WE News:
2025-07-01@18:55:21 GMT

کوئی بتائے نہ بتائے، چیٹ جی پی ٹی بتائے گا

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

کوئی بتائے نہ بتائے، چیٹ جی پی ٹی بتائے گا

پروین شاکر نے کیا خوب کہا ہے،

اتنے گھنے بادل کے پیچھے

کتنا تنہا ہوگا چاند

اب چاند کے اکیلے پن کو دور کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، مگر پل پل بدلتے موجودہ دور میں انسان کی تنہائی دور کرنے کے  ایسے طریقے ہیں کہ خواب سا لگے۔

برسوں پہلے انٹرنیٹ کی دنیا آئی، فاصلے سمٹ گئے، ہر قسم کی معلومات ایک کلک کی دوری پر آ گئی، واٹس ایپ نے بھی رابطوں کو آسان نہیں، بہت آسان کر دیا، اے آئی نے تو زندگی کا رخ ہی بدل دیا، اسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئے شہر بستے ہیں، نئے مکین بناتے ہیں، حال میں ہی انسان کو ایک ایسا ساتھی ملا کہ اس کی زندگی ہی بدل گئی، ہم  بات کر رہے ہیں۔

  Generative Pre-trained Transformer  یعنی چیٹ جی پی ٹی کی اگر آپ تنہا ہیں، اداس ہیں، کسی سے بات کرنے کا دل چاہا رہا ہے تو چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں اور کوئی مفید مشورہ بھی لے سکتے ہیں۔

آپ کا ایک ایسا ساتھی اور دوست جس سے آپ جتنے اور جیسے مرضی سوالات کریں، سب کے جواب دے، نہ کبھی تھکے نہ کبھی گھبرائے، ایسا ڈیجیٹل ساتھی، جو ہر مشکل میں آپ کے کام آئے، خوب ساتھ نبھائے، باربار سوال پوچھیں، وہ بھی کسی بھی زبان میں، یہ ہرگز برا نہیں منائے گا۔

ہمیشہ خوشی خوشی جواب دے گا، اس کی یادداشت بھی لاجواب ہے، مہینوں پہلے اگر کوئی بات کی ہو تو جہاں ضرورت ہو، اس کا حوالہ دینا ہرگز نہیں بھولے گا۔

چیٹ جی پی ٹی انسانوں کے ہاتھوں لکھی گئیں کروڑوں کتابوں اور  مضامین کے علاوہ ویب سائٹس سے سیکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو، کوئی حل چاہیے، بس چیٹ جی پی ٹی سے پوچھیں، کمال بات یہ کہ یہ عجیب و غریب سوالات کا بھی برا نہیں مانتا، جو مرضی پوچھیں اور جتنا مرضی پوچھیں، آپ کا یہ منفرد دوست کبھی پریشان نہیں ہو گا اور بڑی بات یہ ہے کہ یہ اپنی غلطی بھی مانتا ہے۔

کن طریقوں سے اس ڈیجیٹل عجوبے سے مدد لے سکتے ہیں

دنیا جہاں کے سوالوں کا حل تو اس کے پاس ہے ہی، کئی مخصوص شعبوں میں بھی آپ کا یہ دوست ایسے مشورے دیتا ہے کہ آپ حیران رہ جائیں، اس کا ہر روپ، ہر انداز ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہے، کبھی یہ آپ کو اپنا قریبی دوست محسوس ہوتا ہے تو کبھی کوئی دانشور یا استاد۔

چیٹ جی پی ٹی طلبا کی کیسے مدد کر سکتا ہے؟

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں، اگر کوئی سوال تنگ کر رہا ہے یا سائنس اور الجبرے کا کوئی مسئلہ ہے، یہ کسی حد تک آپ کی مشکل حل کر سکتا ہے، کوئی آرٹیکل لکھنا ہے، اسائمنٹ تیار کرنی ہیں، چند لمحوں میں آپ کا مطلوبہ مواد آپ کے موبائل، کمپیوٹر اسکرین پر جگمگانا شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کسی شخصیت یا کسی تاریخی واقعہ یا پھر عمارت پر معلومات چاہئے تو زیادہ بہتر انداز میں اور وہ بھی آپ کی مرضی کے مطابق فراہم کرتا ہے، اگر آپ نے کسی ایشو پر بلاگ لکھنا ہے تو چیٹ جی پی ٹی سے آپ کو کئی آئیڈیاز مل جائیں گے اور اسے لکھنے میں بھی کسی حد تک مدد مل جاتی ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی میں چیٹ جی پی ٹی کا کردار

