Express News:
2025-11-03@18:23:05 GMT

دوربین دو، خوردبین اٹھالو

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

سنیے، پڑھیے اور دیکھیے تو راوی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سارے دریا، ندی نالے اور گٹر تک چین ہی چین، امن ہی امن،خوشی ہی خوشی لکھ رہے ہیں، ہر طرف شہنائیاں بج رہی ہیں۔ڈھول تاشے بلکہ ’’نقارے‘‘ بھی بج رہے ہیں کہ اس مملکت خداداد پاکستان عالی شان میں ہر طرف فردوس گم گشتہ دریافت کرلی گئی ہے۔

گلی گلی یہ عظیم الشان آراستہ پیراستہ لگژری عبادت گاہیں اور ان میں آنے والوں کی لمبی صفیں جو باہر سڑکوں تک دراز ہیں، ہر عبادت گاہ کے ساتھ ایک مقدس تعلیمی ادارہ جو دھڑا دھڑ تعلیم دے رہاہے، فل لاوڈ اسپیکر جو دن رات رشد وہدایت کے دریا بہا رہے ہیں، اس کے علاوہ تنظیمیں اور جماعتیں بھی لوگوں کی رہنمائی کے لیے سرگرم، پیرگرم اور زبان گرم ہیں، اخباروں، چینلوں اور ریڈیو پر بھی مسلسل رہنمائیاں فراہم ہیں بلکہ اب تو دینی چینلز بھی چل رہے ہیں، کتابوں کی دکانوں میں اشاعت دین کی کتب کی اتنی بہتات ہوگئی کہ کسی اور موضوع کی کتابوں کے لیے جگہ ہی نہیں رہی ہے۔ سفید براق لباسوں کے اندر جو جسم ہیں، وہ سرتا پا، دل سے دماغ،ایڑی سے چوٹی تک انتہائی غلیظ اور بدبودار ہوگئے ہیں، اتنے کہ عام انسان کا دم گھٹنے لگا ہے،ابکائیاں آرہی ہیں اور آنکھیں بھر آرہی ہیں اور بقول کسے

سب کچھ ہے کچھ نہیں یہ حالت بھی خوب ہے

بدمعاشیوں کا نام سیاست بھی خوب ہے

جسے دیکھیے بے چین ہے، بے قرار ہے، عدم تحفظ کا شکار ہے اور تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے بلکہ کررہا ہے اور بہت زیادہ کررہا ہے، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔

چھائی ہے اس گلی میں ہر سمت اک اداسی

سب امن ’’نگر‘‘ کے رستے ویار ہوگئے ہیں

صبحیں اداس اپنی شامیں دھواں دھواں سی

اب یہ میرے سفر کے سامان ہوگئے ہیں

کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت۔باہر اتنی روشنیاں اور اندر اتنی تاریکیاں۔یہ بے پناہ مقدس چہرے اور ان کے پیچھے گھناونے اعمال

اتنی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز

رات تو رات ہے ہم دن کو جلائے ہیں چراغ

بستیاں چاند ستاروں میں بسانے والو

کرہ ارض کے بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

اس حالت کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ کیا سوچیں، کیا سمجھیں، کیا کریں، کہاں جائیں، ہماری تو کسی دانا دانشور تک رسائی بھی نہیں کہ بہت ہی پستہ قد ہیں  کہتے ہیں کہ ملا کی دوڑ مسجد تک لیکن ہم نہ تو ملا ہیں نہ ہماری کوئی مسجد ہے۔ لے دے کر ایک راستہ باقی رہ گیا ہے، اس بزرگ پاگل سے پوچھنے کا۔ جس سے ہماری ملاقات’’آئینے‘‘ میں ہوتی تھی۔لیکن اب ہم اس سے بھی ڈرنے لگے ہیں کہ ایک تو اس کی شکل اتنی منحوس ہوگئی ہے کہ دیکھ کر بھی خوشی نہیں ہوتی بلکہ افسوس ہوتا ہے، اوپر سے اس کے طعنے تشنے۔ لیکن مجبوری تھی کہ ہمارا کوئی اور تو ہے نہیں

کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے

ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں

جی کو کڑا کرکے آئینے سے گرد کو صاف کیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اپنا سوال دے مارا کہ اس تالاب کی ہموار اور کنول کے پھولوں سے ہر بہار سطح کے نیچے گٹر کیوں بہہ رہے ہیں اور اتنی ہمہ اقسام کی کوششوں کے باوجود لوگ سدھر کیوں نہیں رہے ہیں؟اس نے حسب معمول الفاظ کی کنجوسی سے کام لیتے ہوئے کہا، دوربین رکھ دو اور خوردبین اٹھالو۔ پوچھا، حضرت کچھ اور تفصلیے، تشریحیے۔ بولے، دوسروں کو سدھارنا چھوڑ دو، پہلے خود سدھر جاؤ،جب گڑ کی ڈلی منہ میں ہو، چبائے جارہے ہو اور دوسروں کو ’’گڑ‘‘ کھانے سے منع کروگے۔تو یہی نتیجہ ہوگا۔

جو دیکھ رہے ہو۔اورآج کل تم سب ’’گڑ‘‘ کو مزے سے چبا چبا کر کھا رہے ہو اور کورس میں گارہے ہو کہ ’’گڑ مت کھاؤ‘‘ گڑ مت کھاؤ۔ دوبین میں دور دور دیکھ کر دوسروں کی برائیاں مت سنوارو کہ وہ سب بھی دوربین میں تم کو دیکھ رہے ہیں، اس لیے دوربین رکھ کر خوردبین اٹھالو اور سب سے قریبی آدمی کو سدھارنے کی کوشش کرو اور جب سب یہ کرنے لگوگے تو سب سدھر جائیں گے ،کوئی برا نہیں رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں اور کے لیے رہے ہو

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • کراچی کا انفرااسٹرکچر دیکھ کرہمیشہ انتہائی دکھ ہوتا ہے، علیم خان
  • جب بھی کراچی آتے ہیں یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے، علیم خان
  • کراچی آتا ہوں تو یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے، وفاقی وزیرعبدالعلیم خان
  • جب بھی کراچی آتا ہوں یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے، وفاقی وزیر عبد العلیم خان
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • تجدید وتجدّْد