سنیے، پڑھیے اور دیکھیے تو راوی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سارے دریا، ندی نالے اور گٹر تک چین ہی چین، امن ہی امن،خوشی ہی خوشی لکھ رہے ہیں، ہر طرف شہنائیاں بج رہی ہیں۔ڈھول تاشے بلکہ ’’نقارے‘‘ بھی بج رہے ہیں کہ اس مملکت خداداد پاکستان عالی شان میں ہر طرف فردوس گم گشتہ دریافت کرلی گئی ہے۔
گلی گلی یہ عظیم الشان آراستہ پیراستہ لگژری عبادت گاہیں اور ان میں آنے والوں کی لمبی صفیں جو باہر سڑکوں تک دراز ہیں، ہر عبادت گاہ کے ساتھ ایک مقدس تعلیمی ادارہ جو دھڑا دھڑ تعلیم دے رہاہے، فل لاوڈ اسپیکر جو دن رات رشد وہدایت کے دریا بہا رہے ہیں، اس کے علاوہ تنظیمیں اور جماعتیں بھی لوگوں کی رہنمائی کے لیے سرگرم، پیرگرم اور زبان گرم ہیں، اخباروں، چینلوں اور ریڈیو پر بھی مسلسل رہنمائیاں فراہم ہیں بلکہ اب تو دینی چینلز بھی چل رہے ہیں، کتابوں کی دکانوں میں اشاعت دین کی کتب کی اتنی بہتات ہوگئی کہ کسی اور موضوع کی کتابوں کے لیے جگہ ہی نہیں رہی ہے۔ سفید براق لباسوں کے اندر جو جسم ہیں، وہ سرتا پا، دل سے دماغ،ایڑی سے چوٹی تک انتہائی غلیظ اور بدبودار ہوگئے ہیں، اتنے کہ عام انسان کا دم گھٹنے لگا ہے،ابکائیاں آرہی ہیں اور آنکھیں بھر آرہی ہیں اور بقول کسے
سب کچھ ہے کچھ نہیں یہ حالت بھی خوب ہے
بدمعاشیوں کا نام سیاست بھی خوب ہے
جسے دیکھیے بے چین ہے، بے قرار ہے، عدم تحفظ کا شکار ہے اور تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے بلکہ کررہا ہے اور بہت زیادہ کررہا ہے، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔
چھائی ہے اس گلی میں ہر سمت اک اداسی
سب امن ’’نگر‘‘ کے رستے ویار ہوگئے ہیں
صبحیں اداس اپنی شامیں دھواں دھواں سی
اب یہ میرے سفر کے سامان ہوگئے ہیں
کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت۔باہر اتنی روشنیاں اور اندر اتنی تاریکیاں۔یہ بے پناہ مقدس چہرے اور ان کے پیچھے گھناونے اعمال
اتنی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز
رات تو رات ہے ہم دن کو جلائے ہیں چراغ
بستیاں چاند ستاروں میں بسانے والو
کرہ ارض کے بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
اس حالت کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ کیا سوچیں، کیا سمجھیں، کیا کریں، کہاں جائیں، ہماری تو کسی دانا دانشور تک رسائی بھی نہیں کہ بہت ہی پستہ قد ہیں کہتے ہیں کہ ملا کی دوڑ مسجد تک لیکن ہم نہ تو ملا ہیں نہ ہماری کوئی مسجد ہے۔ لے دے کر ایک راستہ باقی رہ گیا ہے، اس بزرگ پاگل سے پوچھنے کا۔ جس سے ہماری ملاقات’’آئینے‘‘ میں ہوتی تھی۔لیکن اب ہم اس سے بھی ڈرنے لگے ہیں کہ ایک تو اس کی شکل اتنی منحوس ہوگئی ہے کہ دیکھ کر بھی خوشی نہیں ہوتی بلکہ افسوس ہوتا ہے، اوپر سے اس کے طعنے تشنے۔ لیکن مجبوری تھی کہ ہمارا کوئی اور تو ہے نہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
جی کو کڑا کرکے آئینے سے گرد کو صاف کیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اپنا سوال دے مارا کہ اس تالاب کی ہموار اور کنول کے پھولوں سے ہر بہار سطح کے نیچے گٹر کیوں بہہ رہے ہیں اور اتنی ہمہ اقسام کی کوششوں کے باوجود لوگ سدھر کیوں نہیں رہے ہیں؟اس نے حسب معمول الفاظ کی کنجوسی سے کام لیتے ہوئے کہا، دوربین رکھ دو اور خوردبین اٹھالو۔ پوچھا، حضرت کچھ اور تفصلیے، تشریحیے۔ بولے، دوسروں کو سدھارنا چھوڑ دو، پہلے خود سدھر جاؤ،جب گڑ کی ڈلی منہ میں ہو، چبائے جارہے ہو اور دوسروں کو ’’گڑ‘‘ کھانے سے منع کروگے۔تو یہی نتیجہ ہوگا۔
جو دیکھ رہے ہو۔اورآج کل تم سب ’’گڑ‘‘ کو مزے سے چبا چبا کر کھا رہے ہو اور کورس میں گارہے ہو کہ ’’گڑ مت کھاؤ‘‘ گڑ مت کھاؤ۔ دوبین میں دور دور دیکھ کر دوسروں کی برائیاں مت سنوارو کہ وہ سب بھی دوربین میں تم کو دیکھ رہے ہیں، اس لیے دوربین رکھ کر خوردبین اٹھالو اور سب سے قریبی آدمی کو سدھارنے کی کوشش کرو اور جب سب یہ کرنے لگوگے تو سب سدھر جائیں گے ،کوئی برا نہیں رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں اور کے لیے رہے ہو
پڑھیں:
کس مرض کی دوا ہیں؟
ملک بھر میں رہائشی مسائل انتہائی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں مگر کنالوں اور ایکڑوں زمین پر بنے سرکاری پرتعیش بنگلوں، عالی شان کوٹھیوں اور وسیع و عریض ہاؤسوں میں رہنے والوں کو کیا فکر اور وہ فکر بھی کریں کیوں انھیں عارضی اور مستقل رہائش گاہیں میسر اور خدمت کے لیے سرکاری مراعات ملی ہوئی ہیں۔
عارضی سرکاری اورکنالوں میں پھیلے ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، بڑے بڑے گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کو اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام رہائشی سہولیات سرکاری طور پر مل جاتی ہیں جن کا عام آدمی تو کیا متوسط طبقہ بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ایسی جگہوں کے تو قریب سے گزرنے کا ملک کی اکثریتی آبادی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
وقت ضرورت اپنے کاموں کے لیے حکمرانوں کے دفاتر اور بڑے محکموں کے سرکاری دفاتر میں آنے کے لیے بھی انھیں مشکل سے شناختی کارڈ گروی رکھنے کے بعد داخلے کی اجازت ملتی ہے اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پولیس ہیڈ آفسز اور اعلیٰ پولیس افسران، سیکریٹریوں، کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کی رہائش گاہوں سے تو غریب کیا متوسط طبقے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر اعلیٰ سرکاری افسروں کے دفاتر کے باہر ہی انھیں سیکیورٹی والوں کے پاس شناخت کرا کر اور اپنے کام کی تفصیل جان کر ہی داخلے کی اجازت ملتی ہے، اتنی سختی کی وجوہات دہشت گردی قرار دی جاتی ہے مگر جو اصل دہشت گرد ہوتے ہیں انھیں جو ٹاسک سونپا جاتا ہے اس کی تکمیل کے لیے گمراہ ہو کر اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر دہشت گردی کر جاتے ہیں اور ان کی راہ میں سیکیورٹی اہلکار تو کیا وہاں لگے آہنی گیٹ اور مضبوط دیواریں بھی رکاوٹ نہیں بنتیں وہ سب کو پھلانگ کر داخل ہو کر کام دکھا جاتے ہیں جس کو سرکاری سیکیورٹی فیلیئر قرار دیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں انگریز حکمرانوں نے اپنی حفاظت اور رہائش کے لیے وسیع و عریض رہائش گاہیں بنائی تھیں جو ان کے جانے کے بعد گورنر ہاؤس بنا دیے گئے اور جو دیگر افسروں کی جگہیں تھیں وہ کمشنر ہاؤس، ڈی سی ہاؤس اور اعلیٰ بیورو کریٹس اور اعلیٰ پولیس افسران کی سرکاری رہائش گاہوں میں تبدیل کر دی گئیں جو ان کی مستقل اور ایسی جگہیں ہیں جو بعد میں آنے والوں کو ملتی رہتی ہیں اور ہر سال ان کی مرمت و تزئین و آرائش پر سرکاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں جس سے وہاں آنے جانے والوں کی جیبوں پر خرچہ نہیں آتا اور انھیں ساری سہولتیں سرکاری طور ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے خوشنما دعوے کیے تھے کہ بڑے بڑے گورنر ہاؤس محدود کر کے انھیں عوام کے لیے کھول دیں گے اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی اور گورنر ہاؤسز میں نئے تعلیمی ادارے قائم کریں گے مگر پونے چار سالوں میں کچھ بھی کیا نہ گورنر ہاؤس محدود ہوئے نہ وہ عوام کے لیے کھلے۔ معمولی تبدیلی یہ آئی کہ مضبوط دیواروں پر لوہے کے جنگلے لگ گئے تاکہ عوام باہر سے ہی گورنر ہاؤس دیکھ کر خوش ہو جائیں کیونکہ غریب عوام کے لیے یہی خوشی باقی رہ گئی ہے کہ ان کے سیاسی حکمران کیسے شاندار محلات میں رہتے ہیں اور عوام سے دور رہ کر سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دعویدار وزیر اعظم نے ملک میں غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا تھا مگر اقتدار میں آ کر بھول گئے اور انھوں نے اپنے سیاسی انتقام کو ضروری سمجھا اور چن چن کر اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کر تسکین حاصل کی اور بعد میں انھیں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا خیال آیا مگر اس سے قبل انھوں نے اپنی یونیورسٹی بنائی اور مفت زمین حاصل کی اور بعد میں انھیں کچھ فرصت ملی تو پچاس لاکھ گھر یاد آئے مگر ان کے سیاسی مخالفین نے ہٹا دیا اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب ادھورا رہ گیا۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے بعد پی ڈی ایم کے وزیر اعظم نے گھر بنا کر دینے کا عوام سے وعدہ ہی نہیں کیا تھا نہ ملک کے سنگین رہائشی مسائل ان کا مسئلہ تھے اس لیے وہ اس طرف کیوں توجہ دیتے ان کی ترجیحات میں غریبوں کے لیے گھر بنانا شامل ہی نہیں تھا۔ پنجاب کے عوام کی خوش نصیبی کہ انھیں خادم اعلیٰ کے بعد مریم نواز کی صورت میں ایک متحرک وزیر اعلیٰ نصیب ہوئی جنھوں نے ایک سال بعد پنجاب میں رہائشی مسائل کا ادراک کیا اور پہلے مرحلے میں پنجاب کے ایک لاکھ شہریوں کو اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کے تحت15 لاکھ روپے تک کی بڑی رقم بلا سود قرضوں کی فراہمی ہی شروع نہیں کرائی بلکہ اس پر فوری عمل درآمد بھی کرایا جس سے پلاٹوں کے مالکان نے اپنے گھروں کی تعمیر شروع کرا رکھی ہے اور وہ اپنی وزیر اعلیٰ کو دعائیں دے رہے ہیں اور بے گھروں کو گھر بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔
اپنی چھت اپنا گھر پروگرام میں لوگوں کے لیے اپنا پلاٹ ہونے کی شرط تھی اور پلاٹ نہ رکھنے والوں کے لیے یہ سہولت نہیں تھی جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی زمین اپنا گھر پروگرام بھی شروع کر دیا ہے جس کے تحت پنجاب کے 19 اضلاع کی 23 اسکیموں کے تحت کم آمدنی والے دو ہزار افراد کو مفت میں تین مرلے کے پلاٹ قرعہ اندازی میں دیے جائیں گے۔
پنجاب میں تو رہائشی مسائل پر توجہ دی گئی مگر 16 سالوں سے برسر اقتدار سندھ کی حکومت سوئی رہی اور صرف سیلاب و بارش متاثرین کو مفت گھر دینا شروع کر دیے ہیں مگر کراچی میں تیسر ٹاؤن کے بعد قسطوں پر بھی پلاٹ دینے کا خیال سندھ حکومت کو نہیں آیا اور کراچی میں پلاٹ کا حصول خواب بن چکا اور کرائے بڑھنے سے لاکھوں لوگ پریشان اور باقی سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں اور پلوں کے نیچے وقت گزار رہے ہیں۔ پی پی کے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بھی صوبے میں رہائشی مسئلہ نہیں جب کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو صرف اپنے بانی کی فکر ہے کہ وہ رہا ہوں اور اسی سیاست میں ان کا اقتدار برقرار رہے۔ پنجاب کی تقلید میں باقی وزرائے اعلیٰ کو اپنے صوبوں میں اہم رہائشی مسائل کی فکر ہے نہ بے گھروں کی تکالیف کا احساس، انھیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