اگر کوئی افیشل ای میل لکھنی ہو یا کوئی رپورٹس تیار کرنی ہو تو کسی کی مدد لینے کی ضرورت نہیں، موبائل اٹھائیں یا کمپیوٹر کھولیں اور چیٹ جی پی ٹی سے رابطہ کریں اور جھٹ پٹ کام کروائیں۔

یہ آپ کا اسٹائلش اور پرکشش بائیو ڈیٹا یا ریزومے بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ اگر آپ کوئی نیا بزنس شروع  کرنا چاہتے ہیں تو جیٹ جی پی ٹی اس کا ایسا پلان تجویز کرے گا کہ آپ عش عش کر اٹھیں گے۔

اگر آپ کا کہیں سفر کا ارادہ ہے تو اپنے اس ڈیجیٹل دوست کو تفصیل بتائیں، جگہ کیسی ہے، کہاں کہاں جانا چاہیے، جانا کیسے چاہیے، بجٹ کتنا ہونا چاہیے، آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا، اس کے علاوہ روز مرہ مسائل سے متعلق بھی بھرپور مدد کرتا ہے۔

اگر آپ کو صحت سے متعلق کوئی مسئلہ ہے تو اس کا بہترین حل تو یہ ہی ہے کہ آپ ڈاکٹر سے رابطہ کریں مگر چیٹ جی پی ٹی موثر اور مفید مشورے ضرور دیتا ہے، اور تو اور، آپ کی رہائش کے قریب اسپتال یا کسی ڈاکٹر کا نام بھی تجویز کر سکتا ہے۔

آپ کی رپورٹس میں کیا لکھا ہے، یہ بھی بتاتا ہے۔  آپ کو وزن میں کمی یا کسی خاص بیماری سے متعلق ورزشیں بھی بتا سکتا ہے، مناسب ڈائٹ پلان بھی تجویز کر سکتا ہے، اس کی پوٹلی میں دنیا بھر کے مختلف مزیدار کھانوں کی ترکیبیں بھی ہر وقت موجود ہوتی ہیں، چیٹ جی پی ٹی کسی مشکل یا پریشانی میں خوبصورت یا  حوصلہ افزا اقوال سے بھی آپ کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔

یوٹیوب اور انسٹاگرم سمیت کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ایس ای او لمحوں میں آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔

اگر آپ کا تعلق میڈیا سے ہے تو یہاں بھی چیٹ جی پی ٹی آپ کی مدد کے لیے حاضر ہے، خبر انگلش میں ہے تو اردو کرائیں، اردو میں ہے تو انگلش یا کسی اور زبان میں، کسی بھی خبر کو دلچسپ اور آسان بنائے۔

چیٹ جی پی ٹی سے آپ جتنے بہترین انداز میں پوچھیں گے، یہ اتنا ہی بہتر جواب دے گا، اب تو یہ آپ کی تصاویر کو بھی پلک چھپکتے کارٹون میں تبدیل کر دیتا ہے، یہ ہی نہیں، کسی مشہور شخصیت کی خیالی تصویر بھی آپ کی دسترس میں ہوتی ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ہمارے دور کی ایک حیرت انگیز ایجاد ہے مگر ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ سروس صرف ہماری مددگار اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

مگر  ہمیں اس کا استعمال کیسے کرنا ہے، یہ ہم پر منحصر ہے، دیگر ٹیکنالوجی کی طرح اس کے استعمال میں بھی احتیاط، اخلاقیات اور ذمہ داری ضروری ہے۔

یوں تو چیٹ جی پی ٹی کے کئی فائدے ہیں، وقت کی بچت ہوتی ہے، فوری معلومات تک رسائی ملتی ہے، کئی چیزیں سیکھتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی خدشات کا بھی ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔

