پاکستان کے بعد چین کی بھارت کو کاری ضرب: اروناچل پردیش کا نام تبدیل کر کے زنگنان رکھ دیا۔
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
چین نے بھارت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے نئی دہلی کے زیرِ قبضہ اروناچل پردیش کو زنگنان کا نام دیتے ہوئے اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا ہے۔ اور زنگنان کے 27 مقامات کے نام بھی تبدیل کر دیئے ہیں۔چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین کی حکومت نے زنگنان (اروناچل پردیش) کے مقامات کے نام تبدیل کرنا چینی خود مختاری ہے، زنگنان تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے، ان مقامات کو چینی نام دینا ہمارے اندرونی معاملات میں شامل ہے۔بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام چین کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا ہے، ایسا کرنے کا مقصد خطے میں تاریخی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔بھارت زنگنان کو اروناچل پردیش کے نام سے اپنا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ چین اسے جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے بھارتی جارحیت پر منہ توڑ جواب کے بعد چین کی جانب سے زنگنان پر دو ٹوک موقف بھارتی حکومت کیلئے بڑا دھچکا ہے، مودی حکومت نے خطے کے ہر ملک کے ساتھ تنازع کھڑا کرکے ثابت کیا ہے کہ بھارتی حکومت خطے کے امن کی دشمن ہے،علاوہ امیں اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام تبدیل کرنے کی چین کی کوشش کو ایک فضول اور مضحکہ خیز کوشش قرار دیتے ہوئے بھارت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس طرح کی کوششوں سے اس ناقابل تردید حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ یہ ریاست بھارت کا اٹوٹ اور لازم و ملزوم حصہ تھی، ہے اور رہے گی۔ چینی حکومت کے اس اقدام پر میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ چین نے بھارتی ریاست اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام بدلنے کی اپنی فضول اور مضحکہ خیز کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اپنے اصولی موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایسی کوششوں کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔جیسوال نے کہا کہ تخلیقی نام تبدیل کرنے سے اس ناقابل تردید حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہ اروناچل پردیش بھارت کا ایک اٹوٹ اور لازم و ملزوم حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اروناچل پردیش نام تبدیل چین کی کے نام نے کہا
پڑھیں:
پاکستان اور ٹرمپ حکومت کی بڑھتی قربت پر بھارت میں تشویش بڑھ گئی، فنانشل ٹائمز
اسلام آباد: عالمی شہرت یافتہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں غیر متوقع بہتری آئی ہے، جس نے بھارت کو سخت پریشان کر دیا ہے۔
یہ پیشرفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اور پاکستان کے درمیان حالیہ سفارتی رابطوں کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے اس سال موسم گرما میں دو بار امریکا کے اعلیٰ سطحی دورے کیے۔ سب سے حالیہ دورہ فلوریڈا کا تھا، جہاں انہوں نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی ریٹائرمنٹ تقریب میں شرکت کی۔
اس سے قبل جون میں جنرل عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کے ساتھ دو گھنٹے کا نجی دوپہر کا کھانا کھایا، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں میں سب سے خونریز جھڑپ کے صرف ایک ماہ بعد ہوا تھا۔
یہ ملاقات اس لیے بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کیونکہ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر کھلے عام تنقید کی تھی۔ تاہم، اب منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔
ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے سینیئر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا: "امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں یہ پیشرفت حیران کن ہے۔ میں اسے ایک غیر متوقع دوبارہ آغاز بلکہ ایک نیا دور کہوں گا۔ پاکستان نے اس غیر روایتی صدر سے تعلقات بڑھانے کا فن خوب سمجھ لیا ہے۔"
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے یہ کامیابی ایک جامع حکمتِ عملی کے ذریعے حاصل کی ہے، جس میں دہشت گردی کے خلاف تعاون، صدر ٹرمپ کے بزنس نیٹ ورک میں موجود اہم شخصیات تک رسائی، توانائی، معدنی وسائل اور کرپٹو کرنسی سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس کے لیے مثبت پیغام رسانی پر بھی زور دیا گیا۔
فنانشل ٹائمز نے ایک بڑی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مارچ میں پاکستان نے داعش-خراسان کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کر کے امریکی حکام کے حوالے کیا، جو 2021 کے کابل ایئرپورٹ دھماکے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس گرفتاری کو اپنے "اسٹیٹ آف دی یونین" خطاب میں پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے سراہا۔
مزید برآں، اپریل میں ٹرمپ کی حمایت یافتہ کرپٹو کرنسی منصوبہ ورلڈ لبرٹی فنانشل اور پاکستان کے کرپٹو کونسل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس منصوبے کے بانیوں میں سے ایک نے پاکستان کے دورے کے دوران ملک کے وسیع معدنی وسائل کی تعریف کی۔
رپورٹ کے مطابق بھارت اس تیزی سے بدلتے تعلقات پر سخت برہم ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا نے بھارت پر درآمدی ٹیرف 50 فیصد کر دیا جبکہ پاکستان کے لیے یہ شرح صرف 19 فیصد رکھی۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے اس بیان کی بھی تردید کی کہ امریکا نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر میں ثالثی کی تھی۔ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی افواج نے براہ راست بات چیت کے ذریعے طے کیا۔