آپریشن سندور کے بعد بھارت کا سفارتی محاذ بھی ناکام ہوگیا، ٹیلی گراف کا بڑا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
نئی دہلی / لندن: پاکستان سے آپریشن سندور میں عبرتناک شکست کے بعد بھارت کو سفارتی محاذ پر بھی ناکامی کا سامنا ہے۔
عالمی جریدے "ٹیلی گراف" کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ساکھ بحال کرنے کے لیے جو سفارتی وفد تشکیل دیا، وہ اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اپوزیشن جماعتوں نے سوال اٹھایا ہے کہ وفد میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کیوں نہیں رکھی گئی۔ کئی سرکردہ سیاسی رہنماؤں نے اس وفد کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر سنجے راوت کا کہنا ہے کہ مودی سرکار سفارتی کمیٹی کو بھی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ راہول گاندھی کی طرف سے دیے گئے سفارتی ناموں کو مودی حکومت نے مسترد کر دیا، جس سے اپوزیشن میں مزید ناراضگی پیدا ہوئی۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، آپریشن سندور میں ہزیمت کے بعد مودی حکومت عالمی سطح پر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن داخلی خلفشار اور سیاسی مفادات نے اس سفارتی اقدام کو آغاز سے ہی ناکام بنا دیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک بھارت میں سفارتی محاذ پرنئی جنگ کاآغاز
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)بھارت کے خلاف پاکستان کی تاریخی کامیابی کے بعد ملک کے اندرمقبولیت کے حوالے سے نئی بحث شروع ہوگئی اور عالمی میڈیا
نے مسلح افواج اور سپہ سالارجنرل عاصم منیر کی مقبولیت میں اضافے کے حوالے سے اپنی رپورٹس شائع کی ہیں جب کہ سینئرتجزیہ نگاراور بعض دیگرشخصیات بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ بھارت کے خلاف تاریخی کامیابی کے بعد مسلح افواج کی مقبولیت آسمانوںسے بات کررہی ہیجب کہ اب سفارتی محاذ پرایک نئی جنگ شروع کردی گئی ہے،بھارت کیبعد پاکستان نے بھی پارلیمانی وفود تشکیل دے دیئے ہیں جو امریکہ،یورپ اور برطانیہ کے دوریکرکے پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے ،اس وفدکی قیادت وزیراعظم شہبازشریف نے سابق وزیرخارجہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کو دی ہے اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران عالمی میڈیاپربلاول بھٹوزرداری نے بہت اچھے انٹرویودے کر پاکستان کاموقف عالمی سطح پر اجاگرکیااوربھارتی میڈیاکی مہم کو بھی ناکام بنانے میں اپنافعال کرداراداکیا،ان کے وفدمیں تجربہ کار سیاستدانوں اور دفترخارجہ کے سابق سینئرشخصیات کوشامل کیاگیاہے،اس وفدمیں خارجہ امور کی سابق وزیرمملکت حناربانی کھر،سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیرجلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں جو نگران دورحکومت میں وزیرخارجہ بھی رہے ہیں جب کہ ن لیگ کے سینئررہنماخرم دستگیرخان،سابق وزیردفاع اور وزیرخارجہ بھی رہ چکے ہیں، جب کہ تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں اورخارجہ امورمیں ان تمام شخصیات کاوسیع تجربہ اور عالمی رہنماوں سے رابطے بھی موجود ہیں،دوسری جانب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے رہنماشبلی فرازنے یہ نقطہ اٹھایاہے کہ جو وفود بیرون ملک جارہے ہیں ان میں تحریک انصاف کو بھی نمائندگی دی جائے ،اس پر وزیرقانون اعظم نذیرتارڑنے حکومتی موقف کااظہارکرتیہوئے کہاکہ اگرسپیکراورچیئرمین سینیٹ مناسب سمجھیں تو اس وفدمیں اپوزیشن کو شامل کیاجاسکتاہے،شبلی فرازکانقطہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن بلاول بھٹوزرداری کی سربراہی میں جووفدبیرون ملک جارہاہے یہ پارلیمانی وفدنہیں ہے کیونکہ اس میں پارلیمنٹ سے دوشخصیات بلاول بھٹواور حناربانی کھرشامل ہیں جب کہ دیگرشخصیات پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں،پھر بھی وزیراعظم شہبازشریف کو چاہئے کہ اگرتحریک انصاف چاہتی ہے کہ اس کا کوئی رہنمااس وفدمیں شامل کیاجائے تو اس رہنماکو شامل کیاجاناچاہئے جو خارجہ امورکے معاملات سے متعلق تجربہ رکھتاہو،دوسری جانب پاک بھارت کشیدگی کے باوجود تحریک انصاف نے وزیراعظم شہبازشریف اور سپیکرسردارایازصادق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کااعلان کیاہے گو کہ یہ اعلان سابق سپیکراسدقیصرنے کیاہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ معاملہ زیرغورہے،پاک بھارت کشیدگی کے باعث فوری طور پر تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جارہی،اس پر تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہرنے جو ردعمل دیاہے وہ بڑادلچسپ ہے ان کاکہناہے کہ وزیراعظم اور سپیکرکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی خبرجھوٹی اور غلط ہے ،پی ٹی آئی نے ایساکوئی فیصلہ نہیں کیااور نہ ہی یہ ہمارے ایجنڈیمیں شامل ہے،ایک ہفتے میں سب کچھ بدل گیاہے میں بارباریہ کہہ رہاہوں کہ اگربھارت کیساتھ سیزفائرہوسکتاہے تو پاکستان میں بھی سیزفائرہوناچاہئے ان دونوں بیانات کا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرنہ تو کوئی ڈسپلن ہے نہ ہی فیصلہ سازی صحیح اندازمیں ہورہی ہے،پارٹی چیئرمین کہہ رہاہے کہ ایساکوئی فیصلہ نہیں ہوااور دوسری رہنماکہہ رہاہے کہ تحریک لائی جارہی ہے،پی ٹی آئی کے اندریکسوئی موجودنہیں ہے جب روزنامہ ممتازنے اس صورت حال پر پی ٹی آئی کے ایک سینئررہنماسے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنانام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایاکہ یہ محمودخان اچکزئی کی پرانی تجویزہے کہ وزیراعظم اور سپیکرکے خلاف عدم اعتماد لایاجائے اور ہوسکتاہے کہ ان کی شرارت کیاثرات اسدقیصرتک پہنچے اور اسدقیصرنے تحریک عدم اعتماد لانے کااعلان کردیا،محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے لئے قابل احترام ہیں لیکن اس طرح کی کوئی تجویزابھی تک پارٹی میں کسی پلیٹ فارم پر زیرغورنہیں آئی،نہ توسیاسی کمیٹی اور نہ ہی پارلیمانی پارٹی میں کوئی تجویزآئی،واضح رہے کہ محمودخان اچکزئی گزشتہ چندماہ سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ سپیکرکے خلاف پہلے اور بعدمیں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت ان کی تجویزسے اتفاق نہیں کررہی ،ویسے بھی نمبرگیم کے اعتبارسے دیکھاجائے تو حکمران اتحاد کے پاس 200سے ووٹ ہیں اور پی ٹی آئی اس کے اتحادی چھوٹی جماعتوں کے پاس 100کے قریب ووٹ ہیںاورعدم اعتماد کے لئے مزید 70ووٹ چاہئیں،اگریہ تحریک باضابطہ طورپرجمع کرادی گئی اور ووٹنگ کامرحلہ آیاتو اس بات کے خدشات موجودہیں کہ پی ٹی آئی کے ووٹ مزید کم نہ ہوجائیں۔