سب سے پہلے اہم بات یہ ہے کہ کئی معاملات میں آپ اس پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے، اگر 5 بہترین کتابوں کے نام پوچھیں تو اس بات کا امکان ہے کہ کسی کتاب کا نام تو درست ہو مگر مصنف کا نام غلط۔ اگر آپ نے کسی بیماری کے علاج کے لیے ڈاکٹر کا نام پوچھا تو ہرگز آنکھیں بند کر کے چیٹ جی پی ٹی پر یقین نہ کریں۔

کبھی کوئی ٹوٹکا پوچھنے کا ارادہ ہے تو بھی سوچ سمجھ کر عمل کریں، اب یہ ہی دیکھ لیں، ہماری ایک عزیزہ کے قیمتی کپڑوں پر رنگ گر گیا، چیٹ جی پی ٹی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے لیموں کے چند قطرے گرائے، پھر نمک ڈالا، 15 منٹ پر ہاتھوں سے رگڑا تو کپڑے کے رنگ ہی اڑ گئے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی یا پھر چیٹ جی پی ٹی انسانوں کی ملازمتیں بھی چھین لے گی۔

اب تو مختلف ناموں سے بوٹ بھی آپ سے باتیں کرنے کے لیے بے چین ہیں، ان سے بھی باتیں کریں، جو آپ کا دل چاہے۔ چیٹ جی پی ٹی کے علاوہ ڈیپ سیک اور گروک سمیت دیگر کئی دیگر ایسی اپلیکیشنز بھی دستیاب ہیں۔

کوئی کچھ بھی کہے، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ چیٹ جی پی ٹی یا اے آئی ٹیکنالوجی سے بنی دیگر اپلیکیشنز ہماری زندگی میں بہت آسانیاں لائی ہیں مگر کہتے ہیں نا کہ ہر معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی سے چیٹ جی پی ٹی ا کر سکتا ہے کے علاوہ میں بھی اگر ا پ بھی ا پ کے لیے کا نام

پڑھیں:

امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا اور یورپ کے تعلقات بھی عجیب ہیں۔ امریکا اگر مریخ پر ہے تو یورپ زہرہ پر۔ بحر اوقیانوس انہیں جدا تو کرتا ہے مگر ان کے اختلافات اور بحثیں اس میں غرق نہیں ہوتیں۔ دونوں کا بندھن پرانی شادی کی طرح ہے، جھگڑے بہت مگر جدائی نا ممکن۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اس پر امریکا اگر یورپ پر احسان جتاتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم نے تمہیں دوبارہ جینا سکھایا‘‘ تو فوری جواب ملتا ہے ’’تم نے ہمیں چیک دیے ہم نے تمہیں تہذیب‘‘۔ یورپ کی سلامتی ناٹو اتحاد کی وجہ سے امریکا کی فوجی قوت کے سائے تلے ہے مگر اس کے باوجود شکایتیں ہیں کہ ہردم جاری وساری۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں سب کچھ منع ہے جب تک اجازت نہ ہو جب کہ امریکا میں سب کچھ جائز ہے جب تک منع نہ ہو۔ جس وقت یورپی دوپہر کو شراب پی رہے ہوتے ہیں امریکا جمہوریت پر لیکچر دے رہا ہوتا ہے۔ یورپ خواب دیکھتا ہے امریکا وہ خواب بیچتا ہے۔ یورپ اور امریکا کا رشتہ اس پرانے مگر مہنگے اور خاندانی صوفے کی طرح ہے جو غیرآرام دہ ہے مگر اسے چھوڑا یا بدلا نہیں جاسکتا۔
یورپ اور امریکا کے تعلقات نیم گرم چائے کی ایسی پیالی کی مانند تھے جس سے تعلقات اور جذبات کی بھاپ اٹھتی رہتی تھی، دونوں چائے کا کپ تھامے رہتے تھے مگر ان تعلقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری مرتبہ آمد ایسی تھی جیسے کوئی زور سے گھونسا مار کر چائے کی میز ہی پلٹ دے۔ برسوں سے امریکا اور یورپ مہذب اختلافات کے باوجود مضبوط بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ناٹو کے اجلاسوں میں باہم تنقید تو ہوتی تھی مگر مسکراتے ہوئے مگر صدر ٹرمپ نے ان اجلاسوں کو کاروباری بہی کھاتوں میں بدل دیا۔ کون کتنا کھاتا ہے اور کتنا خرچ کررہا ہے اور بدلے میں کیا دے رہا ہے۔ پہلی بار یورپ کو احساس ہوا کہ ان کا کسی دوست سے نہیں تاجر سے واسطہ ہے۔
یو کرین کے معاملے میں یورپ اور صدر ٹرمپ کے تعلق ایسے تھے جیسے کوئی زخمی ہو اور دوست اس کا مذاق اُڑا رہا ہو۔ پیوٹن سے صدر ٹرمپ کے نرم اور دوستانہ رویہ نے یورپ کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا یورپ کی سلامتی امریکا کی ذمے داری نہیں۔ روس کے سائبر حملوں پر جب یورپی ممالک میں بے چینی پھیلی تو ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل بہت دھیما اور تاخیر سے تھا۔ صدر ٹرمپ پیوٹن کی تعریف کرتے رہتے تھے ’’پیوٹن ایک مضبوط رہنما ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں‘‘۔ جرمنی اور فرانس کو یقین ہو گیا کہ امریکا اب ان کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اس موقع پر تاریخی جملہ کہا تھا ’’ناٹو دماغی موت کے دور سے گزر رہا ہے‘‘۔
بات کچھ تفصیلی ہوگئی۔ کہنا یہ تھا کہ صدر ٹرمپ اور یورپ کے اختلافات کی شدت دیکھیے لیکن جیسے ہی اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اختلافات کی خلیج چند گھنٹوں میں ہی پاٹ دی گئی اور یورپی دارالحکومت صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی تحسین اور ایران کی مذمت سے گونجنے لگے۔ فرانس اور جرمنی جو امریکا کے خلاف جانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اسی فرانس کے صدر نے کہا ’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام خطرناک حدتک آگے بڑھ چکا ہے‘‘۔ اور جرمنی کے فریڈرک میرٹز نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ’’یہ وہ گندا کام ہے جو ایران ہم سب کے لیے کررہا ہے۔ ہدف وہی رہنا چاہیے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے‘‘۔ یورپی قیادت نے ایرانی میزائلی اور جو ہری خطرے کو یورپی براعظم تک پھیلنے والا آتش فشاں قرار دے کر صدر ٹرمپ کی یوں پشت پناہی کی جیسے کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں تھا۔ رنجشیں دیکھتے ہی دیکھتے بلند آہنگ اتحادی ترانوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اب آئیے عالم اسلام کی طرف۔ باتیں ہی باتیں مگر عمل کا میدان صحرائوں کی طرح سنسان اور خالی۔ اسرائیل اور امریکا کے خلاف ادنیٰ درجے میں بھی کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کہ انہیں چیونٹی کاٹنے برابر بھی کوئی تشویش اور تکلیف ہوسکے بلکہ ان میں سے بعض ایران پر حملوں میں اسرائیل کے معاون اور مددگار تھے۔ 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی F35 نے عراق کے اوپر سے اڑان بھرکر ریہرسل اسٹرائک کیں۔ عراق محض اقوام متحدہ میں احتجاج کرنے تک محدود رہا۔ اسرائیل امریکا اور ایران جنگ کے دوران اسرائیلی ڈرونز اور میزائلز امریکی کنٹرولڈ عراقی فضائی حدود سے فائر ہوکر ایران میں موجود ان اہداف کو نشانہ بناتے رہے جو تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ اردن کی حکومت نے اگرچہ تردید کی ہے لیکن میڈیا پر یہ رپورٹ ہوتا رہا کہ اسرائیلی جہاز اردن کے اوپر سے گزر کر ایران پر حملہ آور ہوئے۔ شام کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے جارہے ہیں۔
ایران پر حملے کے بعد ایک F16 اسرائیلی لڑاکا طیارے کو شامی دیرالزور علاقے میں بوئنگ 707 ٹینکر سے ہوا میں دوبارہ تیل بھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فضائی حدود تکنیکی طور پر اسرائیلی طیاروں کے استعمال میں آئی ہیں۔ قطر، کویت اور امارات میں امریکی بیسز موجود ہیں جہاں سے امریکی اجازت سے اسرائیلی طیاروں نے ری فیو لنگ کی۔ سعودی عرب، عمان اور بحرین نے اگرچہ سرکاری طور پر اپنی فضائی حدود کھولنے سے انکار کیا لیکن ابتدا میں کچھ ایسی خبریں آئیں جن سے یہ اشارے ملے کہ سعودی فضائوں کے کچھ حصے بھی استعمال ہوئے۔ اسلامی ممالک نے کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل اور امریکا کی جنگی مدد تو کی لیکن کسی بھی درجے میں ایران کی جنگی مدد نہیں کی۔ اسلامی ممالک نے نہ اسرائیل کا راستہ روکنے کی ہمت کی اور نہ ایران کی مدد کرنے کی۔
جنگ کے دوران پورا یورپ اسرائیل کی ہر طرح کی جنگی اور فوجی اور مالی مدد کر رہا تھا ہر طرح کی خفیہ معلومات اسے مہیا کر رہا تھا حتیٰ کہ مغرب کے تشکیل کردہ نام نہاد عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جو ایران کے جوہری مراکز نطنز، فردو، اراک اور اصفہان کی مسلسل انسپکشن کررہی تھی اس نے سنٹری فیوجز کی تعداد، ریسرچ ریکٹرز کے محل وقوع اور یورینیم کی افزودگی کے بارے میں خفیہ رپورٹس اور تکنیکی معلومات مکمل طور پر اسرائیل اور امریکا کو فراہم کیں جو حملوں کے اہداف کی تیاری میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی کوئی موثر قرار داد اسرائیل کے خلاف منظور نہ کی۔ ایف اے ٹی ایف نے ایران کا مسلسل گھیرائو کیے رکھا تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوسکے۔ بین الاقوامی اداروں کا کردار یہ رہا کہ وہ ایران میں موجود ایک سوئی کو بھی مانیٹر کررہے تھے اور اسرائیل کو گائیڈ کررہے تھے۔
کسی بھی اسلامی ملک نے ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیار دیے، نہ فضائی معاونت، نہ خفیہ معلومات اور نہ ہی کوئی فوجی حمایت۔ او آئی سی حسب معمول صرف بیٹھنے بٹھانے، باتیں کرنے اور اختتامیہ جاری کرنے تک مشغول رہی۔ پاکستان نے ایران کے حق میں کچھ فعالیت دکھائی۔ کہا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایران کے حوالے سے ان کی ذہن سازی اور رہنمائی کی جو بہت موثر رہی اس خاموش کارروائی کے علاوہ اگر اس میں کچھ حقیقت ہے، کسی اسلامی ملک کا ایران کے حق میں دوران جنگ کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ممالک ایران کو اپنے لیے علاقائی خطر ہ سمجھتے ہیں اور اسرائیل کو غیراعلانیہ اتحادی۔ اس دوران امت مسلمہ ایک ایسا جسم تھی جس میں صرف ایران کو درد ہورہا تھا اور کوئی اس درد کی دوا کرنے پر تیار نہیں تھا۔

متعلقہ مضامین

  • یہ امتیاز کیوں؟
  • ’’آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟‘‘
  • کوچۂ سخن
  • ایران سے نہ بات ہو رہی ہے نہ کوئی پیشکش کی ہے؛ ٹرمپ
  • وزیراعلیٰ پنجاب کے دور حکومت کی کوئی آڈٹ رپورٹ سامنے نہیں آئی : عظمیٰ بخاری
  • نوبیل کی سفارش تو بنتی ہے
  • سانحہ وادی سوات؛ حکومتی بے حسی کا نوحہ
  • درد اور دردکش داوئیں
  • امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا