اپنے بیان میں علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ پوری دنیا کے باشعور مسلمانوں اور بالخصوص فلسطینی مظلوم عوام کی نظر میں امریکہ اور اسکے صدر ٹرمپ نہ صرف شریکِ جرم ہیں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ آل سعود کی جانب سے امریکی صدر کا شاندار استقبال مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ پچاس ہزار مظلوم فلسطینیوں کے قاتل مجرم کو شاہانہ پروٹوکول دینا امت مسلمہ کے خون سے غداری ہے۔ اپنے بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے دوران جس انداز سے ان کا استقبال کیا گیا، وہ مظلوم فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ پوری دنیا کے باشعور مسلمانوں اور بالخصوص فلسطینی مظلوم عوام کی نظر میں امریکہ اور اس کے صدر ٹرمپ نہ صرف شریکِ جرم ہیں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔ ایسے قاتل مجرم کو شاہانہ پروٹوکول دینا امت مسلمہ کے جذبات سے کھلا مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعجب ہے کہ عرب حکمران غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے خوراک، پانی اور علاج کی فراہمی میں تساہل برتتے ہیں، مگر امریکی صدر کو اربوں ڈالر بھتہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ آل سعود کی یہ پالیسی امت کے دلوں کو زخمی کرنے والی ہے۔

علامہ ڈومکی نے کہا کہ شام کے نام نہاد صدر نے بھی سعودی عرب میں "شیطان بزرگ" امریکہ کی خدمت میں حاضری دے کر ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ شام کی نام نہاد تبدیلی دراصل شیطان بزرگ امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس میں ترکی اور سعودی عرب نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے سعودی عرب سمیت مسلم ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں باشعور اور غیرت مند عوام لاکھوں کی تعداد میں غاصب اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو رد کر رہے ہیں، اس وقت سعودی عرب، بن سلمان، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب حکمرانوں کی جانب سے غاصب اسرائیل کی بلاواسطہ یا بالواسطہ حمایت انتہائی شرمناک اور قابل نفرت عمل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسلم حکمران اسرائیل سے ہر قسم کے روابط منقطع کریں، فلسطینی عوام کی عملی مدد کریں۔ غزہ کے مظلوم عوام پر بمباری کو رکوائیں۔ اور امریکہ و اسرائیل کی گود میں بیٹھنے کے بجائے مظلومین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کے ڈومکی نے کہا علامہ مقصود مظلوم عوام امریکی صدر نے کہا کہ رہے ہیں

پڑھیں:

فلسطینی عوام جنگجو نہیں جمہوری ریاست چاہتے ہیں، صدر محمود عباس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں ان کے لوگوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نسل کشی، تباہی، بھوک اور نقل مکانی کی جنگ کا سامنا ہے۔

ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال سے جاری جنگ میں 220,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور معمر افراد کی ہے جبکہ 20 لاکھ لوگوں کو محاصرے اور بھوک کا سامنا ہے۔

غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ گھر، سکول، ہسپتال، چرچ، مساجد اور تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ محض جارحیت نہیں بلکہ جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

(جاری ہے)

یہ 20ویں اور 21ویں صدی میں انسانی المیے کا ایک ہولناک ترین باب ہے۔

انہوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کے بڑھتے تشدد اور اسرائیلی بستیوں میں توسیع کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ 'گریٹر اسرائیل' کے حکمت عملی کے تحت اسرائیلی علاقوں کو وسعت دی جا رہی ہے اور مغربی کنارے کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جس سے مقبوضہ یروشلم باقی علاقے سے کٹ جائے گا اور دو ریاستی حل کے امکان کو نقصان ہو گا۔

7 اکتوبر کی مذمت

محمود عباس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ افعال فلسطینی عوام اور آزادی و خودمختاری کے لیے ان کی جائز جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتے۔

انہوں نے واضح کیا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا جزو لازم ہے اور فلسطینی اتھارٹی ایک ریاست، ایک قانون اور ایک قانونی سکیورٹی فورس کی بنیاد پر علاقے میں انتظام و انصرام اور سلامتی کی مکمل ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔

فلسطینی صدر نے قانون، اقتدار کی پرامن منتقلی، انسانی حقوق کے احترام اور نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی بنیاد پر ایک جدید اور جمہوریہ فلسطین کا تصور پیش کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے کہا کہ فلسطینی مسلح ریاست نہیں چاہتے۔

انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہزار سے زیادہ قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا جبکہ فلسطینی رہنماؤں نے امن معاہدے قبول کیے اور 1993 میں اوسلو معاہدوں کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ان معاہدوں کو منظم طریقے سے کمزور کیا جبکہ فلسطینیوں نے اپنے عہد کی پاسداری کی جس میں تشدد کو مسترد کرنا اور قومی اداروں کو ازسرنو ترتیب دینا بھی شامل ہے۔

UN Photo/Loey Felipe امن منصوبے پر عملدرآمد کا عزم

انہوں نے اس ہفتے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ سربراہی میں فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل سے متعلق اعلیٰ سطحی کانفرنس کا خیرمقدم کیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسروں پر بھی ایسا کرنے اور اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے فلسطینی ریاست کی حمایت کے لیے زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین اس ہفتے منظور کیے جانے والے امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے امریکہ، سعودی عرب، فرانس، اقوام متحدہ اور تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور اگر فلسطین آزاد نہ ہوا تو یہ ناانصافی ہو گی۔ فلسطینی اپنی سرزمین اور اپنے حقوق کو کبھی ترک نہیں کریں گے۔

محمود عباس نے کہا کہ تکالیف خواہ کس قدر ہی طویل کیوں نہ ہوں اس سے زندہ رہنے اور بقا کے لیے فلسطینیوں کا عزم کمزور نہیں پڑے گا۔ آزادی کی صبح طلوع ہو گی اور فلسطین کا پرچم وقار اور ثابت قدمی کی علامت کے طور پر آسمان میں لہرائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ملاقاتیں اور نوازشیں چہ معنی دارد ؟
  • امریکی فوج عظیم یا مظلوم ؟
  • علامہ مقصود ڈومکی کا ملکی سیاست اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر انٹرویو
  • شہید امت کا پیغام لبنان سے نکل کر دنیا بھر کیلیے مشعل راہ بن چکا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • کسی امریکی مطالبے پر اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے: خواجہ آصف 
  • پاکستان پوری اُمت مسلمہ کیلیے باعث فخر ہے ،فاروق حیدر
  • میئر کراچی علامہ اقبال پارک سے قبضہ ختم کرادیں‘ محمود حامد
  • شہید حسن نصراللہ عالم اسلام کے عظیم رہنماء تھے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے، بار بار جنگ بندی کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے، حافظ نعیم
  • فلسطینی عوام جنگجو نہیں جمہوری ریاست چاہتے ہیں، صدر محمود عباس