Express News:
2025-09-18@12:37:37 GMT

دوربین دو، خوردبین اٹھالو

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

سنیے، پڑھیے اور دیکھیے تو راوی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سارے دریا، ندی نالے اور گٹر تک چین ہی چین، امن ہی امن،خوشی ہی خوشی لکھ رہے ہیں، ہر طرف شہنائیاں بج رہی ہیں۔ڈھول تاشے بلکہ ’’نقارے‘‘ بھی بج رہے ہیں کہ اس مملکت خداداد پاکستان عالی شان میں ہر طرف فردوس گم گشتہ دریافت کرلی گئی ہے۔

گلی گلی یہ عظیم الشان آراستہ پیراستہ لگژری عبادت گاہیں اور ان میں آنے والوں کی لمبی صفیں جو باہر سڑکوں تک دراز ہیں، ہر عبادت گاہ کے ساتھ ایک مقدس تعلیمی ادارہ جو دھڑا دھڑ تعلیم دے رہاہے، فل لاوڈ اسپیکر جو دن رات رشد وہدایت کے دریا بہا رہے ہیں، اس کے علاوہ تنظیمیں اور جماعتیں بھی لوگوں کی رہنمائی کے لیے سرگرم، پیرگرم اور زبان گرم ہیں، اخباروں، چینلوں اور ریڈیو پر بھی مسلسل رہنمائیاں فراہم ہیں بلکہ اب تو دینی چینلز بھی چل رہے ہیں، کتابوں کی دکانوں میں اشاعت دین کی کتب کی اتنی بہتات ہوگئی کہ کسی اور موضوع کی کتابوں کے لیے جگہ ہی نہیں رہی ہے۔ سفید براق لباسوں کے اندر جو جسم ہیں، وہ سرتا پا، دل سے دماغ،ایڑی سے چوٹی تک انتہائی غلیظ اور بدبودار ہوگئے ہیں، اتنے کہ عام انسان کا دم گھٹنے لگا ہے،ابکائیاں آرہی ہیں اور آنکھیں بھر آرہی ہیں اور بقول کسے

سب کچھ ہے کچھ نہیں یہ حالت بھی خوب ہے

بدمعاشیوں کا نام سیاست بھی خوب ہے

جسے دیکھیے بے چین ہے، بے قرار ہے، عدم تحفظ کا شکار ہے اور تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے بلکہ کررہا ہے اور بہت زیادہ کررہا ہے، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔

چھائی ہے اس گلی میں ہر سمت اک اداسی

سب امن ’’نگر‘‘ کے رستے ویار ہوگئے ہیں

صبحیں اداس اپنی شامیں دھواں دھواں سی

اب یہ میرے سفر کے سامان ہوگئے ہیں

کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت۔باہر اتنی روشنیاں اور اندر اتنی تاریکیاں۔یہ بے پناہ مقدس چہرے اور ان کے پیچھے گھناونے اعمال

اتنی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز

رات تو رات ہے ہم دن کو جلائے ہیں چراغ

بستیاں چاند ستاروں میں بسانے والو

کرہ ارض کے بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

اس حالت کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ کیا سوچیں، کیا سمجھیں، کیا کریں، کہاں جائیں، ہماری تو کسی دانا دانشور تک رسائی بھی نہیں کہ بہت ہی پستہ قد ہیں  کہتے ہیں کہ ملا کی دوڑ مسجد تک لیکن ہم نہ تو ملا ہیں نہ ہماری کوئی مسجد ہے۔ لے دے کر ایک راستہ باقی رہ گیا ہے، اس بزرگ پاگل سے پوچھنے کا۔ جس سے ہماری ملاقات’’آئینے‘‘ میں ہوتی تھی۔لیکن اب ہم اس سے بھی ڈرنے لگے ہیں کہ ایک تو اس کی شکل اتنی منحوس ہوگئی ہے کہ دیکھ کر بھی خوشی نہیں ہوتی بلکہ افسوس ہوتا ہے، اوپر سے اس کے طعنے تشنے۔ لیکن مجبوری تھی کہ ہمارا کوئی اور تو ہے نہیں

کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے

ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں

جی کو کڑا کرکے آئینے سے گرد کو صاف کیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اپنا سوال دے مارا کہ اس تالاب کی ہموار اور کنول کے پھولوں سے ہر بہار سطح کے نیچے گٹر کیوں بہہ رہے ہیں اور اتنی ہمہ اقسام کی کوششوں کے باوجود لوگ سدھر کیوں نہیں رہے ہیں؟اس نے حسب معمول الفاظ کی کنجوسی سے کام لیتے ہوئے کہا، دوربین رکھ دو اور خوردبین اٹھالو۔ پوچھا، حضرت کچھ اور تفصلیے، تشریحیے۔ بولے، دوسروں کو سدھارنا چھوڑ دو، پہلے خود سدھر جاؤ،جب گڑ کی ڈلی منہ میں ہو، چبائے جارہے ہو اور دوسروں کو ’’گڑ‘‘ کھانے سے منع کروگے۔تو یہی نتیجہ ہوگا۔

جو دیکھ رہے ہو۔اورآج کل تم سب ’’گڑ‘‘ کو مزے سے چبا چبا کر کھا رہے ہو اور کورس میں گارہے ہو کہ ’’گڑ مت کھاؤ‘‘ گڑ مت کھاؤ۔ دوبین میں دور دور دیکھ کر دوسروں کی برائیاں مت سنوارو کہ وہ سب بھی دوربین میں تم کو دیکھ رہے ہیں، اس لیے دوربین رکھ کر خوردبین اٹھالو اور سب سے قریبی آدمی کو سدھارنے کی کوشش کرو اور جب سب یہ کرنے لگوگے تو سب سدھر جائیں گے ،کوئی برا نہیں رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں اور کے لیے رہے ہو

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage