وزیراعظم کا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے ٹیلیفونک رابطہ، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
وزیراعظم کا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے ٹیلیفونک رابطہ، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 14 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے درمیان آج ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دونوں رہنماوں کے درمیان یہ تیسرا ٹیلیفونک رابطہ تھا۔ وزیر اعظم نے جنوبی ایشیا کی کشیدہ صورتحال کو کم کرنے کے لیے سیکرٹری جنرل کی قیادت اور سفارتی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی سفارت کاری اور رابطے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں امن کے حوالے سے ان کی دلچسپی کا مظہر ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے خطے میں امن کے وسیع تر مفاد میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا، ہر قیمت پر دفاع کرتے ہوئے، جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے لیے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور جارحیت کی مذمت کی اور اسے ایک خطرناک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اس کا مناسب نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے بھارتی قیادت کے مسلسل اشتعال انگیز بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جو کہ علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کا منصفانہ حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے، اور سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اس کے منصفانہ حل میں اپنا کردار ادا کریں۔سیکرٹری جنرل نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے علاقائی امن واستحکام کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں فریقوں کے ساتھ رابطے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی امن کے فروغ کے لیے کام کرنا ان کا فرض ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربینک ڈیفالٹر ہونے کے بعد حسن نواز کے برطانیہ میں تمام کاروبار ٹھپ،تمام کمپنیاں تحلیل بینک ڈیفالٹر ہونے کے بعد حسن نواز کے برطانیہ میں تمام کاروبار ٹھپ،تمام کمپنیاں تحلیل نیب اور مسابقتی کمیشن کے درمیان ٹینڈرز کی بولیوں میں گٹھ جوڑ کی روک تھام کیلئے معاہدے پر دستخط مرکزی سیکرٹری اطلاعات ق لیگ مصطفی ملک کی قیادت میں وفد کی سکواڈرن لیڈر عثمان یوسف شہید کے اہل خانہ سے تعزیت مودی سرکار کا آزادی صحافت پر حملہ، غیر ملکی میڈیا نشانے پر،گودی میڈیا کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کوئٹہ، رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک کے قافلے کے قریب دھماکا، ایک شخص جاں بحق، 10زخمی عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنے والوں کی فہرست سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا نام خارجCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ٹیلیفونک رابطہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ منصفانہ حل
پڑھیں:
پانچ میں سے ایک افغان بھوک کا شکار ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جون2025ء)ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی)نے متنبہ کیا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک افغان بھوک کا شکار ہے، ڈبلیو ایف پی نے افغانستان میں خوراک کی عدم تحفظ کی خرابی کو روکنے کے لیے فوری امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے افغانستان میں خوراک کی عدم تحفظ کے بگڑتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں انسانی امداد کی فوری ضرورت پر زور دیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ ہزاروں افغان خاندان ایران سے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ جبری واپسی افغان-ایرانی سرحد کے ساتھ کام کرنے والی مقامی کمیونٹیز اور انسانی ہمدردی کے اداروں پر بہت زیادہ دبا ڈال رہی ہے۔(جاری ہے)
فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ پروگرام سرحدی گزرگاہوں پر ہنگامی امداد فراہم کر رہا ہے لیکن پروگرام نے متنبہ کیا کہ مسلسل مدد اضافی فنڈنگ حاصل کرنے پر منحصر ہے۔فی الحال پروگرام کو افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 25 ملین ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اگست 2021 میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان مشکل معاشی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق 24.4 ملین لوگ، جو افغانستان کی تقریبا 60 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں، بنیادی ضروریات کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