اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے میں اسرائیل کو سائیڈ لائن کر دیا ہے۔
نجی ٹی وی جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا عرب ممالک کا دورہ انتہائی اہم تھا، بظاہر ٹرمپ کا دورہ میگا ڈیلز پر مبنی تھا، روز لگتا ہے صدر ٹرمپ اپنے ملک کی خارجہ پالیسی نئے سرے سے لکھتے ہیں۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھاکہ صدر ٹرمپ نے حوثیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا، صدر ٹرمپ نے سعودی عرب میں کہا کہ ایران سے نیوکلیئر ڈیل کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں، شام کے صدر کی ٹرمپ سے ملاقات ہوئی، امریکی صدر نے شام پر پابندیاں ختم کر دیں۔
ان کا کہنا تھاکہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی، اس پر افسوس ہے، غزہ میں قحط کی صورتحال ہے، صدر ٹرمپ نے ابھی تک اسرائیل کو نہیں روکا، اسرائیل غزہ میں بم باری کئے جا رہا ہے، صدر ٹرمپ نے دورہ مڈل ایسٹ میں فیصلوں میں اسرائیل کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا۔سابق پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی کوشش رہی کہ خلیجی ممالک کو چین سے دور کریں۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ چند روز اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط کئے تھے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ قطر گئے جہاں امریکا اور قطر کے درمیان 200 ارب ڈالر کے بوئنگ طیاروں کا معاہدہ ہوا۔ قطر کے بعد امریکی صدر متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس شراکت داری کا معاہدہ طے پایا۔

اروناچل پردیش سے متعلق رپورٹس پر چین کی حمایت کرتے ہیں: پاکستان

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ملیحہ لودھی کا کہنا تھا اسرائیل کو

پڑھیں:

ایران، اسرائیل جنگ کا نامکمل وقفہ

12 دن کی ہولناک جنگ، جو بظاہر تھم چکی ہے، مگر اس کے بطن میں چھپے سوالات اور خدشات آئندہ کسی بڑے طوفان کی تمہید بن سکتے ہیں۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جو جنگ بندی ایران اور اسرائیل کے درمیان عمل میں آئی، اس کا آغاز اور انجام دونوں ہی متنازع، غیر متوازن اور ناپائیدار دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے اسے (The 12 Day War) کہا، مگر کیا صرف 12 دن کی جھڑپیں اس خطے کے دیرینہ زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہیں؟

اس تنازع کا ایک اہم پہلو 22 جون کی درمیانی شب بنی جب اسرائیل کی درخواست پر امریکا نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر حملے کیے۔ ٹرمپ کے الفاظ میں یہ حملے ان تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔

جواب میں ایران نے قطر میں واقع امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے ’العدید‘ پر میزائل داغے، اور یوں ایسا لگا کہ مشرقِ وسطیٰ ایک وسیع تر جنگ کے دہانے پر آ گیا ہے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ’مکمل اور جامع جنگ بندی‘ کا اعلان کر دیا۔

جنگ بندی کے محض 4 گھنٹے بعد اسرائیل نے ایران پر ایک اور حملہ کیا، جس کے جواب میں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ وہ میزائل اس کی جانب سے نہیں تھے۔ ٹرمپ، جو ثالثی کے کردار میں تھے، اس واقعے پر برہم دکھائی دیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک اتنی شدت سے لڑ رہے ہیں کہ اب انہیں خود نہیں پتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

اس کے بعد پھر ایک رسمی ’سیز فائر‘ بحال ہوا۔ ٹرمپ نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ اسرائیلی طیارے واپس جا رہے ہیں اور ایران کو ’دوستانہ ہاتھ ہلا‘ رہے ہیں۔

پہلی بار اسرائیل نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر براہ راست حملہ کیا۔ نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے یہ پیغام دیا کہ وہ چاہے جتنا دور ہو، کاروائی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیل نے امریکا کو عملی جنگ میں شامل کرکے یہ ظاہر کیا کہ وہ واشنگٹن کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن کیا یہ قانونی تھا؟ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ ’متوقع دفاع‘ تھا، جبکہ عالمی سطح پر اسے خلافِ ضابطہ اقدام سمجھا جا رہا ہے۔

اگرچہ اسرائیلی اور امریکی ذرائع ان حملوں کو مؤثر قرار دے رہے ہیں، تاہم بین الاقوامی جوہری ادارے (IAEA) سمیت کسی غیر جانبدار ادارے نے ابھی اس نقصان کی تصدیق نہیں کی۔ ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ تنصیبات کو بحال کرنے کی تیاری پہلے سے موجود تھی، اور کوئی تعطل نہیں آئے گا۔

تاہم ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ 400 کلوگرام افزودہ یورینیم، جس کی موجودگی IAEA نے تسلیم کی ہے، وہ کہاں ہے اور کیا وہ محفوظ ہے؟

جنگ بندی ہوئی ہے، لیکن امن نہیں۔ نہ اسرائیل پیچھے ہٹا ہے، نہ ایران جھکا ہے۔ اگرچہ یورپی طاقتیں ایران کے ساتھ سفارتی مصالحت کی کوشش کر رہی ہیں، مگر اسرائیل ہر ایسے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے۔ دوسری طرف، ایران بھی JCPOA جیسے سابق معاہدے سے امریکی دستبرداری کو بھلا نہیں پایا۔

ایران کی پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی نے IAEA سے تعاون معطل کرنے کا بل منظور کیا ہے، جو واضح پیغام ہے کہ ایران اب بین الاقوامی نگرانی کی حدود سے نکلنے کو تیار ہے۔

اگرچہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ رک چکی ہے، لیکن ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بارود سے زیادہ اعتماد، سفارتکاری، اور بین الاقوامی توازن کو نگلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ جنگ ختم ہوئی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ سیز فائر کتنی دیر کا وقفہ ہے، امن کی دستک یا خاموشی سے پہلے کا شور؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

’امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘ اسرائیل امریکا ایران ٹرمپ مشکورعلی

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا مقصد ایرانی نظام حکومت کا تختہ الٹنا تھا لیکن ایران پہلے سے بڑھکر مستحکم ہوا ہے، مصری تجزیہ کار
  • ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کے حکم نامے پر دستخط کر دیئے
  • مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جاری، فضائی ٹریفک بدستور متاثر
  • ایران، اسرائیل جنگ کا نامکمل وقفہ
  • امیر لوگوں کا گروپ ٹک ٹاک خرید رہا ہے، چینی صدر ڈیل کی منظوری دیں گے، ٹرمپ
  • ایران اسرائیل جنگ بندی، مشہد سے پہلی پرواز کراچی پہنچ گئی
  • کچھ نئے ممالک اسرائیل سے تعلقات معمول میں لانے کے ابراہام معاہدے میں شامل ہوں گے، ٹرمپ کا دعویٰ
  • مودی راج میں اقلیتیں اور پسماندہ طبقات نظرانداز، راہول گاندھی نے اہم مطالبہ کردیا
  • گزشتہ 20 ماہ میں اسرائیلی حملے دیگر ممالک تک بڑھ گئے، رپورٹ
  • ایران کا بڑا فیصلہ: آئی اے ای اے چیف پر ایٹمی تنصیبات کے دورے پر پابندی لگادی