن ان ممالک کو فوجی اخراجات کو تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں لگانے کے لیے راستے کھولتا ہے۔ تاریخی مثالیں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ، جسے مارشل پلان کے ذریعے دوبارہ تعمیر کیا گیا، نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں بڑی ترقی دیکھی ہے۔ اسی طرح، کولمبیا کا 2016 میں ایف اے آر سی کے ساتھ امن معاہدے نے ترقی کی طرف توجہ دی، غربت کم کی اور استحکام فراہم کیا (جی ایس ڈی ایم)۔
جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خطاب کیا، بدترین شکست کے باوجود تقریر میں یہ ظاہر کیا گیا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ طرز تکلم، متکبرانہ اور پاکستان کے خلاف جارحیت برقرار رکھنے کی سوچ کا عکاس تھا۔ زمینی حقائق کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ پاکستان سے لڑنا اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ بیٹھے تھے، افواج پاکستان، بھارت کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئی، اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا سیاسی منظر نامہ بھی بدلتا ہوئے دیکھیں گے جس میں بھارتی عوام ایک تشدد پسند، نرگسیت کے مارے اور آگ و خون کو کھیل کے طور پر اپنانے والے سیاستدان اور وزیراعظم سے نجات پا رہے ہوں گے اور حقیقی جمہوریت نرم ریت پر دھیرے دھیرے ٹہل رہی ہوگی۔
یہ محض تصوراتی منظر نہیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے،کیونکہ اب عوام امن چین سے جینا چاہتے ہیں، لہٰذا بھارت کو جنگ نہیں امن کی بات کرنی چاہیے اسے اپنے عوام کی حالت زار بارے سوچنا چاہیے کہ وہ بھوکوں مر رہے ہیں اپنے اعضا بیچ رہے ہیں ان کو خط غربت کے نیچے سے اوپر لانے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کی حماقت ہی نہیں، اپنے عوام کو بے وقوف بنانے اور اُنھیں جھانسا دینے کی کارروائی ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق بھارت اب تک اِن دریاؤں پر بمشکل دو ڈیم بنا سکا ہے، بگلیہار اور کرشن گنگا ڈیمز۔ بالفرض، اگر بھارت دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا بھی ہے، تو اُسے اِس مقصد کے حصول کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ دوم، اگر وہ پانی کی بندش کی کوئی فوری کوشش کرتا ہے، تو بھارت کے تمام مغربی شہر خوف ناک سیلاب کے خطرات سے دوچار ہوجائیں گے اور صورتِ حال سنبھالی نہیں جائے گی کہ اوپر سے مون سون کا موسم بھی قریب ہے۔
خطے میں بہنے والے تمام دریا ہمالیہ کی انتہائی چوٹی پر واقع جھیلوں سے نکلتے ہیں، جو چین کی طرف واقع ہیں۔ یہ چھے دریا ہمالیہ جھیل سے نکلتے ہیں، جب کہ بھارت کا بنیادی دریا، براہما پترا بھی تبت کی ایک جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ بھارت اور چین میں وقتاً فوقتاً ہونے والی کشیدگی کچھ دن بعد تلخی، بلکہ فوجی نقل و حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ تو اگر بھارت کسی معاہدے کی معطلی کے تحت پاکستان کے خلاف آبی رکاوٹ کی کوشش کرتا ہے، تو کل کلاں بالکل ایسا ہی کوئی اقدام اِس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔
گویا، یہ دھمکی بھارت کو اس کے تصور سے بھی زیادہ مہنگی پڑ سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حال ہی میں بنگلا دیش کے سربراہ، محمد یونس نے بھارت کی سات جنوبی ریاستوں کا ذکر کیا تھا، جہاں پورٹ نہیں ہے اور انھیں اِس ضمن میں بنگلا دیش کی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس بیان پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا۔
ویسے بھی آج کل بنگلا دیش اور بھارت کے باہمی تعلقات نچلی سطح پر ہیں۔ اِس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ اِس معاہدے سے پانی کی یقینی فراہمی، جو کسی بھی مُلک کی اہم ترین ضرورت ہے، ممکن ہوئی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت نے اِسے یک طرفہ طور پر معطل کر کے اچھے ماحول میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، اِسی لیے وزیراعظإ شہباز شریف نے اسے’’ایکٹ آف وار‘‘ کہا اور ایک زرعی مُلک کے لحاظ سے یہ بیان قابلِ فہم بھی ہے۔
عالمی سطح پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بھارت ایک جارح ریاست ہے لیکن بھارتی وزیراعظم خود کو دنیا کے سامنے مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک تسلسل سے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں، اگر دیکھا جائے، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی نے اُٹھایا کہ وہ کئی برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور تقریباً ہر مُلک اِس کردار کا معترف بھی ہے۔ آج دنیا کو جس خطرے کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہ یہی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور انھوں ہی نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر آسٹریلیا تک، پوری دنیا کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔
پاکستان کی ایئر فورس نے بھارت پر جو برتری دکھائی، یہ سب کچھ ایک مضبوط اور مربوط الیکٹرانک وار فیئر ڈاکٹرائن کے تحت ممکن ہوسکا۔ دراصل سائبر وار فورس میں بھی پاکستان نے بہت ترقی کی ہے، اس کے علاؤہ ڈرون یا وہ جہاز جس میں پائلٹ نہیں ہوتا اس میں بھی پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے۔ براہموس، جسے دنیا کے تیز ترین کروز میزائلوں میں شمار کیا جاتا ہے، عام طور پر سپرسانک رفتار سے کم بلندی پر پرواز کرتا ہے تاکہ ریڈار سے بچ سکے اور دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے سکے۔
اس کے بارے میں بھارت میں کہا جاتا ہے کہ ’فائر اینڈ فارگیٹ‘ یعنی ’چلاؤ اور بھول جاؤ‘ لیکن پاکستان نے اسے ایسا ’یادگار سبق‘ سکھایا جس نے اس اصول کو ہی چیلنج کر دیا۔ پاکستانی ماہرین نے ’’Soft Kill Induced GPS Errors‘‘ یعنی جی پی ایس نظام میں خلل ڈال کر ان میزائلوں کو ان کے راستے سے ہٹا دیا۔
حالیہ جنگ بندی کے اقدامات ایک خوش آیند پیش رفت ہیں، جنھیں صرف عارضی وقفہ سمجھنے کے بجائے ایک مستقل امن کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت ہے کہ قیادت اور عوام، دونوں سطحوں پر، اس جنگ بندی کو سنجیدگی سے لیں اور ایک پائیدار امن کی راہ پر قدم بڑھائیں۔ بھارت اور پاکستان کے پاس ایک عظیم موقع ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھائیں کہ دو تاریخی حریف بھی باہمی عزت، سمجھوتے اور تعاون سے نئے باب رقم کر سکتے ہیں۔ عوام کی اکثریت جنگ نہیں، بلکہ امن، خوشحالی اور بھائی چارے کی خواہش رکھتی ہے۔ امید ہے کہ یہ جنگ بندی ایک نئی سوچ اور نیا راستہ لے کر آئے گی، ایک ایسا راستہ جو صرف امن، ترقی اور انسانیت کی طرف جاتا ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم اور پاکستان کے یہ جنگ بندی جنگ بندی کو بھارت اور ممالک کو بھارت کے کرتا ہے کے خلاف بات چیت رہے ہیں کی طرف کے لیے
پڑھیں:
جنگ بندی کی کوئی درخواست نہیں کی، پاکستان نے مودی کی ہرزہ سرائی کو مسترد کردیا
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اشتعال انگیز ہرزہ سرائی مسترد کردیا۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو مایوسی میں جنگ بندی کے لیے درخواست کرتے ہوئے ملک کے طور پر پیش کرنا مودی کا سفید جھوٹ ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستانی ایک خودمختار قوم ہے اور اس کے ادارے ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں اور ساری دنیا میں ہماری امن کے لیے کاوشوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستان نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے بھارت کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے پاکستان نے اپنی فوجی قوّت کا لوہا منوایا۔ یہ اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کو پروپیگنڈہ سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
ترجمان نے کہاکہ ایسے وقت میں جب بین الاقوامی برادری علاقائی امن اور استحکام کے لیے کوشاں ہے، مودی کا غلط معلومات، سیاسی مفاد پرستی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہوا بیان خطرناک کشیدگی میں اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مودی کا بیان اس بات کا بھی عکاس ہے کہ کس طرح سے جارحیت کی توجیہہ کے لیے جھوٹے بیانیے کا سہارا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان حالیہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پوری طرح سے پُرعزم ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ جنگ بندی بہت سے دوست ممالک کی سہولت کاری کی وجہ سے ممکن ہوئی جنہوں نے پاکستان سے کشیدگی میں کمی کے لیے رابطہ کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ عورتوں اور بچوں سمیت معصوم شہریوں کو مارنا اور پھر اُسے نیونارمل کہنا علاقے کے لیے ایک انتہائی غیرذمے دارانہ روّیہ ہے۔ پاکستان اس بات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔
’نارمل یہی ہے کہ اقوام متحدہ چارٹر کے اُصولوں کو چیلنج نہ کیا جائے جیسا کہ پاکستان نے اپنا حق دفاع استعمال کرتے ہوئے اپنی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور امن کے لیے کیا۔‘
انہوں نے کہاکہ پاکستان دہشتگردی کا شکار ہے جو براہ راست بھارت کی سرپرستی میں ہو رہی ہے۔ ہم اس دہشتگردی کی وجہ سے بہت کچھ برداشت چکے ہیں، دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہمارا تعاون اور قربانیاں سب پر عیاں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ جموں و کشمیر تنازع کے پرامن حل کی حمایت کی ہے۔ جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی صدر بھارتی وزیراعظم پاک بھارت کشیدگی پاکستان پاکستان بھارت جنگ پاکستانی افواج ترجمان دفتر خارجہ جنگ بندی معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودی ہرزہ سرائی مسترد وی نیوز